تابش گوہر کے بعد اگلی برطرفی کس کی ہوگی ؟اگلا شکار رزاق داؤد
شیئر کریں
(رپورٹ :ناصر محمود)گذشتہ ہفتے کی بریکنگ نیوز وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی و پیٹرولیم تابش گوہر کی برطرفی تھی اْنھیں پچھلے سال اکتوبر کے اوائل میں اس عہدے پر فائز کیا گیا تھا- اطلاعات کے مطابق ان پر پی ایس اَو اور مختلف پاور پلانٹس میں اپنے منظور نظر افسران کی تعیناتی کا الزام تھا- تابش گوہر اَوسس انرجی کے بانی اور چیئرمین ہیں جو توانائی کے شعبے میں مینیجمنٹ کنسلٹنسی فرم ہے- اسکے علاوہ انھوں نے سات سال سے زائد عرصہ "کے الیکٹرک” کے ڈائریکٹر، چیف ایگزیکٹیو آفیسراور بورڈ کے چیئرمین کے عہدے پر کام کرنے کے بعد 2015 میں استعفیٰ دیدیا تھا یہ حقیقت بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ جیسے بطور معاون خصوصی انھیں افسران کی تقرری میں بد عنوانی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے برطرف کیا گیا ہے اسی طرح "کے الیکٹرک” کمپنی سے بھی وہ ایک اہم اور سنگین جرم میں نکالے گئے تھے- ان کے بارے میں ایک جریدے نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی الیکٹرک کمپنی کے قانون کے مطابق اس کی سربراہی پر فائز ہونے والے شخص کیلئے لازم ہے کہ وہ الیکٹریکل انجینئر کی ڈگری کا حامل ہو جبکہ تابش گوہر الیکٹریکل انجینئر نہیں تھے- ذرائع کے مطابق اس خبر کے عام ہوتے ہی کراچی الیکٹرک کمپنی کی انتظامیہ موصوف کو برطرف کرنے پر مجبور ہو گئی کیونکہ انکی موجودگی میں وہ ایک سنگین قانونی جرم کی مرتکب ہو رہی تھی تابش گوہر سے قبل وزارت خزانہ کے ایک مشیروقار مسعود نئے وزیر خزانہ شوکت ترین کی نا پسندیدگی کا شکار ہو کر مستعفی ہو چکے ہیں اور ان سے پہلے اسی طرح تقریباً نصف درجن اعلٰی عہدیداروں سے عمران خان کی حکومت چھٹکارا حاصل کر چکی ہے باخبر ذرائع کے دعوے کے مطابق اس فہرست میں ایک نیا اضافہ آنیوالے دنوں میں وزیراعظم کے مشیر تجارت جناب رزاق داؤد کا ہو سکتا ہے اسکی نشاندہی کرتے ہوئے انھوں نے گزشتہ ہفتے کابینہ کی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی کے اس اجلاس کا حوالہ دیا جس میں وزارت خوراک نے ملک میں گندم کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گندم کی درآمد میں تاخیر کا ذمہ دار وزارت تجارت کو قرار دیا خوراک کے وزیر سیّد فخر امام کے مطابق اس سلسلے میں مجرمانہ تاخیر کے سبب ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی گندم کے بحران کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا کہ اس بارے میں فوری کاروائی کی جائے عبدالرزاق داؤد پاکستانی صنعت و تجارات کا ایک معروف نام ہیں وہ اسوقت وزیراعظم کے مشیر تجارت کے عہدے پر فائز ہیں وہ 1999سے 2002 تک مشرف حکومت کی کابینہ کے وزیر رہے، مرحوم سیٹھ احمد داؤد کے بھتیجے ہیں- 1977 میں انھوں نے ڈیسکون انجینئرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی بنیاد رکھی جس نے انجینئرنگ، کنسٹرکشن، کیمیکلز اور پاور کے شعبوں میں شہرت حاصل کی۔ اس کمپنی کا کاروبار عرب امارات، سعودی عرب، اومان، قطر، کویت، عراق سے لے کر جنوبی افریقہ اور کینیا تک پھیلا ہوا ہے۔ رزاق داؤد روش پاکستان پاور لمیٹڈ نامی آئی پی پی کے مالک اور پاکستان بزنس کونسل کے چیئرمین ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا نام بے شمار تجارتی کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز میں بھی شامل ہے۔ وفاقی وزیر کے برابر عہدہ اور اختیارات رکھنے والے عبدالرزاق داؤد 20 اگست 2018 سے موجودہ حکومت میں شامل ہیں مگر وطن عزیز کا تاجر و صنعتکار طبقہ ان کے کسی کام اور پالیسی سے اب تک مطمئن نہیں ہو سکا۔ ان کے زیر قیادت ملکی تجارت میں خسارے کا تناسب مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ان کی ذاتی مفاد پرستی اور لالچ پر مبنی طرز عمل کا حوالہ دیتے ہوئے حال ہی کی ایک تقریب میں انکشاف کیا گیا کہ موصوف اپنے پاور پلانٹ کی تیار شدہ بجلی تو حکومت کو 18 روپے فی یونٹ کے مہنگے نرخوں پر فروخت کرتے ہیں مگر وہی بجلی اپنی ٹیکسٹائل صنعت کے لئے حکومت سے صرف 12 روپے کے سستے داموں پر خریدتے ہیں۔ اس صورتحال میں اگر امریکی ڈالر ان کے دور میں 119 روپے سے 170 روپے تک پہنچ گیا ہے تو ہمیں زیادہ حیران نہیں ہونا چاہیے۔