مودی کی 'مسلم مخالف' شبیہ کس نے بنائی؟
شیئر کریں
معصوم مرادآبادی
انتخابات کے میدان میں سیاست دانوں کی طرف سے جھوٹے وعدے کرنا عام بات ہے ۔لیکن یہ ملک کی انتخابی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کوئی سیاست داں مسلسل جھوٹ ہی بول رہا ہے ۔ یہ جھوٹ محض انتخابی وعدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر بات جھوٹ کہی اور سنی جارہی ہے ۔اسے آپ اس ملک کے رائے دہندگان کی قوت برداشت کا کمال بھی کہہ سکتے ہیں۔اس کا ایک نظارہ گزشتہ منگل کو وارانسی میں اس وقت دیکھنے کوملا جب وزیراعظم نریندرمودی نے وہاں سے تیسری بار اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا۔حسب سابق اس موقع پر وہاں ایک بڑا شو منعقد ہوا جس میں بی جے پی اور این ڈی اے کے تمام بڑے لیڈران موجود تھے ۔اس موقع پر وزیراعظم نے گودی میڈیا کے جن اینکروں کو شرف باریابی بخشا،ان خوش نصیبوں میں ‘نیوز18انڈیا’ کی البیلی اینکر روبیکا لیاقت بھی شامل تھیں، جنھیں وزیراعظم نے ایک خصوصی انٹرویوسے نوازا۔خاص بات یہ ہے کہ یہ انٹرویووزیراعظم کے ان بیانات پر مرکوز تھا جوانھوں نے حال ہی مسلمانوں کے تعلق سے دئیے ہیں اور جن پر سیاسی حلقوں میں خاصا واویلا بھی مچا ہواہے۔
اس انٹرویو میں وزیراعظم نے مسلمانوں سے متعلق اپنے ان تمام بیانات کو جھوٹ قرار دیا، جو وہ گزشتہ ایک ماہ سے اپنے انتخابی جلسوں میں دیتے چلے آ رہے ہیں۔یہ بیانات براہ راست ہییٹ اسپیچ کے دائرے میں آتے ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان بیانات کے خلاف باقاعدہ پولیس رپورٹ بھی درج کی گئی ہے ۔اپنے بیانات میں وزیراعظم نے مسلمانوں کو گھس پیٹھیاور”زیادہ بچے پیدا کرنے والاہی قرار نہیں دیا بلکہ انھوں نے پسماندہ برادریوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ اپنی پرتقریر میں یہی کہتے رہے کہ”کانگریس اوبی سی کا ریزرویشن ختم کرکے مسلمانوں کو دینا چاہتی اور جب تک میں زندہ ہوں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔”مسلمانوں کے خلاف اس آخری درجہ کی اشتعال انگیزی کے تمام ویڈیو زموجود ہیں، جنھیں آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ مگر اب انھوں نے ان بیانات کو جھٹلاتے ہوئے جو کچھ کہا ہے ، اسے سن کر ہمیں بے ساختہ پروین شاکر کا یہ شعر یاد آیا ہے ۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہارجاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
وزیراعظم سے جب ان کے مسلم مخالف بیانات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہوہ مسلمانوں کے لیے اپنی محبت کی مارکیٹنگ نہیں کرتے اور جس دن وہ ہندو مسلمان کرنے لگیں گے تو سیاست چھوڑ دیں گے ۔ روبیکا لیاقت نے جب پوچھا کہ”آپ نے اسٹیج پر گھس پیٹھیوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کی بات کیوں کہی؟ تو وزیراعظم نے کہا کہ”یہ غلط ہے ، میں نے صرف مسلمانوں کی بات نہیں کی بلکہ ہر غریب خاندان کی بات کہی۔وزیراعظم مودی نے یہ بھی کہا کہ میں نے نہ ہندو کہا اور نہ مسلمان۔جس دن میں ہندو۔مسلمان کرنے لگوں گا، میں سیاست کرنا بند کردوں گا۔ میں سب کو برابر دیکھتا ہوں۔”جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس تاثر کو توڑنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوپائے کہ آپ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں؟تو انھوں نے کہا کہ مسلمان کا سوال نہیں ہے ۔ ذاتی طورپر مسلمان بھلے ہی مجھے پسند کریں، لیکن 200کے بعد میری شبیہ خراب کردی گئی ہے ۔
ٰ وزیراعظم نے اس انٹرویو میں خود کو”مسلم دوست ”ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔مگر ہماراسروکار چونکہ ان کے حالیہ بیانات سے ہے ، اس لیے ہم خود کو ان بیانات تک ہی محدود رکھنا چاہیں گے ۔ انھوں نے سب سے پہلے 21/اپریل کو راجستھان کے بانسواڑا میں کانگریس کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھاکہ پہلے جب ان کی سرکار تھی تو انھوں نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے ۔اس کا مطلب یہ وسائل اکھٹا کرکے کس کو بانٹیں گے ؟جن کے زیادہ بچے ہیں ان کوبانٹیں گے ، گھس پیٹھیوں کو بانٹیں گے۔ کیا آپ کی محنت کی کمائی کا پیسہ گھس پیٹھیوں کو دی جائے گا؟ آپ کو منظور ہے ؟وزیراعظم نے اپنی اس تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ کانگریس کا انتخابی منشور کہتا ہے کہ وہ ماؤں اور بہنوں کا سونا اکھٹا کرکے ضرورت مندوں میں تقسیم کردیں گے اورضرورت مندوہ ہیں جن کے بارے میں منموہن سنگھ سرکار نے کہا تھا کہ ‘اس ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے ۔’ وزیراعظم نے اس پر ہی بس نہیں کیا بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا یہ اربن نکسل میری ماؤں اور بہنوں کا منگل سوتر بھی چھیں لیں گے ۔ اس کے بعد وزیراعظم اپنی ہر انتخابی تقریر میں کہہ رہے ہیں کہ’کانگریس اوبی سی کا ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے اور جب تک میں زندہ ہوں ایسا ہر گزنہیں ہونے دوں گا۔اس کے بعد انھوں نے انھوں نے ممبئی میں کہا کہ کانگریس بجٹ کا پندرہ فیصد مسلمانوں پر خرچ کرنا چاہتی ہے ۔
وزیراعظم کے ان بیانات کی روشنی میں کوئی بھی یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ 2024میں اپنی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کے لیے وہ مسلمانوں کا سہارا لے رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے معاملے میں انھوں نے تمام حدوں کو پار کرلیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے انتہائی اشتعال انگیز بیانات کے خلاف الیکشن کمیشن میں ہزاروں شکایتیں درج کرائی گئیں۔ پولیس رپورٹ درج ہوئیں اور معاملہ سپریم کورٹ تک بھی پہنچا، لیکن کسی نے اس پر ایکشن نہیں لیا۔ سب سے بڑی ذمہ داری تو الیکشن کمیشن کی تھی جس نے ہزارہا شکایتوں کے باوجود وزیراعظم کو براہ راست نوٹس بھیجنے کی بجائے ان کی پارٹی کو نوٹس بھیجا۔ حالانکہ یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جس نے انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے واضح کردیا تھا کہ چناوی میدان میں کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی برداشت نہیں کی جائے گی۔
بعداز خرابی بسیار گزشتہ منگل کو الیکشن کمیشن نے بیان دیتے ہوئے امیدظاہر کی ہے کہلوک سبھا چناؤ کے باقی تین مرحلوں میں امیدہے کہ انتخابی مہم کے دوران پارٹیوں کے اسٹار مہم باز خاص طورپراعلیٰ قیادت تحمل اور برداشت سے کام لیتے ہوئے کسی بھی طورسے مثالی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہ کرنے کی مثال قایم کرے گی۔ الیکشن کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”لیڈران کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کے باقی مرحلوں میں اپنے بیانوں کی زبان کو درست کریں گے اور سماج کے نازک تانے بانے کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔انتخابی تقریروں کو تہذیب کے دائرے میں رکھنالیڈروں کی ذمہ داری ہے ۔’ یہ باتیں الیکشن کمیشن نے کانگریس اور بی جے پی صدور کو نوٹس جاری کرنے کے
بعد کہی ہیں۔ کمیشن نے کسی کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کو ایک دوسرے کے خلاف کئی شکایتیں زیرالتوا ہیں۔ ان میں الزام لگایا گیا ہے کہ اعلیٰ اسٹار مہم بازوں کی طرف سے فرقہ وارایت، ذات پات، علاقائیت جیسے موضوعات پر بیان دے کر مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی گئی ہے ‘۔
کیا آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی اس نصیحت کا ان سیاست دانوں پر کوئی اثر ہوگا جن کی اصل طاقت ہی سماج میں انتشار پھیلانا اور منافرانہ سیاست کے توے پر اقتدار کی روٹیاں سینکنا ہے ۔ الیکشن کمیشن کو دستور نے اتنا بااختیار بنایا ہے کہ وہ مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سخت سے سخت پابندیاں عائد کرسکتا ہے ۔ یہاں تک کہ نفرت کی بنیاد پر الیکشن جیتنے والوں کا انتخاب بھی ردکرسکتا ہے ، لیکن یہ شاید الیکشن کمیشن کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ وہ پوری طرح بے دست وپا نظر آرہا ہے اور ہرقسم کی اشتعال انگیزی روکنے میں ناکام ہے ۔المیہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے نفرت انگیز تقاریر اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب کے استعمال کرنے پر وزیراعظم کو چھ سال کے لیے نااہل قراردینے کی ایک عرضی یہ کہتے ہوئے خارج کردی ہے کہ عرضی گزار نے اس معاملے میں الیکشن کمیشن میں جانے کی بجائے براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سوال یہ ہے کہانصاف کے طلب گار آخر جائیں تو جائیں کہاں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔