میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عمران خان کا قبل از وقت انتخابات کامطالبہ

عمران خان کا قبل از وقت انتخابات کامطالبہ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۸ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ہم اس حقیقت کا آپریشن اس سے قبل کئی مرتبہ کرچکے ہیں اور اس امید پر آج پھر تحریری آپریشن کررہے ہیں ’’شاید کہ اُترجائے کسی کے دل میں ہماری بات‘‘ہم نے بھی وطن عزیز کے تمام سیاستدانوں کی فکری دہلیزپر ہمیشہ دَستک دی کہ یہ ملک دنیائے اسلام کا عظیم ملک ہے اور اگر اس کے قیام کے مقاصد کے لیے ہمیں اُس حکمت عملی کی طرف بڑھنا پڑے گا جو ضمانت دیتی ہے کہ ہم سیاسی ونظریاتی ذمہ داری کس طرح نبھائیں گے آج ملک میں سیاسی جنگ وجدل جاری ہے اور لوٹ کھوسٹ کا بازار گرم ہے۔ یہ ہم ہی نہیں محسوس کرتے بلکہ ملک کے بلند پایہ دانشور،قلمکار، تجزیہ نگار اور دور اندیش احباب بھی یہ شدت سے محسوس کررہے ہیں کہ حب الوطنی، دیانت اور افہام تفہیم کا اِس قدر فقدان ہے کہ ہمیں یہ تلاش کرنا بھی مشکل ہے کہ وہ لوگ کہاں ہیں جنہوں نے اس ملک کی حفاظت اور تکمیل کرنی ہے۔ چوروں،لٹیروں اور مفادات کے سوداگروں کا جمعہ بازار لگ چکا ہے اور ہمیں کسی کے ہاتھ صاف دِکھائی نہیں دیتے۔ البتہ وہ ہی لوگ دیانتدار اور ایماندار دِکھائی دیتے ہیں جن کو لوٹ کھسوٹ کا موقع نہیں ملا۔
بہرحال میاں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ تھے انھوں نے متعدد بار ۔وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوکر اپنا سیاسی ونظریاتی کردار ادا کیا۔ ہم ان کی سیاسی جماعت کو نہ صرف اہمیت دیتے ہیں بلکہ کی اچھی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں کیونکہ اسی سیاسی جماعت کی نظریاتی کوکھ سے پاکستان جو اسلامی مملکت خداداد کے نام سے موسوم ہوا ۔مگر اس سے یہ پردہ اُٹھانا بھی ہماری مجبوری ہے کہ یہ عظیم قومی جماعت بھی مطلوبہ نظریاتی قیادت سے محروم رہی ۔ہمارے ایک قلمی اور فکرودانش کے معروف دوست سکندر حیات مغل نے بڑی پائے کی بات پکڑی جن کا ذکر وہ اپنے کالم میں کرچکے ہیں ۔انہوں نے آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ(ن) ،آزاد کشمیر کے قائد سردار سکندر حیات خان کی ملاقات اور اُن کی گفتگوکا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے برملا یہ کہا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح جب فوت ہوئے تو مسلم لیگ بھی فوت ہوگئی تھی اور جب قائداعظم کو دفن کیا گیا تو عملی طورمسلم لیگ بھی دفن ہوچکی تھی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیںکہ اگر مسلم لیگ کی نظریاتی قیادت قائم رہتی تو آج شاید ملک تعمیروترقی کی بلندیاں چھورہا ہوتا۔ یہ مسلم لیگ کے کمزور اور ختم ہونے کی علامت ہے کہ سیاسی جماعتوں کا لُنڈا بازار لگا ہوا ہے میاں نواز شریف ایوان اقتدار سے بے آبرو ہوکر باہر نکل گئے اوروہی نوازشریف جو کل تخت پر بیٹھے خود کو افلاطون ہی نہیں پتہ نہیں کیاکچھ سمجھ رہے تھے بلکہ قوم کو بھی سمجھارہے تھے۔ مگر اب سیاسی رسوائی کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں۔ اے ملک کے سیاستدانوں یہ تمسخر‘مذاق اور مسکرانے کا مقام نہیں بلکہ مقام عبرت ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ کے خلاف بھی گھنٹی بج جائے ۔ آپ کو استغفار سے کام لیتے ہوئے اپنی اصلاح کی طرف قدم اُٹھانا چاہیے ۔
عمران خان صاحب نے مطالبہ کیا کہ قبل ازوقت انتخاب کا اعلان کردیا جائے ہم یہ دیکھ بھی رہے ہیں کہ متعدد پارٹیوں نے یہ مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ اور اُن کا جواز بھی یہ ہے کہ جب آئندہ کے انتخابات کا وقت اس قدر قریب ہے کہ ہم اس مطالبہ کو سیاسی پریکٹس اور تماشہ ہی نہ بنالیں۔ اور پھر میاں نواز شریف فرد واحد کی حیثیت میں تھا، ہے اور رہیگا۔اُس پر قائم ہونے الے مقدمات نے اِنھیں شرمندہ، مایوس اور پریشان تو کیا مگر پھر بھی نہ مانوں کا راگ الاپ رہے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں اگر مسلم لیگ پھر سے کامیاب ہوجاتی ہے تو اُس میں سے ایوان اقتدار کے لیے دیانت دار اور ایماندارشخص کون تلاش کرے گا۔ اور اگر تحریک انصاف کامیاب ہوجاتی ہے تو اس میں سیاسی علمائوں ، تجربہ کاروں اور ایمانداروں کی کھیپ کہاں سے ملے گی۔
جبکہ پیپلزپارٹی بھی تاریخ کے اُس موڑ پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں اُس کو اب خود پتہ نہیں کہ وہ کس طرف جارہی ہے ارو اس کی منزل کہاں ہے اگر تھوڑا سا بھی احساس ہوتا تو لاہور کے حالیہ انتخاب حلقہ 120میں کلثوم نواز کے خلا ف لڑنے والے انتخاب میں اپنی ضمانت ضبط نہ کرواتی۔ البتہ یہ ہماری مثبت، جامع اور بہتر رائے یہی ہے کہ ملک میں اخلاقیاتی رواداری قائم رہنی چاہیے۔ اور افہام وتفہیم کے ساتھ قومی مفادات کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہم تمام پارٹیوں میں ایسے کارکنوں کا فقدان سمجھتے ہیں جو اپنے اعلیٰ کردار کے حامل ہوں اور اعلیٰ قیادت کے امین بھی۔ مگر اس صداقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ہر لیڈر ایسے افراد کو دائیں بائیں اور آگے پیچھے کھڑا کرتے ہیں جو چمچہ گیری کے ماہر ہوتے ہیں ، ہم یہ بات بہرحال بہتر سمجھتے ہیں کہ وقت کا نہ صرف انتظار کریں کہ کب انتخابی بگل جنے والا ہے۔ بلکہ معرکہ سرکرنے کے لیے حکمت عملی کی تیاری کریں قوم کا یہی وہ حتمی اور طاقتور فیصلہ ہے جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرتی ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم نے اپنا فرض نبھانے اور پورا کرنے کو کو تاہی کا ارتکاب کیا تو پھر ہم بھی من حیث السیاستدان بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح صحرا میں گھومتے رہیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں