انتہا پسند ہندوؤں کا مسلمانوں پر ہجومی تشدد
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
ہندوستان جس تیزی سے نفرت و عداوت، بے روزگاری، لاقانونیت، شدت پسندی اور خوف و ہراس کی طرف بڑھ رہا ہے یہ نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ اس کے بقا کیلئے بھی خطرناک ہے۔ مودی اور اس کے گماشتوں نے پورے ملک میں نفرت کا زہر گھول دیا ہے۔ یہاں ہر شخص خوف و ہراس کی فضا میں سانس لے رہا ہے۔ دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
بھارت میں رہنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کیلئے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف سرکار اور انتہا پسند ہندو ایک ہیں۔ غریب اور بے قصور مسلمانوں کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ جان و مال دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مودی کے پہلے دور 2014 سے لے کر اب تک مسلمانوں کو تنگ کرنے کے بہت سے بہانے گھڑے گئے۔ کبھی گھر واپسی مہم ، کبھی لو جہاد، کبھی سی اے اے تو کبھی این آر سی کے ذریعے انہیں تنگ کیا گیا۔ اب مسلمانوں کے خلاف ایک اور ہتھکنڈہ ہجوم زنی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔اب تک تقریباً 250 مسلمان اسی ہجوم زنی اور ہجومی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں مگر قانون بے بس ہے اور ایسے سماجی مجرمان کو سزا دینے سے قاصر ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو کبھی بھی اور کسی بھی وقت آپ پر جھوٹا الزام لگا کر آپ کو ہجوم زنی کا شکار بنا لیا جائے گا اور آپ اپنی جان گنوا بیٹھیں گے۔ کوئی پولیس، کوئی قانون ان مجرموں ، درندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اگر قانون اپنا کام مؤثر طریقے سے کرتا تو ماب لنچنگ کا سلسلہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ بھارت میں مسلمان دشمنی کا ایک اور لرزہ خیز واقعہ سامنے آ گیا۔ بھارتی ریاست تلنگانا کے علاقے نارساپور میں ہندو انتہاپسندوں کے ہجوم نے مسلمان ہوٹل مالک کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ لڑکے کی بہن نے ہندو انتہاپسندوں سے بھائی کو بچانے کی کوشش کی تو ہجوم اس پر بھی پل پڑا اور حاملہ خاتون کو ٹھڈے مارے اور بہیمانہ تشدد کیا جس کے نتیجے میں خاتون اپنے بچے سے محروم ہوگئیں۔ ہندو انتہاپسندوں نے مسلمان بھائی اور بہن پر تشدد کے دوران ہندوؤں کے مذہبی نعرے بھی لگائے۔ ہوٹل کے مالک مسلمان لڑکے نے پیسے لینے کے باوجود گیس سلنڈر نہ دینے والے شخص سے سلنڈر کی ڈیلیوری کا مطالبہ کیا تھا جس کے جواب میں ہندو انتہاپسند غنڈوں نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے انسانیت سوز تشدد کیا۔ پولیس نے حسب معمول تشدد کرنے والے کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا۔
تریلوکپوری دہلی کے رہنے والا آفتاب اپنی ٹیکسی سے سواری کو چھوڑکر واپس گھر لوٹ رہا تھا تو راستے میں تھانہ بادلپور، ضلع گوتم بدھ نگر میں کچھ لوگوں کی بھیڑ نے اسے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا۔ مقتول ڈرائیور کے بیٹے نے اپنی تحریری شکایت میں پولیس کو بتایا کہ اس نے اپنے والد کے قتل کے وقت تھوڑی سی بات ریکارڈ کر لی تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہجومی قتل کے وقت جے شری رام کے نعرے لگانے کے لئے گالی گلوچ کی جا رہی تھی۔بھارتی ریاست ہریانہ میں ایک شخص کا ہاتھ صرف اس لئے کاٹ دیا گیا کہ اس پر 786 لکھا ہواتھا۔ پولیس ملزمان کی گرفتاری کیلئے لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ بھارتی شہر گڑگاؤں میں گائے کے تحفظ کی نام نہاد تنظیم کے درجنوں شدت پسند کارکنوں نے بھینس کا گوشت لے جانے والے مسلمان نوجوان لقمان کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ وہ سدھ بدھ کھو بیٹھا۔جب لقمان کو بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا اس وقت سکیورٹی اہلکاربھی وہاں موجود تھے تاہم دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔نہتے لقمان کو اس کی گاڑی سے اتار کر ہتھوڑے مارے گئے اور پھر لاتوں اور گھونسوں سے اس کو اذیت دی گئی۔ جب اس کی حالت غیر ہوگئی تو پولیس نے مداخلت کی اور اسے ہسپتال منتقل کردیا اور ایک بار پھر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے شدت پسندی کو ریاستی تحفظ فراہم کردیا۔
شدت پسند بی جے پی کی انتہا پسند پالیسیوں نے بھارت میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں پرجھوٹے الزامات اور وحشیانہ تشدد بھارت میں معمول بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں جو مسلمان ہجومی تشدد کا شکار ہوئے اور اپنی جان سے گئے، کیا ان کے وارثان کو اب تک کوئی انصاف ملا؟ کیا بھارت کا انصافی سسٹم بالکل اپاہج ہو چکا ہے؟ بھارت کے مہذب اور عزت دار شہریوں کے ساتھ بدسلوکی، ناانصافی، ظلم اور تشدد کب تک کیا جائے گا اور یہ کس کے اشارے یا شہ پر کیا جا رہا ہے ۔ مجرموں کے خلاف ایمانداری سے منصفانہ کاروائی کا جو حلف برسراقتدار لوگوں اور پولیس اور انتظامیہ کے لوگوں نے لیا ہوا ہے اس کی خلاف ورزی کب تک ہوتی رہے گی؟
٭٭٭