سانحۂ کربلا اور شہادت امام حسین ص
شیئر کریں
( قسط:7)
امام حسین صکا سر مبارک جب یزید کے سامنے رکھا گیا تو اُس وقت اُس کے بھی ہاتھ میں ایک چھڑی تھی ، جو وہ امام حسینص کے موتیوں جیسے دانتوں پر لگاکر حصین بن ہمام کے اشعار پڑھ رہا تھا،جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’ جب ہماری قوم نے ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو پھر ہماری خونچکاں تلواروں نے خود ہی انصاف کیا ، جنہوں نے ایسے مردوں کے سر پھاڑ دیئے جو ہم پر سخت تھے اور تعلقات قطع کرنے والے ظالم تھے۔‘‘اتفاقاً وہاں حضرت ابوبرزہ اسلمی بھی موجود تھے، اُنہوں نے جب یہ دیکھاتو فرمانے لگے: ’’ای یزید! تو اپنی چھڑی امام حسین صکے دانتوں پر لگاتا ہے، حالاں کہ میں نے رسول اللہ ا کو ان ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے، اے یزید! قیامت کے دن جب تو آئے گا تو تیری شفاعت ابن زیاد ہی کرے گا، اور امام حسینص آئیں گے تو اُن کی شفاعت حضورِ نبی پاک ا کریں گے ۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت ابو برزہ اسلمی ص مجلس سے نکل گئے۔
جب یزید کی بیوی ہند بنت عبد اللہ نے یہ خبر سنی کہ امام حسینص شہید کردیئے گئے اور اُن کا سر یزید کے دربار میں لایا گیا ہے تو کپڑا اُوڑھ کر باہر نکل آئیں اور کہنے لگیں کہ: ’’اے امیر المؤمنین! کیا رسول اللہ ا کے لخت جگر کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا ہے؟ اُس نے کہاکہ: ’’ہاں! اللہ تعالیٰ ابن زیاد کو ہلاک کرے! اُس نے قتل کرنے میں بڑی جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔‘‘ ہند بنت عبد اللہ یہ سن کر بے اختیار رو پڑیں۔
اس کے بعد اہل بیت کی قیدی عورتیں اور بچے یزید کے سامنے لائے گئے ، اورسر مبارک مجلس میں رکھا ہوا تھا، امام حسینص کی دونوں شہزادیاں فاطمہؓ اور سکینہؓ پنجوں کے بل کھڑے ہوکر اپنے والد ماجد کا سر مبارک دیکھنا چاہتی تھیں ، جب کہ یزید اُن کے سامنے کھڑا ہوکر چاہتا تھا کہ وہ یہ سر نہ دیکھ سکیں، لیکن جب اُن کی نظر اپنے والد ماجد کے سر مبارک پر پڑہی گئی تو وہ دونوں بے ساختہ روپڑیں، حتیٰ کہ اُن کے رونے کی آواز سن کر یزید کے گھر کی عورتیں بھی چلا اُٹھیںاور یزید کے محل میں ایک ماتم کا سماں بندھ گیا۔
حضرت فاطمہؓ بنت علیص سے مروی ہے کہ: ’’ جب ہم لوگ یزید کے سامنے پیش کیے گئے تو اُس نے ہم پر ترس ظاہر کیا، ہمیں کچھ دینے کا حکم کیا اورہمارے ساتھ بڑی مہربانی سے پیش آنے لگا، اسی اثناء میں ایک سرخ رنگ کا شامی لڑکاکھڑا ہوا اور کہنے لگا: ’’اے امیر المؤمنین! یہ لڑکی مجھے عنایت کردیجئے! اور میری طرف اشارہ کیا، میں اُس وقت کم سن اور خوب صورت تھی، اس لئے خوف سے کانپنے لگیاور میں نے اپنی بہن حضرت زینب کی چادر پکڑ لی، وہ مجھ سے بڑی تھی اور زیادہ سمجھ دار تھیں اور جانتی تھیں کہ یہ بات نہیں ہوسکتی، انہوں نے نہایت سختی سے چلا کر کہا کہ: ’’تو کمینہ ہے! نہ تجھے اس کا اختیار ہے اور نہ ہی یزید کو اِس کا حق ہے۔‘‘ حضرت زینب کی اِس جرأت پر یزید کو غصہ آگیااور وہ برہم ہوکر کہنے لگاکہ: ’’تو جھوٹ بکتی ہے ، اللہ کی قسم! مجھے یہ اختیار حاصل ہے اگر چاہوں تو ابھی کرسکتا ہوں۔‘‘ حضرت زینبؓ نے فرمایا: ’ ’ ہرگز نہیں! اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حق ہرگز نہیں دیا، یہ دوسری بات ہے کہ تم ہماری ملت و مذہب سے نکل جاؤ اور ہمارا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلو!۔‘‘ اِس پر یزید اور زیادہ برہم ہو اور کہنے لگا: ’’دین سے تیرا باپ اور بھائی دونوں نکل چکے ہیں۔‘‘ حضرت زینبؓ نے بلا تامل دوٹوک جواب دیا ،کہ: ’’اللہ کے دین سے، میرے باپ کے دین سے، میرے بھائی کے دین سے، میرے نانا کے دین سے، تونے، تیرے باپ نے، اور تیرے دادا نے ہدایت پائی ہے۔‘‘ یزید چلایاکہ: اے دُشمن خدا! تو جھوٹی ہے ۔‘‘ حضرت زینبؓ بولیں: ’’تو زبردستی حاکم بن بیٹھا ہے، ظلم سے گالیاں دیتا ہے اور اپنی قوت سے مخلوق کو دباتا ہے۔‘‘ حضرت فاطمہؓ بنت علیص کہتی ہیں کہ: ’’یہ گفتگو سن کر شاید یزید شرمندہ ہوگیا، کیوں کہ پھر کچھ نہ بول سکا ، مگر وہ شامی لڑکا پھر کھڑا ہوا اور پھر اُس نے وہی بات کہی، اِس پر یزید نے اُسے غضب ناک آواز میں ڈانٹ پلائی اور کہاکہ: ’’اوئے کم بخت! دفع دُور ہو، اللہ تیرا بیڑا غرق کرے!۔‘‘
اِس کے بعد یزید نے اہل بیت کی عورتوں کو اپنی عورتوں کے پاس بھیج دیا، یزید کی عورتوں میں سے کوئی عورت ایسی نہ رہی کہ جس نے ان کے پاس آکر آہ و بکاء اور گریہ و زاری نہ کی ہو، اور جو زیورات وغیرہ ان سے لے لئے گئے تھے اُن سے کہیں زیادہ یزید کی عورتوں نے ان کی خدمت میں پیش کیے۔
اِس کے بعد علی اصغرص ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں یزید کے سامنے لائے گئے، اُنہوں نے یزید کے سامنے آکر کہا کہ: ’’اگر رسول اللہ ا ہمیں اس طرح قید میں دیکھتے تو ہمیں قید سے رہا فرمادیتے۔‘‘ یزید نے کہاکہ: سچ ہے۔‘‘اور قید سے رہا کردینے کا حکم دے دیا۔ علی اصغرص نے کہا رسول اللہا ہمیں اس طرح مجلس میں بیٹھا ہوا دیکھتے تو اپنے قریب بلا لیتے۔‘‘ یزید نے ان کو اپنے قریب بلالیا، اور کہا کہ: ’’اے علی بن حسینص! تمہارے والد ہی نے مجھ سے قطع رحمی کی اور میرے حق کو نہ پہچانااور میری سلطنت کے خلاف بغاوت کی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ کیا جو تم نے دیکھا۔علی اصغرص نے قرآنِ مجید کی یہ آیت پڑھی، جس کا ترجمہ ہے: ’’جو کوئی مصیبت بھی تمہیں پہنچتی ہے زمین میں یا تمہاری جانوں پر سو وہ کتابِ تقدیر میں لکھی ہوئی ہے، زمین کے پیدا کرنے سے قبل اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے لئے آسان ہے (اور تمام کاموں کا تابع تقدیر ہونا) اس لئے بیان کیا گیا کہ جو چیز تم سے فوت ہوجائے اس پر زیادہ غم نہ کرو! اور جو چیز مل جائے اس پر زیادہ خوش نہ ہو، اللہ تعالیٰ فخر کرنے والے متکبر کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (سورۃ الحدید: ۲۲،۲۳)
یزید یہ سن کر خاموش ہوگیا، پھر حکم دیا کہ: ’’ان کو اور ان کی عورتوں کو ایک مستقل مکان میں رکھا جائے اور یزید کوئی ناشتہ اور کھانا نہ کھاتا تھا کہ جس میں علی بن حسینص کو نہ بلاتا ہو، ایک دن ان کو بلایا تو اُن کے ساتھ اُن کے چھوٹے بھائی عمرو بن الحسینص بھی آگئے، یزید نے (اپنے لڑکے خالد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) عمرو بن الحسینص سے بطورِ مزاح کے کہا کہ: ’’تم اس سے کشتی کرسکتے ہو؟۔‘‘ عمرو بن الحسین صنے کہاکہ: ’’جی ہاں! کرسکتاہوں، بشرطیکہ آپ ایک چھری اُس کو دیں اور ایک چھری مجھے دیں۔‘‘یزید نے کہا:’’ آخر سانپ کا بچہ سانپ ہی ہوتا ہے۔‘‘
(جاری ہے)