میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طیارہ حادثہ اور گروہی مفادات کا سفاکانہ کھیل

طیارہ حادثہ اور گروہی مفادات کا سفاکانہ کھیل

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۸ مئی ۲۰۲۰

شیئر کریں

بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے دیگر شعبوں کی طرح ہوابازی کی صنعت میں بھی مختلف فشاری گروہ پائے جاتے ہیں۔ مافیا راج میں شکر، آٹااور بجلی سے لے کر تعمیرات تک کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جہاں طاقت ور طریقے سے مختلف ”لابیز“اپنے اپنے مفادات کے لیے کام نہ کرتی ہوں۔ ”لابیز“کی ضرورت ہی تب پڑتی ہے جب مفادات جائز نہ ہو، اور اس کے تحفظ کے لیے روایتی طریقے کام نہ کرسکتے ہوں۔ پاکستان میں مفادات کی جنگ اتنی بھیانک شکل اختیار کرگئی ہے کہ مختلف جتھوں، گروہوں اور لوگوں نے اس کے لیے مجرمانہ طریقے سے مذہبی شخصیات سے لے کر سیاسی و رفاہی اداروں (بلڈر مافیا کا وفاقی حکومت سے تعمیرات کو صنعت کا درجہ دلانے کے لیے سیلانی ویلفیئر کا استعمال، جس پر تفصیل سے کسی رپورٹ میں روشنی ڈالی جائے گی)تک کو استعمال کرنامعمول بنا لیا ہے۔ بغیر کسی عزت کے دولت اور طاقت کے ذریعے اپنا سکہ جمائے رکھنے کا یہ رجحان قومی سطح پر کسی بھی نوع کی اعلیٰ اقدار کو جنم دینے کی راہ میں سخت رکاوٹ بن چکا ہے۔
ہوا بازی کی صنعت میں بھی یہ رجحان نہایت طاقت ور طریقے سے موجود ہے۔ اور اب اس رجحان نے ہمیں حادثات کا چہرہ دکھانا شروع کردیا ہے۔22 /مئی کو لاہور سے کراچی آنے والے بدقسمت طیارے کے حادثے کا ایک وسیع تناظر یہی طاقت ور”لابیز“ بھی ہے۔ پی آئی اے، سول ایوی ایشن اور پائلٹس سمیت اس صنعت کے مختلف شعبے اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف ”لابیز“ کے ساتھ دباؤ ڈالنے کے مختلف”ذرائع“ پر کامل دسترس پیدا کرچکے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ صنعت تباہ حال ہے جبکہ پاکستان میں ہوائی سفر ہر گزرتے دن غیر محفوظ ہوتا جارہا ہے۔ پی کے 8303 کے حادثے سے زیادہ عظیم نقصان یہ ہے کہ ہم یہ اعتماد بھی نہیں رکھتے کہ97قیمتی جانوں کو نگلنے والے اس سنگین واقعے کی تحقیقات بھی مکمل ہو پائے گی، اگر ہو گئی تو یہ دیانت دارانہ ہوگی،اور دیانت دارانہ ہوئی تو اس کے ذمہ داروں کو کوئی سزا بھی مل سکے گی۔ ڈھلمل یقین سیاسی ارادے، متلون مزاج حکومت اور منتخب احتساب کے سیاسی استعمال کی پختہ مکروہ روایت نے عوام کے عمومی اعتبار کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اگر کوئی ریاست یہ اعتبار کھو دے تو اسے کسی خارجی خطرے میں سب سے پہلے جس چیز کا نقصان ہوتا ہے وہ عوام کی بیگانگی(alienation) ہوتی ہے۔ عوام سوچتے ہیں کہ وہ کس کے لیے اپنی جانیں قربان کریں؟اب اس رویے کا مکروہ ترین نظارہ طیارہ حادثے کی تحقیقات میں سامنے ہے۔ ہوائی صنعت کے مختلف شعبوں کی”لابیز“اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہوچکی ہیں۔ 97قیمتی جانوں کے بعد حادثے کی تحقیقات میں سچائی کا قتل بھی بس ہونے ہی والا ہے۔
سول ایوی ایشن، پی آئی اے اور پالپا (پاکستان ایئرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن) نے اپنی اپنی آستینیں چڑھا لی ہیں۔97قیمتی جانیں، طیارہ حادثہ اور تحقیقات ان کا نیا دستر خوان ہے۔ بے شرمی کا نمک اور سفاکی کا اچار ذائقہ بڑھانے کے لیے موجود ہے۔ اگرچہ ابتدائی منظرنامے میں پائلٹس اور پی آئی اے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آتے ہیں، مگر اس پورے معاملے پر مجموعی ارتکاز یہ واضح کرتا ہے کہ کچھ لڑائیاں اندرونِ خانہ بھی جاری ہیں، جو ابھی منظرنامے پر طلوع نہیں ہوئیں۔وفاقی وزیرہوابازی غلام سرور خان حادثے کی تحقیقات میں ایک اور طرح کی دلچسپی رکھتے ہیں، جبکہ چیئرمین پی آئی اے کا مطمح نظر مختلف راستے پر چوکریاں بھر رہا ہے۔ اس کی پختہ شکل سامنے آنے دیں۔ ابھی پائلٹس اور پی آئی اے کی لڑائی پر دھیان دیں۔
ائیر ٹریفک اور اپروچ کنٹرولرز نے سارا ملبہ پائلٹ پر ڈال دیا ہے۔حادثے والے روز یعنی22 /مئی کو ذمہ داری پر مامور سول ایوی ایشن کے ایئر ٹریفک کنٹرولر اور اپروچ ٹاور کنٹرولر نے اپنے تحریری جواب میں لکھا ہے کہ حادثے کے روز پی کے 8303 کو لاہور سے کراچی تک اپروچ ٹاور کنٹرولر نے ہینڈل کیا، اپروچ ٹاور نے لینڈنگ سے 10 ناٹیکل میل کے بعد طیارہ کو لینڈ کرانے کا ذمہ داری اے ٹی سی کو سونپی۔اپروچ کنٹرولر کے مطابق کپتان نے لینڈنگ سے 10 ناٹیکل میل پر دی گئی ہدایات کو نظر انداز کیا، لینڈنگ سے قبل جہاں طیارے کی اونچائی 1800 فٹ ہونی چاہیے تھی، کپتان طیارے کو 3 ہزار فٹ اونچائی پر اڑا رہا تھا۔ کپتان نے بار بار ہدایت پر کہا کہ وہ لینڈنگ سے قبل اونچائی اوررفتار دونوں کو سنبھال لے گا۔تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ کپتان نے پہلی بار لینڈنگ گیئر کھولے بغیر طیارہ لینڈ کر دیا، کپتان نے پہلی لینڈنگ کی تو دونوں انجن رن وے سے ٹکرائے اور 3 بار رن وے سے رگڑ کھائی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کپتان لینڈنگ کے وقت رفتار اور اونچائی کو سنبھالنے میں لینڈنگ گیئر کھولنا بھول گیا۔ چنانچہ لینڈنگ گیئرکے بغیر جہاز لینڈ کرانے سے انجن رن وے سے ٹکرائے اور چنگاریاں نکلیں، طیارے کے کپتان نے ایک بار پھر جہاز اڑا لیا اور لینڈنگ کی اجازت مانگی، جہاز کے کپتان نے دوبارہ لینڈنگ کے وقت بتایا کہ جہاز کے انجن کام کرنا چھوڑ گئے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم نے سوال کیا کہ کیا کپتان نے ایمرجنسی لینڈنگ کا اشارہ دیا تھا۔ کنٹرولرز نے جواب دیا کہ کپتان نے ایمرجنسی کا نہیں بتایا اور کہا کہ وہ پرسکون ہے، لینڈنگ کرلینگے، لینڈنگ کے لیے طیارے کو رن وے نمبر 25 لیفٹ پر لینڈنگ کی اجازت تھی۔
اس تحریری جواب کو ہی دیکھا جائے تو یہ حادثے کا انتہائی برائے نام (Casual) جواب ہے، یوں لگتا ہے کہ ائیر ٹریفک کنٹرولر اور اپروچ کنٹرولر کو ابھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ جس طیارے کی بابت وہ جواب جمع کرارہے ہیں وہ 97قیمتی جانوں کے ساتھ بھسم ہو چکا ہے۔
سول ایوی ایشن کے پاس واضح جواب ہونا چاہئے کہ کنٹرول ٹاؤر نے کب یہ محسوس کیا کہ طیارہ خطرے کی حد میں داخل ہو گیا، اور کنٹرول ٹاؤر نے حادثے کی آہٹ محسوس کرتے ہوئے کیا اقدامات تجویز کیے۔ یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ پائلٹ نے ہدایات کو باربار نظر انداز کیا۔ کیونکہ اس وقت اس بیانئے کی تصدیق کے لیے جس ریکارڈکی ضرورت ہے، وہ دستیاب نہیں۔کنٹرول ٹاؤر کے ساتھ منسلک بنیادی سوال یہ ہیں:
٭طیارے نے لینڈنگ کے وقت رگڑ اس لیے کھائی کیونکہ پہیے کھلے ہوئے نہیں تھے۔
٭پہیے کھلے نہیں تھے، تو اسے لینڈنگ کی اجازت کیوں دی گئی؟
٭جب بغیرپہیے (لینڈنگ گیئر) کھلے جہاز رن وے پر رگڑ کھا رہا تھا، تو پھر اسے اوپر اُٹھانے کا مشورہ کیا ضروری تھا؟ کیا یہ کسی زیادہ بڑے خطرے کو کھلی دعوت دینے کے مترادف نہ تھا، پھر ایسا ہی ہوا۔
٭ کیا پائلٹ جہاز کے رگڑ کھانے کے بعد اپنی مرضی سے ہی اڑا لے گیا، تب کنٹرول ٹاور کیا کررہا تھا؟ کیا ہدایات دے رہا تھا؟
٭ کنٹرول ٹاور کو کب پتہ چلا کہ جہاز کے انجن ناکارہ ہوگئے ہیں؟
ان سوالات کے جواب کے بجائے ائیر ٹریفک کنٹرول دراصل اس بیانئے کے پیچھے چھپ رہا ہے کہ”کپتان نے ایمرجنسی کا نہیں بتایا اور کہا کہ وہ پرسکون ہے، لینڈنگ کرلینگے“۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ ساری ذمہ داری پائلٹ کے بیانئے پر ہی منحصر ہوتی ہے؟ ابھی پائلٹ کی ذمہ داری کا معاملہ ایک طرف رکھیں، درحقیقت ائیر ٹریفک کنٹرولر کی ذرا سی مستعدی اور حاضر دماغی سے اس حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔ ائیر ٹریفک کنٹرولر دوربین سے جہاز کو لینڈنگ کے وقت دیکھتا ہے۔ اگر لینڈنگ کے دوران میں جہاز کے پہیے کھلے نہیں تھے، تو اُسے جہاز کو لینڈنگ سے روکنا چاہئے تھا۔ یہ ایک پہلو جہاز کے انجن کو تباہی سے روک سکتا تھا، کیونکہ بظاہر جہاز کے انجن رن وے پر رگڑ کھانے سے ناکارہ ہوگئے تھے، ماہرین بتاتے ہیں کہ انجن کو فیول کی سپلائی اس رگڑ کھانے سے ممکنہ طور پر متاثر ہوگئی تھی۔تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ ”ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کپتان لینڈنگ کے وقت رفتار اور اونچائی کو سنبھالنے میں لینڈنگ گیئر کھولنا بھول گیا“۔بھول گیا، کیا مطلب؟ کیا جہاز میں لینڈنگ گیئر نہ کھولے جائیں تو جہاز تنبیہ آمیز آوازیں نہیں دیتا۔ کیا جہا ز کی پہیے کھلے بغیر لینڈنگ کے وقت یہ نظام بند تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر ہمیں سیدھے جہاز کو پرواز کی اجازت دینے والے ادارے کی طرف جانا پڑے گا۔ ایسا کیوں تھا؟ ایک پائلٹ جہاز کے پہیے کھولے بغیر لینڈنگ کے لیے اُتر رہا ہے، اُسے بھی معلوم نہیں، جہاز میں تنبیہ کرنے والے نظام کو بھی معلوم نہیں اور ائیر ٹریفک کنٹرولر کو بھی یہ معلوم نہیں۔ ائیر ٹریفک کنٹرولر اس سوال سے خود کو نہیں بچا سکتے کہ اُس نے دوربین سے جہاز کے پہیے نہ کھلنے پر جہاز کی لینڈنگ کو کیوں نہیں روکا؟ ابھی اس حوالے سے بہت سے پہلو زیر بحث لائے جاسکتے ہیں، مگر کالم کاورق تمام ہوا۔ سمجھنے کی بات بس اتنی ہے کہ لابیز کام کررہی ہیں اور خطرناک طریقے سے کام کررہی ہیں۔ اُنہیں حادثات اور اس کے نقصانات کی کوئی پروا نہیں، اُن کی پہلی ترجیح گروہی مفادات کا تحفظ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں