بلدیاتی ادارے بے بس، چارجڈ پارکنگ آمدن کا بڑا حصہ مافیا ہڑپ کرنے لگا
شیئر کریں
ملک کے کاروباری مرکز کراچی میں گاڑیوں کی چارجڈ پارکنگ شہر کی بلدیاتی حکومتوں کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے لیے آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہوسکتا ہے لیکن کرپشن اور متعلقہ اداروں کی نااہلی کی وجہ سے مذکورہ آمدنی کا بڑا حصہ بلدیاتی اداروں کے بجائے غیر قانونی طور پر اس دھندے میں ملوث مبینہ پارکنگ مافیا کی جیب میں جا رہا ہے۔کراچی انتظامی طور پر مختلف سرکاری اداروں میں تقسیم ہے لہذا چارجڈ پارکنگ کی قانونی آمدن میں مقامی حکومتوں کے علاوہ دیگر سرکاری ادارے بھی قانونی طور پر شراکت دار بن گئے ہیں جن میں کنٹونمنٹ بورڈز، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی،کمپیٹی بل اینڈ لوایبل سٹی آف کراچی(کلک)شامل ہیں، چارجڈ پارکنگ سے قانونی طور پر ہونے والی آمدنی پر بھی مکمل طور پر مقامی حکومتوں کا اختیار نہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ کراچی جیسے کاروباری شہر کی منتخب مقامی حکومتیں ہونے کے باوجود کے ایم سی سمیت تمام ڈی ایم سیز ابھی تک مالی طور پر خودمختار نہیں بن سکی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اگر چارجڈ پارکنگ سے ہونے والی آمدنی مکمل طور پر مقامی حکومتوں کے اکائونٹس میں جمع ہو تواس کاسالانہ حجم اربوں روپے ہوسکتا ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے اور کے ایم سی اور ڈی ایم سیز مذکورہ مد میں محض کچھ کروڑ ہی کما پاتی ہیں، یہ تمام تفصیلات آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتائی گئی ہیں۔کراچی میں چارجڈ پارکنگ سے متعلق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق بلدیہ عظمی کراچی اور ڈی ایم سیز چارجڈ پارکنگ کی مد میں سالانہ جتنا ہدف مقرر کرتی ہیں وہ بھی حاصل نہیں کرپاتیں مثال کے طور پر کے ایم سی نے مالی سال 2015 سے 2018 تک یعنی 3 سال میں چارجڈ پارکنگ کی مد میں160 ملین حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا لیکن مشکل سے 122 ملین روپے جمع کرسکی اسی طرح مالی سال 2017-18 کے دوران اس مد میں 10ملین روپے جمع کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن اتنا کم ہدف بھی پورا نہیں کرسکی۔آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ بلدیاتی افسران کس طرح اپنے ذاتی مفادات کی خاطر چارجڈ پارکنگ جیسے منافع بخش کاروبار کو محض تھوڑی سی رقم کے عوض ٹھیکیداروں کو دے دیتے ہیں۔شہر میں چارجڈ پارکنگ کے حوالے سے کراچی کا ضلع جنوبی اور خاص طور پر صدر ٹائون انتہائی منافع بخش سمجھا جاتا ہے، مذکورہ ضلع اور ٹائون میں سب سے زیادہ سرکاری ادارے، کاروباری مراکز، بینک، اسپتال، شاپنگ سینٹرز، مارکیٹس واقع ہیں، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ضلع اور ٹائون میں چارجڈ پارکنگ کی مد میں سب سے زیادہ غیر قانونی آمدنی حاصل کی جاتی ہے۔غیرقانونی طور پر آمدنی حاصل کرنے والوں میں سرکاری اور نجی افراد شامل ہیں، سرکاری ادارے ، ضلعی پولیس اور ٹریفک پولیس بھی مبینہ طور پر حصہ دار ہوتی ہی جس کی مثال روزانہ کی بنیاد پر صدر کے علاقے میں غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے ہونے والا ٹریفک جام ہے، صدر میں عبداللہ ہارون روڈ سے پاسپورٹ آفس اور بوہری بازار سمیت اکثر علاقوں میں غیرقانونی پارکنگ کی وجہ سے ٹریفک جام ہونا معمول کی بات ہے۔