غفلت نہیں احتیاط اور انتظامات
شیئر کریں
کورونا کی بے شمارنئی اقسام کی شناخت ہو چکی ہے مگر ماہرین اِس وائرس کی پانچ کے قریب اقسام کو انسانی صحت کے لیے زیادہ خطرناک اور مہلک قرار دیتے ہیں جو امیون سسٹم کو زیادہ تیزی سے متاثر کرتی ہیں کچھ اقسام کا تریاق ویکسین ایجاد ہو چکی لیکن اب بھی ایسی اقسام موجود ہیں جن کی تشخیص اور علاج میں دنیا کامیابی سے دورہے اسی لیے بیماری کا شکار ہونے والے مریضوں اور اموات کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے دنیا میں اموات کی شرح 2.12جبکہ ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے پاکستان میں یہ شرح 2.16فیصد تک پہنچ چکی ہے پھر بھی یہ کون لوگ ہیں جوماسک کے استعمال ،سماجی فاصلے اور دیگر احتیاطی تدابیر کے قائل نہیں ایسے لوگ وبا کنٹرول کرنے میں رکاوٹ ہیں یہ غیر سنجیدہ ہی مسائل بڑھانے کا موجب ہیں ہمیں کم از کم اپنی ذات سے تو مخلص ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں بلکہ ہماراطرزِعمل وبا کو دعوت دینے والا ہے، بازاروں میں ہجوم اور سڑکوں پرنوجوان آوارہ گردی میں مصروف ہیں ریستورانوں میں رش ہے ماسک کا ستعمال بہت کم ہے نہ ہی سماجی فاصلے کی پاسداری ہورہی ہے ہاتھ دھونے کی بھی زحمت نہیں کی جارہی ایسا کیوں ہے غیر سنجیدگی اور غیر زمہ داری دکھا کرکیا بتانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ اللہ نے کرم کیا جو پہلی لہر کے دوران ملک بڑے جانی نقصان سے محفوظ رہا لیکن نئی لہر میں ہماری پوری کوشش ہے کہ دنیا کے دیگرممالک کی طرح ہم بھی المیے سے دوچار ہوں ۔
لوگوں کو اپنی جان بچانے پر قائل کرنے کے لیے حکومت سرتوڑ کوشش کر رہی ہے احتیاطی تدابیر کی پاسداری کے لیے آگاہی مُہم جاری ہے لیکن نتائج حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کُن ہیں جس کی وجہ سے کورونا وبا کے پھیلائوکی شدت میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ا سکولوں اور کالجوں میںچھٹیوں کا منچلے غلط استعمال کر رہے ہیں دعوتوں و ضیافتوں کا سلسلہ شروع ہے حالانکہ غفلت کی نہیں ہمیں احتیاط کی ضرورت ہے پاکستان کا نظامِ ِصحت کسی بڑے بحران کا سامنا کرنے کے قابل نہیںبلکہ دگرگوں معاشی حالات کی بنا پر حکومت ابھی تک ضرورت کے مطابق ویکسین خریدنے میں کامیاب نہیں ہو سکی مگر یہ بھی یادرہنا چاہیے کہ ساخت بدلتاکورونا ویکسین تبدیلوں کا متقاضی ہے حالات اِتنے خراب ہیںکہ ہمارے ملک کا ذیادہ تردارومدار ابھی تک مفت ملنے والی ویکسین پر ہے ہمارے تحقیقی اِدارے باوجود کوشش کے موثر ویکسین نہیں بنا سکے اسی لیے درآمد پر انحصار ہے اگر عام لوگ وبا کے خطرے کا ادراک کریں تو ویکسین کی عدم دستیابی کے باوجود بیماری کو محدود کیا جا سکتا ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت لاکھ ہدایات جاری کرے ملک کی اکثریت لاپروا ہ ہے جس سے نظامِ صحت اور معیشت پر دبائو میں اضافہ ہوگیا ہے کیسی ستم ظریفی ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کرانے کے لیے فوج کو بلانے کی نوبت آگئی ہے جوکورونا کی تازہ ترین سنگین آزمائش میں سولہ شہروںمیں سول اِداروں کی مدد کررہی ہے فوج نے حالات کے تناظر میں انٹرنل سیکورٹی الائونس نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اگر ادائیگی کرنا پڑتی تو تباہ حال معیشت کا کیا حال ہوتا؟ فوج نے بھی بڑے شہروں میں ماسک کے استعمال اور سماجی فاصلے کو سختی کے زریعے یقینی بنا ناہے اگر عوامی سطح پر تعاون کیا جاتا تو سرحدوں کی حفاظت کی زمہ داری چھوڑ نے کی ضرورت پیش نہ آتی اب بھی دوردراز کے دیہات میں رہنے والے تعاون کریں تو وبا کے پھیلائو کو روکنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں عوام کی اکثریت کا آج بھی روزانہ کی آمدن پر انحصار ہے اسی لیے کورونا وبا کے باوجود حکومت نے سخت پابندیوں سے گریز کیا پھر بھی غربت میں اضافے کا خدشہ رَد نہیں کیا جا سکتاآکسفیم کی رپورٹ کے مطابق کورونا کے باعث یومیہ تین سوکمانے والے ایک کروڑپاکستانی مزید غربت کا شکار ہو جائیں گے اقوامِ متحدہ نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روزانہ پانچ سو کے لگ بھگ کمانے والے اٹھاسی لاکھ افراد کو کورونا بحران غربت کی کھائی میں دھکیل سکتا ہے صرف پاکستان ہی نہیںکورونا کی موجودہ عالمی وبا نے دنیا بھر کی معیشتوں کو متاثر کیا ہے امریکہ جیسی جدید ترین اور وسائل کی فراوانی رکھنے والی ریاست سمیت یورپی ممالک جن کے صحت کے نظام کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے بھی وبا کے سامنے بے بسی ولاچاری کی تصویر بنے نظر آتے ہیں لیکن پاکستان کی کمزور معاشی حالت کی بنا پر اہلِ وطن کی مڈل کلاس کچھ ذیادہ ہی متاثر ہوئی ہے ایک تو روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں دوسرا مہنگائی نے لوگوں کی قوتِ خرید کم کر دی ہے جس سے عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اسی بنا پر حکومت نے ابتدا میںسخت پابندیوں سے گریز گیا لیکن اب حالات اِس نہج کو پہنچ گئے ہیں کہ سخت پابندیوں کے سواکوئی چارہ نہیں رہا۔
بھارت نے عجلت میں بغیر سوچے سمجھے لاک ڈائون کا اعلان کیا مقصد لوگوں کو اکٹھے ہونے اور گھلنے ملنے سے روکناتھا لیکن اچانک لاک ڈائون کے اعلان سے لاکھوں لوگ سڑکوں پر پیدل ہی گھروں کو چل پڑے جس سے وبا کوزیادہ تیزی سے بڑھنے اور پھیلنے کے مواقع ملے علاوہ ازیں پیدل گھروں کو روانہ ہونے والے درجنوں افرادبھوک پیاس اورراستے کی دیگر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے اب بھی کمبھ میلہ نے بھارت کے طول وعرض میں کورونا کو پھیلنے کا موقع دیا ہے کمبھ میلہ ہر بارہ سال کے بعد ہوتا ہے قبل ازیں 2010 میں انعقاد ہوا مگر ہندوجوتشیوں نے مشورہ دیا کہ حالات بہت بہتر ہیں اِس لیے 2022کی بجائے رواں برس ہی منعقد کرنا بہتر ہوگا لیکن جوتشیوں اور مذہبی رہنمائوںکو ناراض نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پورے ملک میں کورونا نے پنجے گاڑلیے ہیں لوگ آکسیجن کی عدم دستیابی سے مررہے ہیں صرف آکسیجن کی ہی نہیں ملک میں ویکسین ،بیڈ اور ادویات کی بھی قلت ہو گئی ہے جو ہمارے لیے عبرت کا مقام ہے ہمیں جذبات کی بجائے ہوش کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ رمضان المبارک کے بعد عید الفطر ہوگی اگر سماجی تقریبات میں شرکت سے گریز اور ایس او پیز پر عمل کریں تو نہ صرف خود صحت مند رہ سکتے ہیں بلکہ اپنے خاندان اور پیاروں کے ساتھ دیگر ہم وطنوںکو وبا سے بچا سکتے ہیں ۔
حکومت کے لیے کرنے والا فوری کام یہ ہے کہ جوں جوں وباسے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے صحت کے مراکز میںسہولیات بڑھائی جائیں جن میں آکسیجن کا پیشگی انتظام ناگزیر ہے وزرا خود اعتراف کر چکے ہیں کہ آکسیجن کی پیداوار کاا سی فیصد ہسپتالوں میں استعمال ہو رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت کے مطابق اکسیجن فراہم کرنے کے حوالے سے ہم خطرے کے قریب پہنچ گئے ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک میں اکسیجن کی تیاری ہنگامی بنیاد پر بڑھائی جائے اگرکوئی غیر فعال پلانٹ ہیں تو اُنھیں فوری چلانے پر توجہ دی جائے ہسپتالوں کے بستر مریضوں سے بھر چکے ہیں بلکہ کئی شہروں میں مریضوں کی تعدادکے حوالے سے بستر دستیاب نہیں وینٹی لیٹرزبھی گنجائش کی آخری حدوں کو چھونے لگے ہیں اِس لیے آکسیجن ،وینٹی لیٹر،بیڈاور امیون سسٹم کو بہتر کرنے والی ادویات کا خاطرخواہ بندوبست کیا جائے علاوہ ازیں ملک میں ویکسینیشن کی سُست رفتار کو تیز کیا جائے لیکن حاصلِ کلام یہی ہے کہ وبا کے پھیلائو کو محدود کرنے کے لیے احتیاظی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جائے تبھی ملک صحت مند رہ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔