آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی یقین دہانیاں
شیئر کریں
نگراں وزیراعظم نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اوراسی جماعت کے دیگر قید رہنماؤں کی موجودگی کے بغیر بھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہو سکتے ہیں، جبکہ اس کے بر خلاف عبوری حکومت نے بار بار یہ دعوے کیے ہیں کہ وہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد میں سہولت فراہم کرے گی اور کسی قسم کی مداخلت کی اجازت نہیں دے گی۔انسانی حقوق کمیشن سمیت مختلف سیاسی حلقوں اور خود تحریک انصاف کی جانب سے نگران وزیراعظم کا بیان آئین و جمہوریت اور ملکی مفادات کے حوالے سے ریاستی ڈھانچے میں پائی جانے والی عدم حساسیت کا مظہر قرار دیاگیااور یہ وضاحت کی گئی کہ تحریک انصاف پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور عمران خان بلا شرکت غیرے ملک کے مقبول ترین سیاسی قائد ہیں، نگران وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ عمران خان یا تحریک انصاف کی شمولیت کے بغیر کروایا گیا کوئی بھی الیکشن غیرآئینی، غیرقانونی اور غیراخلاقی ہوگا جسے عوام ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ترجمان تحریک انصاف نے کہا کہ غیرمعمولی عوامی تائید کی حامل سیاسی قیادت اور جماعتوں کو مصنوعی، غیرجمہوری اور غیرآئینی طریقوں سے انتخاب سے باہر کرنے کے نتائج ہمیشہ تباہ کن ہوا کرتے ہیں، دستور، قانون، جمہوریت اور اخلاق نگران وزیراعظم کو سیاست و انتخاب پر اثر انداز ہونے کے کسی غیرفطری، غیرجمہوری اور غیرآئینی منصوبے کا حصہ بننے کی ہرگز اجازت نہیں دیتے۔انسانی حقوق کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کے بغیر صاف و شفاف الیکشن سے متعلق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے بیان پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ عمران خان اور جیل میں بند پی ٹی آئی کارکنوں کے بغیر بھی شفاف انتخابات کے متعلق نگران وزیر اعظم کا بیان غیر جمہوری ہے۔بیان میں ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ انوار الحق کاکڑ کا بیان غلط فیصلے پر مبنی ہے، پارٹی رہنماؤں کے خلاف عدالت میں زیرِ سماعت مقدمات پر مجرم قرار دینا عدالت کا کام ہے اور منصفانہ انتخاب کا فیصلہ بھی ان کو نہیں کرنا چاہئے۔ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ منصفانہ الیکشن کیا ہے؟ اس کا فیصلہ نگران وزیر اعظم یا ان کی حکومت کا کام نہیں۔ پی ٹی آئی قیادت کو وسیع پیمانے پر گرفتاریاں اور پھر رہائی کے بعد دوبارہ گرفتاریاں کرکے منظم طریقے سے ختم کیا گیا۔ انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کو پارٹی سے زبردستی علیحدہ کیا گیا۔ سیاسی رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف متعدد مقدمات داخل کیے گئے، اظہارِ رائے اور اجتماع کی آزادی پر قدغن لگائی گئی جو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں۔کمیشن کا کہنا ہے کہ ہم پی ٹی آئی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ناروا سلوک کی بھی مذمت کرتے ہیں جن کو ہائی کورٹ کی ہدایات کے باوجود متعدد بار گرفتار کیا جاچکا ہے۔ جس کے بعد نگراں وزیر اطلاعات کو یہ وضاحت کرنا پڑی کہ نگراں وزیراعظم کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیاگیا خود نگراں وزیر اعظم کو بھی اپنے اس بیان کے بارے میں یہ کہناپڑا کہ ان کے بیان کا غلط مطلب لیاگیا۔حالانکہ اخبارات گواہ ہیں کہ کاکڑ مختلف مواقع پر اپنے بیانات میں تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کے خلاف خبث باطن کا اظہار اور ایک مفرور مجرم نواز شریف سے ہمدردی کا اظہار کرتے رہے ہیں،یہاں تک کہ ان کے وزیر اطلاعات یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کوئی جیل توڑ کر تو فرار نہیں ہوئے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ جیل یاحوالات سے چکمہ دے کر فرار ہونا بھی بھی جیل توڑ کر فرار ہونے کے مساوی ہے۔ تحریک انصاف کو انتخاب سے باہر رکھنے کی خواہش کے خلاف بڑے پیمانے پر شدید ردعمل کو دیکھتے ہوئے گزشتہ روزسیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں یہ کہنا پڑا ہے کہ آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے ہیں اور ’الیکشن کمیشن کا کوئی فیورٹ نہیں۔ ملک میں انتخابات کے نگران ادارے کے سیکرٹری کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتوں کی طرف سے یہ الزامات عاید کیے جارہے تھے کہ نگراں حکومت مسلم لیگ ن کی بیجا حمایت کر رہی ہے،مسلم لیگ ن کے مسلمہ وفاداروں کو نگراں حکومت میں شامل کرلیاگیا ہے جو مبینہ طورپر درپردہ مسلم لیگ ن کو بیجا مراعات فراہم کر نے کی کوشش کررہے ہیں اور الیکشن کمیشن نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں،الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ انتخابات میں سب کے لیے ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ یعنی یکساں مواقع ہونے چاہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس پاکستان پیپلز ہارٹی کے سینیٹر تاج حیدر کے زیر صدارت ہوا جس میں آئندہ انتخابات سے متعلق تیاریوں اور معاملات زیر بحث آئے۔ اجلاس کے آغاز میں سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ’الیکشن کمیشن کا کوئی فیورٹ نہیں۔ ہمارے ساتھ بہت کچھ ہوا اس کو بھی پس پردہ رکھا ہوا ہے، ہم سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ دے رہے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے بہت سے اقدامات متعارف کرائے گئے ہیں۔ ’ہم نہیں سمجھتے کہ اس سارے کام کے بعد آئندہ عام انتخابات میں دھاندلی ہو گی، ادارہ جو انتظامات کر رہا ہے ان میں دھاندلی کا امکان نہیں ہو گا۔سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’صوبائی حکومتیں رضامند نہیں تھیں لیکن پھر بھی ہم نے بلدیاتی انتخابات کروائے۔ ہم یقینی بنا رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن سے جو غلطیاں ماضی میں ہوئیں وہ دوبارہ نہ کی جائیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج حیدر نے کہا ملک میں تاخیر سے انتخابات کا معاملہ اہم ہے اور ان کے بقول آئین حلقہ بندیوں کا مطالبہ نہیں کرتا۔ جس پر سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ’مردم شماری کا بوجھ ہمارے اوپر نہ ڈالیں، مردم شماری کی منظوری آپ تمام جماعتوں نے دی۔چیئرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ الیکشن کمیشن نے تاحال انتخابات کے شیڈول اعلان کیوں نہیں کیا؟ ’لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ الیکشن کا شیڈول دینے میں کیا رکاوٹ ہے؟‘ جس پر سیکریٹری کا کہنا تھا کہ کمیشن واضح کر چکا ہے کہ انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں ہوں گے اور تاریخ کا بھی اعلان کر دیا جائے گا۔ اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام کے کامران مرتضیٰ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وقار مہدی نے انتخابات دسمبر میں کرانے کی تجویز دی جس پر سیکرٹری کمیشن کا کہنا تھا کہ ’انتخابات پہلے ہوں گے تو حلقہ بندیوں پر سوالات اٹھیں گے، ابھی بھی حلقہ بندیوں سے متعلق بہت سی درخواستیں پڑی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ قائمہ کمیٹی کے تحفظات اور سفارشات الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے۔ اطلاعات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات کروانے کی تجویز دی ہے اور یہ بھی کہا گیاہے کہ حلقہ بندیوں پر اعترضات سے متعلق درخواستیں دائر کرنے کا وقت کم کیا جائے تاکہ انتخابات کو مزید قریب لایا جا سکتا ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سیکریٹری الیکشن کمیشن پر یہ واضح کیا کہ آئین اس بات کو ضروری نہیں بناتا کہ نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی جائیں تاہم الیکشن ایکٹ میں یہ بات موجود ہے۔ الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کرائے جائیں گے۔ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے سے متعلق گذشتہ ہفتے مسلم لیگ ن کے رہنما اور نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر نے یہ منطق پیش کی تھی کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا ہر جگہ مطالبہ کیا جاتا ہے، اور اس کا مطلب برابر مواقع ملنا ہے۔ نواز شریف کی واپسی پر جب ان پر بنے کیسز ختم ہوں گے تو ہم سمجھیں گے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی ہے۔جبکہ پیپلز پارٹی دوسرے تمام صوبوں ترقیاتی کاموں کی اجازت اور سندھ میں اس پر پابندی کو پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادتی قرار دیتی ہے پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی بھی ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ’چاروں صوبوں میں نگران حکومت ہونے کے باوجود صرف پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ترقیاتی منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں اور تعیناتیاں اور تقرریاں ہورہی ہیں تاہم سندھ میں ان پر بالکل پابندی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ سندھ میں بھی ایسے نہیں ہونا چاہئے۔ اگر نہیں ہے تو کسی کے لیے نہیں ہونا چاہئے۔ یہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور عمران خان پچھلے ایک سال کے دوران سیاسی صورتحال میں آنے والے اتار چڑھاؤ کے باوجود کافی مقبول ہیں۔ اس حقیقت کے علی الرغم اگر پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر کیا گیا تو یہ بات واضح ہے کہ انتخابات کی ساکھ پر شکوک پیدا ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا یہ جمہوری حق ہے کہ وہ انتخابات کے دوران یکساں آزادانہ ماحول میں حصہ لیں اور مہم چلائیں اور سب کو برابری کا میدان میسر آئے۔دوسری سیاسی جماعتیں جیسے پی پی پی اور مسلم لیگ ن بھی انتخابات سے قبل برابری کا میدان فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پچھلی پی ڈی ایم حکومت نہ صرف عمران خان کو ہٹانے میں اپنے دستوری کردار کے بعد پی ٹی آئی کے ہمدردوں کی نگاہ میں بڑی مبغوض ٹھہری، اس پر مستزاد پی ڈی ایم حکومت معاشی مسائل کو قابو کرنے میں ناکامی کے باعث عوامی سطح پر بھی بہت غیر مقبول ہوگئی۔ اب جبکہ عبوری حکومت چل رہی ہے، تو سابق حکمران اتحادی جماعتیں انتخابات سے قبل باہم دست بہ گریباں دکھائی دیتی ہیں۔مسلم لیگ (ن) نے 21 اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان کیا ہے، مگر سیاسی تجزیہ کاروں کے نزدیک ان کی واپسی اب بھی مشکوک ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ شہباز شریف ایک ماہ سے زائد عرصے تک لندن میں رہ کر واپس آئے لیکن اپنے بھائی کے لیے ’اہم پیغام‘ دینے کے لیے ایک ہی دن میں واپس لندن پدھار گئے۔ اگلے انتخابات میں ن لیگ کو کوئی موقع مل رہا ہے تو نواز شریف کی واپسی ضروری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کرنے کے لیے مشکل چیلنج کا سامنا ہے۔