کوروناکے خلاف جنگ ایسے نہیں
شیئر کریں
برطانیا ‘کینیڈا ‘جرمنی اور اٹلی میں کوروناکے پھیلنے کی لکیر گراف پر سیدھی اوپر کو گئی اور پھر ایک دم نیچے آگئی جبکہ امریکا میں کوروناکی لکیر سیدھی اوپر کی جانب ہی گئی ہے۔کچھ عرصے کے لیے امریکا میں بھی نئے کیسز سامنے آنے کی رفتا رمیں کچھ کمی ا?ئی تھی‘مگر نیو یارک ٹائمز کے مطابق اب پچھلے دو ہفتوں سے اس میں 22فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔پیر کوPoliticoکی رپورٹ کے مطابق ایک موقع پر اٹلی میں کوروناسے ہونے والی تباہی امریکی عوام کو بدترین محسو س ہوتی تھی۔منگل کے دن اس نے اطلاع دی ہے کہ اب امریکا میں بھی کوروناکے فی کس کیسز اٹلی کے بدترین دنوں کی سطح کے برابر ہو گئے ہیںاور ان میں مزید اضافے کے اشارے مل رہے ہیں‘ یو ں صدرٹرمپ کی صدارت میں امریکی عوام خو دکو مشکل میں دیکھتے ہیں۔محض یہی بات نہیں کہ ا س وقت امریکا کوروناوائرس کے نئے کیسزا و رشرح اموات میں دنیا میں سب سے آگے ہے‘ ری پبلکن پارٹی کی سیاسی نااہلی نے کوروناکے خلا ف ایک مربوط جنگ لڑنا بھی ناممکن بنا دیاہے۔
وفاقی او رریاستی سطح پر ہم ایک عجیب امتزاج دیکھ رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ایک قدامت پسند اپروچ اپنا کر سائنس کی توہین کی جا رہی ہے تو دوسری طرف انسانوں کے بے دریغ قتل پر تحمل کامظاہرہ امریکا میں گن کلچر کا منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔تباہی و بربادی ہمیشہ اوپر سے شرو ع ہوتی ہے‘ بحران شرو ع ہونے پر ٹرمپ نے ایسا طرزِعمل اختیا رکیا گویا وہ محض چٹکی بجاکرہی کوروناوائرس کو بھگا دیں گے‘ مگر جب کچھ دیر بعد انہوں نے محض دکھاوے کے لیے یہ ظاہر کیا کہ وہ کوروناوائرس کے حوالے سے سنجیدہ ہو چکے ہیں تو ان کے حکومتی عہدیداروں نے اس سلسلے میں انکار پر مبنی ر ویہ اپنا لیا۔ گزشتہ ہفتے صدرٹرمپ نے فا کس نیوز پر Sean Hannityکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اب کوروناوائرس غائب ہوتا جا رہا ہے۔اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ شاید ا س وقت بھی کچھ لو گ محض ان کی مخالفت میں اپنے منہ پر ماسک پہنے ہوئے مل جائیں‘ ہر طرح کی پبلک ہیلتھ گائڈلائن کے باوجود انہوں نے یہ کہا کہ ماسک پہننے سے لوگوں کو انفیکشن ہونے کا رسک بڑھ جاتا ہے۔اس پرحیران ہونے کی چنداں ضرور ت نہیں کیونکہ انہوں نے ہفتے کے دن اوکلا ہاما کے شہر ٹلسا میں ایک بڑی عوامی ریلی نکالی تھی جس میں لوگوں نے ماسک پہنے بغیر شرکت کی تھی۔یا درہے کہ یہ وہی شہر ہے جہاں ا?ج کل کوروناکے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کوروناکی وبا جو پہلے نیلی ریاستوں میں ہی تباہی مچا رہی تھی اب اس نے سرخ ریاستوں کا رخ کر لیا ہے۔جب مارچ کے مہینے میں مشرقی ساحل پر کوروناوائرس نے تباہی مچاناشروع کی تھی ‘وہاں ڈیموکریٹ لیڈروں سے بڑی سنگین غلطیا ں ہوئیں۔نیو یارک کے گورنر اینڈریو کومو نے نہ صرف نرسنگ ہومز پردبائو ڈال کر انہیں مجبور کیاکہ وہ اپنے ان تمام رہائشیوں کو واپس لیں‘ جنہیں کوروناوائر س کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کر ایا گیا تھا بلکہ نرسنگ ہوم مالکان پریہ پابندی بھی لگا دی گئی کہ وہ اپنے رہائشیوں میں انفیکشن چیک کرنے کے لیے ان کا کوروناٹیسٹ دوبارہ نہیں کریں گے۔جیسا کہ پرو پبلیکا نے رپورٹ کی ہے کہ نیو یارک کے گورنر اینڈریو کومو کے احکاما ت پر عمل کرتے ہوئے اب کووڈ19-کو نیویارک سٹی کے تمام نرسنگ ہومز تک پہنچا دیاگیا ہے۔اس کے نتیجے میں چھ ہزار سے زائد شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اس وقت ایک لاکھ سے زائد افراد ان نرسنگ ہومز میں مقیم ہیں ‘ ان میں سے چھ فیصد کی موت واقع ہو گئی۔اسی طرح فلوریڈ ا میں بھی‘ جس نے ہر طرح کی وائرس ٹرانسفر کو ممنوع قرار دیاہوا ہے وہاں بھی اب تک نرسنگ ہومز میں مقیم1.6فیصدافراد کی موت واقع ہو چکی ہے۔یہ دیکھتے ہوئے کہ اینڈریو کومو کی غلطیوں کی بدولت نیویارک کی تباہی میں کس قد راضافہ ہوا ہے یہ کہنا مشکل نظر ا?تا ہے کہ موقع پر حفاظتی اقدامات کرنے پر وہ کتنے کریڈٹ کے مستحق قرار دیئے جا سکتے ہیں؟
نیو یارک میں کیسز کو ایریزونا کی موجودہ تعداد تک پہنچنے تک کم ا زکم یہ سمجھ ضرورآگئی تھی کہ ریاست کو ایک آفت کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس نے فوری طور پر لاک ڈائون نافذ کر دیا‘ جس سے نیویارک کو اس بحرانی صورتحال سے نکالنے میں کا فی مد دمل گئی۔ایریزونا ‘فلوریڈا اور ٹیکساس میں تو ماسک پہننے کو لازمی قرار دینے جیسے معمولی کام بھی نہیں کیے جا رہے۔اب تک اس بات کا ملا جلا ثبوت ہے کہ پولیس تشدد کے خلاف بھرپو رعوامی احتجاج نے کوروناوائرس کو پھیلانے میں کتنا کردار ادا کیاہے مگر لبرل حلقوں کی طرف سے ان مظاہروں کی حمایت سے بہت سے قدامت پرستوں کے اس یقین اور اعتقاد کو تقویت ملی ہے کہ سماجی دوری کے سخت قوانین کو دراصل منافقانہ طو رپر سماجی کنٹرول کے لیے استعمال کیاجا رہا ہے۔پورے امریکا میں ہیلتھ ورکرز نے موت کی دھمکیاں اور خوف وہراس برداشت کیاہے۔اس کاتصور بھی محال ہے کہ کوروناوائرس کی روک تھام کے لیے سیاسی عزم و ہمت کہاں سے آئے گی۔اس وقت جن ممالک میں اہل لیڈر شپ موجود ہے وہ جلد اپنے نارمل حالات کی طرف لوٹ جائیں گے‘ مگر ہمارے جیسے ایسے ہی بھٹکتے پھریں گے۔مئی کے وسط میں جب امریکا میں کوروناسے مرنے والوں کی تعداد پچاسی ہزار ہو گئی تو ٹرمپ کے ایک خوشامدی لنڈسے گراہم نے کہا کہ جب تک اموات ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ نہیں ہوجاتیں میرے خیال میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تو اس جنگ میں اموات کو بڑی حد تک محدو دکر دیا تھا‘مگر ٹائمز کی گنتی کے مطابق ہم نے تو ا س نمبر کو محض چھوا ہے۔جنگ تو ابھی جاری ہے مگر ٹرمپ یہ جنگ پہلے ہی ہار چکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔