بجلی کے ہوشربا بل اور تقسیم کار کمپنیوں کا اضافی 146 ارب روپے کا "ریکوری مشن"
شیئر کریں
٭نیپرا نے جولائی میں بجلی کے ٹیرف میں چار روپے 96 پیسے اضافہ کیا تھا جو آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے قلیل مدتی قرضہ پروگرام کی منظوری دیتے وقت رکھی گئی ایک شرط تھی
٭آئے دن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے، بڑھتی مہنگائی اور تعلیم سمیت دیگر ضروریات سے پریشان لوگوں کو رواں مہینے اس وقت ایک بڑا جھٹکا لگا جب انہوں نے اپنا بجلی کا بل دیکھا
٭بجلی کے زیادہ بلوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ صرف ملک کے بڑے شہروں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں رواں برس مئی سے مہنگی بجلی کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئے دن اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے، بڑھتی مہنگائی اور بچوں کی تعلیم سمیت دیگر ضروریات سے پریشان لوگوں کو رواں مہینے اس وقت ایک بڑا جھٹکا لگا جب انہوں نے اپنا بجلی کا بل دیکھا۔ جو بل کبھی تین سے چار ہزار تک آتا تھا، وہ اب 10 ہزار آیا ہے۔ لوگ اسی شش وپنج میں ہیں کہ بجلی کا بل کیسے ادا کریں گے۔
بجلی کا بل زیادہ آنا صرف چند افراد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کے کئی شہروں میں اس کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ ایک طرف عوام جہاں مہنگائی اور بجلی کے زیادہ بلوں پر غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں وہی گزشتہ روز پاکستان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی کی قیمتوں (ٹیرف) میں سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافے کی درخواست کی۔ پاکستان میں بجلی کی ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا کے مطابق سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تقسیم کار کمپنیاں 146 ارب روپے صارفین سے اضافی ریکور کرنا چاہتی ہیں۔ نیپرا نے جولائی میں بجلی کے ٹیرف میں چار روپے 96 پیسے اضافہ کیا تھا جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے قلیل مدتی قرضہ پروگرام کی منظوری دیتے وقت رکھی گئی ایک شرط تھی۔ کراچی میں بھی بجلی کے زیادہ بلوں کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ کے الیکٹرک کے خلاف تاجر سڑکوں پر نکل آئے اور بل نہ جمع کروانے کا اعلان کر دیا۔ شہر کے مختلف علاقوں اور مارکیٹوں میں کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ کراچی اولڈ سٹی ایریا میں تاجروں نے بل ادا نہ کرنے پر کے الیکٹرک کے عملے کو کنکشن کاٹنے سے بھی روک دیا۔ زیادہ بل کی ایک انوکھی مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب صحافی محمد رضوان کو ایک مضحکہ خیز بل آیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بند گھر کا بل اس بار ساڑھے تین ہزار روپے آیا ہے جبکہ بل میں درج یونٹس کی تعداد دو ہے۔ یعنی دو یونٹ کا بل ساڑھے تین ہزار روپے ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں کے الیکٹرک اپنی مرضی سے صارفین سے پیسے وصول کر رہی ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایک نظام ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ایک بار بل اگر سسٹم میں بن جائے تو وہ ادا کرنا ہی کرنا ہے۔ کے الیکٹرک سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ بل کی قسطیں کروا لیں۔ سسٹم میں بل بن گیا ہے تو جمع کروانا ہی ہو گا۔مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ایبٹ آباد، چارسدہ، نوشہرہ، کوہاٹ اور مردان میں بڑی تعداد میں شہری احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے۔ پشاور میں مسلم ٹاؤن، گلبہار چوک اور پشاور پریس کلب کے باہر شہریوں نے احتجاج کے دوران بل نذرآتش کیے۔ تاجر برادری کی جانب سے قصہ خوانی بازار میں احتجاجی کیمپ لگایا گیا جس میں تاجر سیاہ پٹیاں پہن کر شریک ہوئے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس لیا جائے ورنہ صوبے بھر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ کیا بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ رک پائے گا اور عوام کو کوئی ریلیف مل سکے گا، اس حوالے سے معاشی امور کے ماہر کہتے ہیں کہ‘بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ ایسے ہی جاری رہے گا۔بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافے کی ایک وجہ آئی ایم ایف کا معاہدہ بھی ہے لیکن پاور سیکٹر کی اپنی ناکامی بھی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے نقصانات کم کرنے اور بجلی کی چوری روکنے میں ناکام رہی ہیں۔نگراں حکومت کا تو یہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے جبکہ کوئی بھی حکومت اس حوالے سے کچھ نہیں کر سکے گی کیونکہ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایک اور ماہر کے مطابق انہیں بجلی کی قیمت کے حوالے سے کوئی ریلیف نظر نہیں آتا۔روپے کی قدر میں کمی، فیول کی قیمتوں میں اضافے اور پاور سیکٹر کی ناکامی کی وجہ سے مسلسل قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔بجلی کے زیادہ بلوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ صرف ملک کے بڑے شہروں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے زیرِانتطام کشمیر میں رواں برس مئی سے مہنگی بجلی کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہے۔ وفاقی حکومت کشمیری حکومت سے 15 پیسے پر یونٹ کے حساب سے بجلی خریدتی ہے اور پھر اسے دو روپے 69 پیسے میں بیچتی ہے، جبکہ عوام کو بل نیپرا کے چارجز کے مطابق ادا کرنے پڑتے ہیں۔ یہاں منگلا ڈیم، نیلم جہلم پروجیکٹ اور دوسرے ہائیڈرو پروجیکٹس کو ملا کر 33 سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے جو نیشنل گرڈ میں جاتی ہے۔ ان کی ضرورت 355 میگا واٹ ہے اور اس میں سے بھی 172 میگا واٹ مقامی حکومت خود پوری کر رہی ہے
پاکستان میں بجلی کی قیمت میں اضافے اور فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔پاکستان میں بجلی کی ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا کے مطابق سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی مد میں تقسیم کار کمپنیاں 146 ارب روپے صارفین سے اضافی ریکور کرنا چاہتی ہیں۔نیپرا نے جولائی میں بجلی کے ٹیرف میں چار روپے 96 پیسے اضافہ کیا تھا جو کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے قلیل مدتی قرضہ پروگرام کی منظوری دیتے وقت رکھی گئی ایک شرط تھی۔ پاکستانی سوشل میڈیا بجلی کی قیمت میں اضافے کی شکایات سے بھرا پڑا ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے احتجاجی مظاہروں کی بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک لیٹر کے مطابق اسلام الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ نے عوامی غصے کے سبب پولیس سے اپنے ملازمین اور عمارتوں کے لیے سکیورٹی کا انتظام کرنے کی گزارش کی ہے۔ کراچی میں بجلی کی تقسیم کار کمپنی‘کے الیکٹرک’کی ٹیم پر بھی حملے کی اطلاعات موصول ہوئیں تھیں۔کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مونس علوی نے ایک ٹویٹ میں اپنے ادارے کی ٹیموں پر ہونے والے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی ٹیم پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور مقدمے کے اندراج کا انتظار کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں جس میں راولپنڈی اور پشاور سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں بجلی کے بِلوں میں اضافے کے خلاف نہ صرف احتجاج کیا جارہا ہے بلکہ بِلوں کو بھی جلایا جا رہا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما ندیم افضل چن نے اس حوالے سے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ بجلی کے بھاری بِلوں پر لوگوں کا احتجاج آہستہ آہستہ شروع ہوگیا ہے اور یہ بڑھ بھی سکتا ہے۔کچھ صارفین کی جانب سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ عوام کو بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں سے تباہ کرنے پر ملک کی دو بڑی نام نہاد جماعتوں کی قیادتیں منہ میں دہی جما کر ایسے بیٹھی ہیں جیسے ان کو فرق ہی نہیں پڑتا۔ ایک صارف نے ٹویٹ میں لکھا کہ مجھے ابھی اپنا بجلی کا بِل موصول ہوا اور شدید جھٹکا لکھا۔ بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافے نے پاکستانیوں اور کاروباری حضرات کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اندرونی سیاسی اختلافات گورننس کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور معاشی استحکام کو خطرات سے سے دوچار کر رہے ہیں۔ ہمیں ہر صورت میں متحد ہونا ہوگا۔
٭٭٭