بلوچستان،وبا اور بدامنی
شیئر کریں
بلوچستان کے اندر پچھلے چند دنوں میں تخریب و دہشت گردی کے متعدد ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور چند دوسرے بلوچ سیاسی حلقوں کی جانب سے مبینہ جبری گمشدگیوں بارے احتجاج اور تشویش کا اظہار ہو رہاہے۔ 20مئی 2020ء کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس متحدہ حزب اختلاف کی بار بار کی ریکوزیشن پر طلب کیا گیا تھا۔ حزب اختلاف کورونا وباء اور اس تناظر میں حکومتی اقدامات اور عوام کو صحت کی سہولیات دینے اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے و دیگر مستحق افراد کو معاشی ریلیف بارے بات کرنے پر مصر تھی۔حزب اختلاف سمجھتی ہے کہ بے اعتدالیاں اور بد عنوانی مختلف مدات ،شعبوں اور محکموں میں ہوئی ہے۔ گویا یہا ں کورونا وباء ، عوام کے مسائل حکومت اور سرکاری محکموں کی نا اہلی ، غفلت اور دوسرے مسائل تو اپنی جگہ موجود ہیں۔ مگرمسئلہ امن و امان کا بھی درپیش ہے۔ جس پر بلوچستان اسمبلی میں بات ہونی چاہئے تھی۔ بلکہ اسمبلی اجلاس کے ایجنڈا میں یہ نقطہ بھی شامل ہونا چاہئے تھا۔ ذکر ہوا کہ پچھلے دنوں سنگین واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کی مختصر تفصیل یوں ہے۔ 08مئی 2020کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں بلیدہ کے مقا م پر سیکورٹی فورسز کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ کیا گیا ،چھ اہلکار جاں بحق ہو گئے۔ ریموٹ کنٹرول بم سڑک کنارے نصب کیا گیا تھا۔ سیکورٹی فورسز کی گاڑی پاک ایران سرحد پر معمول کی گشت پر تھی۔ اس واقعہ میں میجر ندیم عباس بھٹی، نائیک جمشید، لانس نائیک تیمور، لانس نائیک خضر حیات، سپاہی ساجد اور سپاہی ندیم جاں بحق ہو گئے۔ ایک سپاہی شدید زخمی بھی ہوا۔
19مئی 2020ء کو ضلع کچھی (بولان) میں پیر غائب کے مقام پر فرنٹیئر کور کی گاڑی ہدف بنی۔ فورسز کی گاڑی گشت کرنے کے بعد بیس کیمپ جا رہی تھی کہ آئی ای ڈی کا حملہ ہوا۔ نتیجتاً چھ اہلکار جان سے گئے۔ پاک آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ نے جونیئر کمیشنڈ آفیسر اور سویلین ڈرائیور سمیت چھ اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کر لی ہے۔ آئی ایس پی آر نے ان اہلکاروں کے نام نائب صوبیدار احسان اللہ خان، نائیک زبیر خان، نائیک اعجاز احمد، نائیک مولا بخش، نائیک نور محمد اور ڈرائیور عبدالجبار بتایا ہے۔ اس نوعیت کا ایک اور واقعہ پاک افغان سرحدی ضلع قلعہ عبداللہ میں بھی رونما ہوا۔ افغان سرحد کے قریب توبہ اچکزئی میں ایک بم دھماکے میں پاک فوج کے دو سپاہی جاں بحق ہو گئے۔ اسی واقعے میں دو سپاہی زخمی بھی ہو گئے تھے۔ فوج کے یہ سپاہی سرحد پر باڑ لگانے کے کام کے دوران وہاں موجود تھے۔ 20مئی کو ضلع کیچ میں سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا۔مند اور بلیدہ میں کی گئی یہ کاروائیاں فورسز پر پے در پے حملوں کے بعد عمل میں لائی گئیں۔ عسکریت پسندوں کے اہم کمانڈر احسان اللہ سمیت پانچ دوسرے عسکریت پسند مارے گئے۔ ایک عسکریت پسند حراست میں بھی لیا گیا۔ اور بھاری مقدار میں اسلحہ،گولہ بارود، ریموٹ کنٹرول بم اور دیگر اسلحہ برآمد کیا گیا۔
مئی 2020ء کے پہلے ہفتے میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ ضلع قلات اور خاران کے مابین واقع شور پارود کے مقام پر جھڑپ میں کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے دو افراد شہداد بلوچ اور احسان بلوچ مارے گئے۔ بی ایل اے اپنے لوگوں کے مرنے کی تصدیق بھی کر چکی ہے۔ان میں شہداد بلوچ تربت کا رہائشی تھا۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈیفنس اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں ایم اے کیا تھا۔ اور یونیورسٹی کے شعبہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز میں ایم فل کی ڈگری کے لیے ایڈ مشن بھی لے رکھا تھا۔ شہداد بلوچ مارچ 2015ء میں ایک بار تربت سے لاپتہ بھی ہو چکا تھا۔ تب انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اْن کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ چناں چہ چند ماہ بعد شہداد بلوچ منظر عام پر آ گئے۔ یوں اس روز فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ان کی ہلاکت اور بی ایل اے کی تصدیق نے مہر تصدیق ثبت کر دی کہ شہداد بلوچ ریاست کے خلاف مسلح کاروائیو ں میں ملوث تھا۔ بلوچستان اسمبلی کے اس اجلاس میں بد امنی کی صورتحال پر بات ہونی چاہئے تھی۔ یقینا سیاسی کارکنوں یاکسی کی جبری یا ماورائے عدالت گرفتاری و گمشدگیوں پر اعتراض و تشویش بجا ہے۔مگر ساتھ فورسز پر حملوں کے پہلو پر بھی خفگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ یقینا جب عسکریت پسندانہ عملیات نہ ہوں گی تو کوئی شخص ماورائے عدالت لاپتہ بھی نہیں ہو گا۔ غرض اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ بڑے زور و شور سے کیا جاتا رہا مگر جب اجلاس ہوا تو اس میں حزب اختلاف کے محض تیرہ ارکان شامل تھے۔ اور حکومتی بینچوں میں سے بھی تیرہ ارکان شریک ہوئے۔ گویا 20مئی کا اجلاس مقصد حاصل نہ کر سکا۔ حزب اختلاف اور حکومتی اراکین کو اجلاس میں دلچسپی دکھانی چاہئے تھی تاکہ درپیش وباکی صورتحال اور مبینہ محکمانہ بے اعتدالیوں اور جملہ صورتحال پر سیر ح?اصل بحث ہوتی۔ اچھا ہو گا کہ اگر آئندہ کے اجلاس میں صوبے کے اندر فورسز پر حملوں اور دوسرے افراد کو ٹارگٹ بنانے کے واقعات پر بھی بات ہو۔
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔