میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغانستان سے امریکی افواج کا انخلائ، بھارت کے لیے نیا چیلنج

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلائ، بھارت کے لیے نیا چیلنج

ویب ڈیسک
پیر, ۲۸ جون ۲۰۲۱

شیئر کریں

افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا وقت قریب آنے لگا ،بدلتی صورتحال کے پیش نظر بھارت طالبان سے بات چیت کرنے پر تذبذب کا شکار ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسٹریٹجک امور کے ماہرین نے کہا کہ اب جب افغانستان میں طالبان ایک بار پھر مضبوط ہوتے جارہے ہیں اور جب امریکی فوجیوں کی واپسی کا وقت قریب آرہا ہے تو بھارت کے سامنے
ایک نیا چیلنج ہے کیونکہ امریکہ اور طالبان کے مابین گزشتہ دو سالوں سے جو بات چیت چل رہی تھی اس سے بھارت نے خود کو علیحدہ ہی رکھا تھا۔رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے مابین ایک معاہدہ بھی ہو گیا۔ امریکی فوجیں افغانستان سے نکل رہی ہیں اور اس صورتحال نے یقینا بھارت کی تشویش میں اضافہ کیا ہے کیونکہ پچھلے 20 سالوں میں بھارت نے مختلف منصوبوں اور امداد کی شکل میں افغانستان میں ہزاروں کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔صرف نومبر 2020 میں ہی بھارت نے افغانستان میں 150 نئے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔اس سے قبل 2015 میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے افغانستان کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا تھا۔ یہ عمارت بھی بھارت کی مدد سے تعمیر کی گئی ۔ اگلے ہی سال مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے مشترکہ طور پر افغانستان کے صوبہ ہرات میں 42میگاواٹ بجلی اور آبپاشی کے منصوبے کا افتتاح کیا۔بہت سارے پروجیکٹس ہیں جو بھارت نے شروع کیے اور وہ کام کر رہے ہیں۔ بھارت کی وزارت دفاع کی نگرانی میں بارڈر روڈس آرگنائزیشن (بی آر او)نے افغانستان میں متعدد اہم سڑکوں کی تعمیر کا کام بھی کیا۔ افغانستان کی فوج، پولیس اور سول سروسز سے وابستہ افسران بھی بھارت میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ بھارت کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت نہ صرف انسانی امداد اور تعمیر نو کے منصوبوں میں بلکہ تعلیمی اداروں، تیل و گیس یونٹوں، اسٹیل انڈسٹریز، افغانستان میں بجلی کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے وغیرہ کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ گزشتہ ماہ یورپی یونین کے نائب صدر بورویل کے ساتھ مشترکہ بیان میں بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے واضح کیا کہ بھارت افغانستان میں کسی بھی”اسلامی امارت”کی حمایت نہیں کرے گا۔ واضح ہے کہ افغانستان کو ‘اسلامی امارت’ کے طور پر پیش کرنے والے طالبان کے لیے یہ بھارت کا واضح پیغام تھا کہ اسے کبھی بھی انڈیا کی حمایت نہیں مل سکتی ہے۔لیکن بدلی ہوئی صورتحال کے پیش نظر بھارت میں اس بات پر بھی غور فکر جاری ہے کہ ستمبر کے مہینے میں جب امریکی افواج افغانستان سے چلی جائیں گی اس صورتحال میں بھارت کا کیا موقف ہونا چاہیے؟اسٹریٹیجک اور خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سچ ہے کہ بھارت کو طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات نہیں رکھنا چاہیے لیکن افغانستان کی صورتحال اس طرح کی بننے لگی ہے کہ2018میں جب روس نے افغانستان اور طالبان کے حوالے سے ماسکو میں بات چیت کی تھی تو بھارت نے اس میں اپنا وفد بھیجا تھا۔ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ پھر گزشتہ سال ستمبر میں جب افغانستان اور طالبان کے بارے میں دوحہ امن مذاکرات ہوئے تو وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اس میں شرکت کی۔اس مذاکرات کے دوران انڈیا نے واضح طور پر کہا تھا کہ خواہ امن کے لیے کوئی بھی عمل اپنایا جائے لیکن افغانستان کے عام لوگوں کو اس کے مرکز میں ہونا چاہیے۔ بھارت نے کہا کہ یہ عمل افغان لیڈ، افغان اونڈ اینڈ افغان کنٹرولڈیعنی افغان کی سربراہی میں افغان کی ملکیت اور افغان کے کنٹرول کے فارمولے پر مبنی ہونا چاہیے۔بھارت کے مختلف حلقوں میں اس امر پر شدید تشویش ظاہر کی جارہی ہے کہ طالبان کی مسلسل پیش قدمی کے بعد بھارت کی افغانستان میں مکمل سرمایہ کاری ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ چنانچہ بھارت کے مختلف سفارتی حلقوں کی جانب سے طالبان سے بات چیت پر زور دیا جارہا ہے ، اُن حلقوں کا کہنا ہے کہ چین، یورپی یونین اور روس طالبان سے بات کرسکتے ہیں تو پھر بھارت کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے، پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں