الیکشن سے خوفزہ حکومت
شیئر کریں
اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے الیکشن ایکٹ کی شق میں ترمیم کے ذریعہ نگراں حکومت کو غیر معمولی اختیارات دینے پر اتحادیوں کو راضی کر لیا ہے،،مجوہ ترمیم کے تحت نگراں حکومت کے پاس جاری معاہدوں کے حوالے سے تمام اختیارات ہوں گے۔ نگراں حکومت بین الاقوامی معاہدے کر سکے گی اور مالیاتی اداروں سے بھی معاہدے کر سکے گی۔ نگراں حکومت کے پاس دو فریقی اور سہ فریقی معاہدوں کا اختیار بھی ہو گا۔تاہم اس کے پاس نئے معاہدے کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔اطلاعات کے مطابق اتحادیوں کو منانے کے بعد حکومت نے نگراں حکومت کے اختیارات سے متعلق شق 230 بل سے نہ نکا لنے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب پلاننگ کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواکے ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز کے تحت 9 ارب 23 کروڑ روپے جاری کر دیے گئے ہیں۔ ذرائع پلاننگ کمیشن کے مطابق بلوچستان کے ایم این ایز کو 2 ارب 58 کروڑ روپے، خیبر پختون خوا کے لیے 8 ارب 96 کروڑ روپے جاری ہوئے ہیں۔پلاننگ کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کو گزشتہ ماہ 15 ارب روپے سیلاب سے ریکوری و بحالی کے لیے جاری کیے گئے تھے۔ذرائع پلاننگ کمیشن نے مزید بتایا ہے کہ پنجاب اور سندھ کے ایم این ایز کے لیے ابھی مزید فنڈز کا اجرا کیا جائے گا۔پلاننگ کمیشن کے ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ 8 اگست سے پہلے ایم این ایز کو 61 ارب روپے سے زائد جاری کیے جائیں گے۔
الیکشن ایکٹ کی ترمیم کے تحت نگراں حکومت کو غیر معمولی اختیارات دینے پر اتحادی جماعتوں کو رضامند کرنے میں کامیابی یقینا موجودہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ اس طرح نگراں حکمرانوں کو آئین کے تحت مقررہ وقت سے زیادہ عرصے تک کام کرتے رہنے میں دشواری محسوس نہیں ہوگی،یہی وجہ ہے کہ عوام حلقے نگراں حکومت کو غیر معمولی اختیارات دینے کی مخالفت کررہے ہیں اور اسے جاتی ہوئی حکومت کی بدنیتی تصور کرتے ہیں جبکہ ایک ایسے موقع پر جبکہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت صرف چند دن رہ گئی ہے ارکان قومی اسمبلی کیلئے کروڑوں روپنے فنڈز کے اجرا کو بھی انتخابات میں دھاندلی کے سو ا کچھ نہیں کہاجاسکتا کیونکہ اسمبلیاں تحلیل کئے جانے کو جو چند دن رہ گئے اس میں تو کسی منصوبے کیلئے ٹینڈر جاری کرنا بھی مشکل ہوگا نہ کہ ترقیاتی فنڈز کا استعمال،اس سے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ ایم این ایز کیلئے جاری کئے جانے والے فنڈز کا بڑا حصہ مبینہ طورپر ووٹوں کی خریدوفروخت اور مختلف علاقوں کے معصوم عوام کو ترقیاتی کاموں کے سبز باغ دکھانے پر ضائع کیا جائے گا،ایم این ایز کو ترقیاتی منصوبوں کیلئے اس مرحلے پر فنڈ کے اجرا سے بعض حلقوں کے ان دعووں کو تقویت ملتی ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جیت کر اپوزیشن کی جماعتیں کامیابی کے جو شادیانے بجا رہی تھیں۔آج پورے 15 مہینے کے بعد وہی شادیانے اتحادی 13 جماعتوں خاص طورپر پاکستان مسلم لیگ ن کو تازیانے محسوس ہورہے ہیں اور حکمران جماعتوں کو اقتدار کا 18 ماہ قبل شروع کیاہواسہانا سفر کم اور بڑھتا ہوا چیلنج زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ہر طرف کشیدگی ہر سمت بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ عمران خان کی پارٹی سے ان کی کابینہ والوں نے اور بڑے بڑے ناموں نے چھلانگ تو ضرور لگائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو چھلانگیں لگانے پر مجبور کیا گیا ان میں سے بیشتر نئی سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے اعلانات کے باوجود اپنے حلقہ انتخاب میں جانے کی جرات نہیں رکھتے،جبکہ ان کی علیحدگی کے باوجود عوامی سطح پر عمران خان کو ابھی بھی پذیرائی حاصل ہے۔ اور یہی بات حکمرانوں کو پریشان کئے ہوئے ہے کہ سیاسی مخالفین کی جانب سے عمران خان کو برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ضائع نہ کئے جانے اور ہر خرابی کا ذمہ دار عمران خان کو قرار دینے کی کوششوں کے باوجود عمران خان عوام میں بدستور مقبول ہے بلکہ حکمرانوں کے حالیہ اقدامات کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہواہے،حکمرانوں کا مقصد یہی ہے کہ عوامی نگاہوں میں ان کا امیج خراب سے خراب تر کیا جائے لیکن ان کایہ مقصد کسی طورپورا نہیں ہورہا ہے۔اس محاذ پر ناکامی کے بعد اب حکمراں انھیں قانونی شکنجے میں کس کر میدان سے باہر نکالنا چاہتی ہے تاکہ نواز شریف کو واپس لاکر خالی میدان ان کے سپرد کیاجاسکے،حکمراں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے اپنی اس خواہش کو خفیہ نہیں رکھا ہے بلگہ مسلم لیگ ن کے بعض اہم رہنما جن میں مریم صفدر بھی شامل ہیں ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف اس وقت واپس آئیں گے جب عمران خان کو میدان سے باہر کیاجاچکاہو گا،عمران خان کو میدان سے باہر نکالنے کی اسی امید کے تحت قانونی جنگ بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ حکومتی اتحاد کسی مقدمے میں حتمی الزام اور جیل کی سزا کی امید لییعدالتوں پر ٹکٹکی باندے دیکھ رہے ہیں عدالت کی جانب سے عمران خان کوپیشی کے ہر حکم پر ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں لیکن عدالت سے ریلیف ملتے ہی یہ سورج مکھی کی طرح اسی طرح کمھلا جاتے ہیں جس طرح سورج غروب ہونے پر سورج مکھی کا پھول شرم سے سر جھکادیتاہے۔ معاملات طول پکڑ رہے ہیں۔ کبھی جج حیران اور کبھی گواہ سست۔کچھ ہی روز پہلے توشہ خانہ کیس میں مبینہ طور پر کچھ ایسے فرمائشی گواہوں نے کسی قسم کی گواہی دینے سے انکار کیا جو عمران خان کے دور حکومت میں اہم عہدوں پر فائز تھے اور ان سے قریب بھی۔ بڑے اہتمام سے لائے ہوئے افراد نے بھی انکار کیا۔توشہ خانہ کیس میں عمران خان سے غلطیاں ضرور ہوئی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنی سنگین ہیں کہ ان پر کریمنل کیس بنے جس کے بعد جیل کی سزا ہو اور نااہلی بھی ہو، یہ ابھی صاف دکھائی نہیں دے رہا۔عمران خان کے مقدمے میں حکمراں مسلم لیگ ن کی دلچسپی کا اندازہ گزشتہ روز وائر ل ہونے والی وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر عطا تارڑ کی گفتگو وائرل سے ہوتاہے جس میں وہ بڑی بے بسی سے اپنی پارٹی کے ارکان اور عہدیداروں سے یہ کہتے سنے جارہے ہیں، پارٹی کی بڑی سبکی ہوتی ہے،پی ٹی آئی والے دندناتے آتے ہیں اور ہماری طرف سے ایک دو لوگ ہوتے ہیں۔ کل وزیر اعظم ہاؤس میں جمع ہوں کر اکٹھے داخل ہوں گے، وہاں ا سپیس لیں گے، پاور شو ہو گا اور اسے ہم نے2-3 دن برقرار رکھنا ہے۔پھر عطا تاڑر نے یہی کیا اور عدالتی کمرے میں اودھم مچا۔ لیکن اس کے باوجود ہو سیاسی نمبر نہیں بناپائے۔ بلکہ تدبیریں کچھ الٹی ہی ثابت ہو گئیں۔ساتھ ہی ساتھ قانونی مسائل پراسیکیوشن کی طرف بڑھتے دکھائی دئے، جب الیکشن کمیشن کے وقاص ملک نے جرح کے دوران یہ واضح کیا کہ 60 صفحات کی شکایتی درخواست میں سے4 ہی ان کے لکھے ہوئے ہیں باقی میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف دکھائی نہیں دیے۔بات توشہ خانہ کیس پر نہیں رکی۔9 مئی کے درجنوں مقدمات میں سے ایک میں ایڈیشنل سیشن جج نے حکم میں صاف لکھا کہ 9مئی کے واقعات کا منصوبہ ساز عمران خان کو کہنا مضحکہ خیز ہے۔9مئی کے بہت سے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، لیکن جج کے آرڈر کی اہمیت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ایک جج کی جانب سے بھرپور تنقید سامنے آئی جس سے پی ٹی آئی کے حامیوں کی کچھ حوصلہ افزائی ہوئی ہو گی۔