آئی ایم ایف کا قرض ملنے سے پہلے ہی گاڑیوں کی خریداری
شیئر کریں
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بورڈ نے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو تقویت دینے کے لیے 7 ارب ڈالر قرض دینے پر اتفاق کرتے ہوئے ایک ریلیف پیکیج کی منظوری دے دی ہے تاہم اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے کچھ نئی اور سخت شرائط بھی عائدکردی ہیں جن میں کہاگیاہے کہ قرض کیلئے طے پانے والی شرائط کے مطابق پاکستان کو ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھانا ہوگا اور مسابقت اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، سرکاری اداروں میں اصلاحات کرنی ہوں گی، اور توانائی کے شعبہ کو قابل عمل بنانا ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) ایگزیکٹو بورڈ سے منظور ہونے والے قرض پروگرام کے تحت این ایف سی ایوارڈ فارمولے پر نظرثانی کرنے اورزرعی شعبہ، پراپرٹی سیکٹر اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے سمیت مالیاتی نظم و نسق کے حوالے سیاصلاحات پرمبنی دیگر اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔نئی شرائط کے تحت آئی ایم ایف صوبائی حکومتوں کے اخراجات بھی مانیٹر کرے گا۔ قرض پروگرام کی کڑی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ مستقبل میں پنجاب حکومت کی طرز پر بجلی قیمتوں پر ریلیف نہیں دیا جائے گا، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے دوران ضمنی گرانٹس جاری نہیں کرے گا اور زرعی شعبے، پراپرٹی سیکٹر اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لائے گا۔ آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے تحت وفاق اور صوبوں کے درمیان نیا نیشنل فنانس معاہدہ کیا جائے گا، اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ پاکستان شعبہ توانائی کو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے زائد سبسڈی نہیں دے گا۔شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ غذائی اجناس کی امدادی قیمتوں کا تعین نہیں کیا جائے گا اورساتھ ہی وفاقی حکومت کے ڈھانچے کو کم کیا جائے گا۔ پاکستان کا قرض پروگرام 37 ماہ کے عرصے پر محیط ہوگا، پاکستان کو فوری طور پر ایک ارب ڈالرز کی قسط جاری کی جائیگی۔حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالرز کے قرض کے حصول کے لیے سٹاف لیول معاہدہ جولائی 2024 میں طے پایا تھا جسے ایگزیکٹیو بورڈ کی جانب سے باقاعدہ منظور کیا جانا باقی تھا۔۔اس منظوری کے بعد پاکستان کو جلد ہی 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط آئی ایم ایف سے موصول ہو جائے گی جبکہ بقیہ لگ بھگ 5.9 ارب ڈالرز آئندہ 3سال میں پاکستان کو مختلف اقساط میں دیے جائیں گے۔ پاکستان نے دسمبر 1958 میں آئی ایم ایف سے ڈھائی کروڑ ڈالر کا پہلا قرض حاصل کیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک پاکستان 20 سے زیادہ مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کر چکا ہے َماہرین معیشت کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے پہلے پاکستان کو جن کڑی شرائط پر عمل کرنا پڑا اس کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھنے اور ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئی۔ تاہم اب اہم سوال یہ ہے کہ 7 ارب ڈالر کا یہ قرض پاکستانی معیشت کے لیے کیا معنی رکھتا ہے اور اس قرض کے حصول سے کیا ایک عام پاکستانی کی زندگی آسان ہو پائے گئی؟آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے نئے قرض پروگرام کی منظوری کے بعد اس کے پاکستانی معیشت کی صورتحال پر اثرات کو ماہرین معیشت ’مثبت‘ قرار دیتے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستانی معیشت گذشتہ ڈھائی تین سالوں میں منفی شرح نمو کا شکار رہی ہے جبکہ ملک میں زرمبالہ کے ذخائر میں کمی، ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافے، مہنگائی کی شرح میں تاریخی بلندی اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے بھی پاکستانی معیشت مسائل کا شکار رہی ہے۔ اسی طرح معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی یونٹوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی سے ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔تاہم اس پروگرام کی منظوری کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کے معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے یونہی محنت جاری رکھیں گے۔ پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ خوش آئند اور معاشی ٹیم کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ان کا مزید کہنا تھا ’اگر یونہی محنت جاری رہی تو انشا اللہ یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہو گا۔وزارت خزانہ کے سابق مشیر اور ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے ایک خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس پروگرام کی منظوری سے پاکستان کی معیشت میں استحکام آئے گا۔اس کے علاوہ سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی موجودہ مالی سال میں 26 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے کیا اس قرض سے اس سلسلے میں بھی مدد ملے گی یانہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ قرض ملک کی معیشت میں اتنی گنجائش پید ا کرے گا کہ ہم اپنے ا سٹرکچرل مسائل کو حل کر سکیں جو ملکی معیشت کو لاحق ہیں۔مالیاتی اُمور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس پروگرام کی منظوری کے فوراً بعد سب سے پہلے مارکیٹ میں مثبت رجحانات جنم لیں گے، جو کہ کافی عرصے سے ناپید تھے۔یہ بات واضح ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پیسے ملنے کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا اور ایک اندازے کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر مارچ 2025 تک 11 ارب ڈالرز اور جون 2025 تک 13 ارب ڈالر تک ہوجائیں گے۔ اس پروگرام کی منظوری کے بعد پیسے آنے سے سب سے پہلے پاکستان کے بیرونی ادائیگیوں کے شعبے پر دباؤ کم ہو گا اور ملک کے پاس سرمائے کی وجہ سے داخلی طور پر مقامی بینکوں سے قرضے لینے کے سلسلے میں تھوڑا ریلیف ملے گا۔ اس پروگرام کی باقی قسطوں کے لیے شرائط میں کچھ زیادہ سختی کا امکان نہیں ہے کیونکہ نگران دور حکومت میں بہت ساری شرائط پر عمل ہو چکا ہے اور اب اس کا امکان کم ہے کہ اگلی قسطوں کے لیے بہت زیادہ سخت شرائط عائد ہوں۔تاہم اہم حقیقت یہ ہے کہ ایک عام پاکستانی جو بجا طور پر مائیکرو اکنامک استحکام اور زرمبادلہ ذخائر کے بڑھنے پر خوش ہے۔اسے روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیا پر مہنگائی اور روزگار کے کم مواقع ہونے کی وجہ سے لاحق پریشانی سے نجات ملنا تو درکنار کوئی بڑا ریلیف ملنے کا بھی امکان نہیں ہے۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ گزشتہ سال مئی میں ملک میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی،اس کی رفتار میں بتدریج کمی واقع ہوئی ہے لیکن حکومتی دعووں کے برعکس مہنگائی میں بہت زیادہ کمی نہیں ہوئی بس اس کے بڑھنے کی رفتار کچھ کم ہوگئی ہے۔جہاں تک آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد ایک عام آدمی کو ریلیف ملنے کی بات ہے تو فی الوقت ایسا ممکن نظرنہیں ٓآتا کیونکہ ارباب حکومت اپنے اللے تللے کم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض منظور ہونے کی امید پیدا ہوجانے کے بعد حکومت نے جس نے حال ہی میں نجی بینک سے بہت بھاری شرح سود پر قرض لیا ہے، کابینہ کے ارکان کیلئے 25 لگژری گاڑیاں خریدنے پر 25 کروڑ روپے خرچ کردئے ہیں اور یہ گاڑیاں اطلاعات کے مطابق حکومت کے پول میں پہنچ چکی ہیں،یعنی قرض کی پہلی قسط موصول ہونے سے پہلے ہی رقم کی بندر بانٹ شروع کردی گئی ہے،ان حقائق کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتاہے کہ اس پروگرام کی منظوری سے ایک عام فرد پر براہ راست کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی فی الفور کچھ ایسا ہو گا کہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں کم ہو جائیں، آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد اس بات کا بھی امکان نہیں ہے کہ ڈالر کی قدر میں بہت زیادہ کمی واقع ہو گی جس کی وجہ سے بیرون ملک سے منگوائی جانے والی اشیا جیسا کہ تیل، خوردنی تیل اور دوسری ضروررت کی چیزوں کی قیمت میں کمی ہو۔ تاہم روپے کی قدر مستحکم ہونے سے مرکزی بینک اور مانیٹری محاذ پر مدد ملے گی جس سے شرح سود میں کمی واقع ہو سکتی ہے جو کاروبار کو چلانے کے لیے سود مند ہو گی اور لوگوں کے لیے روزگار پیدا کر سکتی ہے۔ امید ہے کہ رواں برس عام آدمی کی قوت خرید بہتر ہو گی اور قیمتوں کے بڑھنے کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ ان کے مطابق روپے کی قدر میں بہتری سے درآمدی افراط زر میں کمی واقع ہوئی ہے، اِس کے علاوہ شرح سود میں کمی کی گنجائش پیدا ہوئی جس کے باعث مرکزی بینک نے اسے ساڑھے 17 فیصد تک کر دیا ہے، ابھی بھی اس میں کمی کی گنجائش ہے جس سے صنعتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور سرمایہ کاری اور عام آدمیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
پاکستان کی آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت کے بارے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی تک 23 پروگرام ہوئے ہیں اور پہلا پروگرام دسمبر 1958 میں طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے ہوا۔اس کے بعد آئی ایم ایف پروگراموں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ سات ارب ڈالر کے موجودہ قرض سے قبل آخری بار آئی ایم ایف بورڈ نے اگست 2022 میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی کے ساتویں اور آٹھویں ریویو کے تحت پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر قرض دیا تھا۔ایگزیکٹیو بورڈ نے جولائی 2019 میں پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔آئی ایم ایف پروگرام کی تاریخ کے مطابق فوجی صدر ایوب خان کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے تین پروگرام ہوئے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں بننے والی پہلی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف سے چار پروگرام ہوئے۔فوجی صدر جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شرکت کی۔پی پی پی کی دوسری حکومت میں بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے دو پروگراموں میں شامل ہوا۔سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پہلی حکومت میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان نے شمولیت اختیار کی۔بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دوسرے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے تین پروگراموں میں شامل ہوا تو نواز شریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں پاکستان نے دو آئی ایم ایف پروگراموں میں شمولیت اختیار کی۔سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں دو آئی ایم ایف پروگرام ہوئے، پی پی پی کی 2008 سے 2013 میں بننے والی حکومت میں ایک پروگرام، پاکستان مسلم لیگ نواز کی 2013 سے 2018 میں حکومت میں ایک پروگرام اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ایک آئی ایم ایف پروگرام میں پاکستان شامل ہوا جو تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز لیگ کی سربراہی میں مخلوط حکومت نے جاری رکھا۔لیکن ان تمام پروگراموں کے باوجود پاکستان کے عوام کی حالت بد سے بد تر ہوتی گئی یہاں تک کہ اب ملک کو ہر دوسرا شخص اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر اپنی جان داؤ پر لگاکر بیرون ملک جانے کیلئے کوشاں ہے۔