میرے ’’ٹڈ‘‘ میں آج کیا ہے؟
شیئر کریں
دوستو، رمضان المبارک کا پہلا عشرہ تو الحمدللہ بخیروخوبی اختتام پذیر ہوچکا۔۔بلکہ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو آدھا رمضان پورا ہوچکا۔۔آج پندرھواں روزہ ہے۔۔ یعنی دوہفتے بعد عید ہوگی اور شیطان بھی آزاد ہوجائے گا۔۔ رمضان المبارک میں افطار اور سحر کے وقت جس طرح روزے دار سب کچھ ’’ہڑپنے‘‘ کی فکرمیں لاحق رہتے ہیں اور اس کے بعد جب پیٹ حددرجہ بھرجاتا ہے تو چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہوجاتے ہیں۔۔ کچھ تو فوڈپوائزنگ کا شکار ہوجاتے ہیں۔۔پھر جب ڈاکٹر کے پاس جاکر کہتے ہیں۔۔میرے ’’ٹڈ‘‘(پیٹ) میں آج کیا ہے؟ تُو کہے تو میں بتادوں؟؟۔۔
جب سن 2 ہجری میں روزے فرض ہوئے تو کچھ ہی وقت بعد یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ اہل مدینہ کو سحری میں جگانے کے لیے کونسا طریقہ اختیار کیا جائے؟تاریخ کے اوراق کی گرد کو اگر جھاڑ کر دیکھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ ایک صحابی۔۔ سیدنابلال بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ پہلے شخص تھے، جو روزوں کی فرضیت کے بعد مدینہ کی گلیوں میں سحری کے وقت آوازیں لگا، لگا روحانیت کا سماں باندھ دیتے تھے اور لوگوں کو سحری کے لیے جگایا کرتے تھے ۔۔سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ سنت مدینہ المنورہ میں زور پکڑتی گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بہت سے دوسرے لوگ بھی یہ خدمت انجام دینے لگے۔ان سحری جگانے والوں کے ساتھ اکثر بچے بھی شوق میں شامل ہو جاتے اور رمضان کی سحری ایک خوشنما فیسٹول محسوس ہونے لگتی تھی۔ عربی میں سحری جگانے والوں کو ’’ مسحراتی‘‘ کہتے ہیں ۔۔مدینہ المنورہ کے بعد عرب کے دوسرے شہروں میں بھی سحری جگانے والے اس روایت کی پیروی کرنے لگے اور پھر یہ رواج پوری اسلامی دنیا میں پھیل گیا۔میسا حراتی یہ فریضہ فی سبیل اللہ انجام دیا کرتے تھے، لیکن ان کی خدمت سے مستفید ہونے والے مسلمان انہیں مایوس نہیں کرتے تھے اور آخری روزے والے دن انھیں ہدیہ انعام یا عیدی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ مسجدوں کے امام مسجدوں کی چھتوں یا میناروں پر لالٹین جلا کر رکھ دیتے تھے اور باآواز بلند لوگوں کو سحری کے وقت کی اطلاع دیتے تھے۔۔جہاں آواز نہیں پہنچ پاتی تھیں، لوگ روشن لالٹین دیکھ کر اندازہ لگا لیتے تھے کہ سحری کا وقت ہو گیا ہے ۔۔اب بھی ہمارے ملک کے شہروںمیں ڈھول والے سحری جگانے آتے ہیں۔۔ یہ اور بات ہے کہ شہری آبادی کی اکثریت سحری کے انتظار میں جاگ رہی ہوتی ہے۔۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔ مورخ لکھے گا کہ ایک قوم ایسی بھی تھی جو سحری کے انتظار میں پوری رات جاگ کر گزارتی تھی اور افطار کے لیے پورا دن سو کر گزارتی تھی۔۔
ایک نشئی افطاری کے وقت سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔۔اس کے بچے وضو کرکے نماز کے لیے مسجد جانے کی تیاری کر رہے تھے۔۔بچوں کا دادا اپنی چارپائی پہ لیٹا یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔۔دادا اپنے نشئی بیٹے کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا۔۔۔او بے غیرتا۔۔تینوں شرم نئیں آندی۔۔۔بچے نماز کے لیے مسجد جا رہے ہیں اور تم مزے سے لیٹے سگریٹ کے کش لگا رہے ہو۔۔۔نشئی نے مسکرا کے باپ کو دیکھا اور بولا۔۔ویکھیا فیر! اپنی تربیت تے میری تربیت دا فرق۔۔۔ہمارا پیارا دوست تو اس رمضان صبح شام یعنی سحر و افطار میں بس ایک ہی دعا مانگتا ہے۔۔یااللہ۔۔ میری والدہ کو افطار اور سحری اکیلے بنانا پڑرہی ہے، وہ بے چاری دن رات مشقت کرتی ہیں، یااللہ اپنے اس لاچار بندے کی سن اور انہیں پیاری سی ’’بہو‘‘ عطا فرما، جو سحری اور افطار بنانے میں ان کی مدد کرسکے۔آمین، ثم آمین۔۔۔کورونا دن بدن بگڑتا جارہا ہے، اب تو فوج کو بھی طلب کرلیاگیا ہے۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔جس عوام کو ماسک پہنانے کے لیے پولیس ناکافی ہو اور فوج طلب کی جائے، ایسی عوام کو’’مار نہیں پیار‘‘ کے ذریعے پڑھانے والے اساتذہ کو سلام۔۔
سموسہ۔۔۔افطار کی شاید واحد ایسی ’’سوغات‘‘ ہے جو کراچی سے لے کر خیبر تک ہر دسترخوان پر کثرت سے پایا جاتا ہے۔۔ سموسے کے حوالے سے ہمارے ایک نامعلوم ’’فین‘‘ نے ہمیں ایک خوب صورت تحریر جسے ہم سموسے کی شان میں ’’قصیدہ‘‘ قرار دیتے ہیں، ہمیںبھیجا، آپ کی دلچسپی کے لیے ہم اسے شیئر کررہے ہیں۔۔ ہمارے نامعلوم دوست لکھتے ہیں کہ۔۔سمومہ دنیا کی واحد تکونی صورت کا مثلث شکل میں ہر دلعزیز تحفہ ہے جو مسلمانوں کے لیے موبائل کے بعد دنیا کی بہترین ایجاد ہے۔ہماری تو دعا ہے کہ جس نے سموسہ ایجاد کیا ہے اسے قیامت والے دن بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل کیا جائے۔۔شام ڈھلتے ہی کراچی کی گلیوں میں سموسوں کے تلنے کی سوندھی اشتہا انگیز خوشبو ہر سو پھیل جاتی ہے۔ یہ ایک عام ڈش کے طور پر استعمال ہوتی ہے، مگر رمضان المبارک میں تو افطاری اس کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے دوست جناب محمد طلحہ فرماتے ہیں کہ روزے تواللہ نے فرض کیے ہیں مگر افطاری میں یہ سموسے کس نے فرض کیے؟ کراچی میں سموسوں کے ساتھ چٹنی لینا اتنا لازمی سمجھا جاتا ہے جیسے یہ ہمارے آباؤ اجداد کی میراث ہو، چٹنی سموسوں کے’’ سواد‘‘ کو دوہرا کردیتی ہے۔۔ بزرگوں کا ماننا ہے کہ سموسوں سے بچی ہوئی چٹنی قبلہ رو ایک سانس میں پینا،کئی موذی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔۔ لیکن مجھے چٹنی سے ایک پریشانی ہے اور وہ یہ کہ چٹنی کی ڈور اتنی مضبوطی سے باندھ لیتے ہیں کہ اسے کھولنے میں افطاری کا وقت نکل جاتا ہے بعض فارغ العقل سیانے کہتے ہیں۔۔ سموسے بناتے وقت منہ بنانے والی لڑکیوں کو سموسے کی شکل والے شوہر ملتے ہیں۔ پاکستان بھر میں سموسہ مشہور ہے۔ ہر جگہ کا اپنا ایک الگ ذائقہ ہوتا ہے، ویسے حجم کے اعتبار سے لاہوری و فیصل آبادی جبکہ ذائقہ کے اعتبار سے کراچی کے سموسے کافی شہرت رکھتے ہیں۔سموسہ گرم کھایا جاتا ہے۔۔ چنانچہ یوسفی صاحب فرماتے ہیں کہ ٹھنڈا سموسہ کھانے سے بہتر ہے بندہ گالی کھالے،پکوڑوں کے شکل والے نمونے سموسے کھانا پسند نہیں کرتے، بلکہ اس کی جگہ وہ شوق سے جوتے کھا سکتے ہیں ۔۔بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو سموسے نہیں کھاتے جیسے جانور سموسے نہیں کھاتے، مگر ہم صرف سموسے نہ کھانے کی بنیاد پر کسی کو جانور کہنے کے قائل نہیں۔۔ یہاں تک وہ رمضان میں ’’ روزہ ہے کیا‘‘ والی بے تکی باتیں کر کے خود کو جانور ثابت نہ کریں۔آم اور سموسے دونوں میں جو چیز قدر مشترک ہے وہ ہے تمیز کا فقدان۔۔ یعنی ان دونوں کو کھاتے ہوئے جس چیز کا خیال نہیں رکھنا ہوتا ہے وہ ہے تمیز۔۔ چونکہ محققین کا ماننا ہے کہ آم اور سموسوں کا سواد تمیز کے ساتھ نہیں لیا جا سکتا۔مرزا غالب نے سموسے نہیں بس آم ہی کھائے تھے ورنہ یک آدھا شعر سموسوں پر ضرور کہہ دیتے اور یہ ضرور خواہش کرتے کہ سموسے ہوں کافی سارے ہوں اور ساتھ کھٹی میٹھی چٹنیاں ہوں اور مکس سلاد بھی اور چنے بھی اور کوک بھی اور ہری چٹنی بھی ہو۔۔ خیر غالب صاحب کے نرالے شوق تھے ،ان کاکچھ نہیں کہا جاسکتا۔فی زمانہ سموسہ واقعی ایک حیرت انگیز کشش رکھتا ہے بالخصوص اس وقت تو مجھے لڑکی کے ہاتھوں کی مہندی کے خوشبوسے بھی زیادہ مہک سموسے کی آرہی ہے ،اور دانشوروں کا ماننا ہے کہ سموسے تلنے کی خوشبو کا مقابلہ دنیا کی اور کوئی خوشبو نہیں کر سکتی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اس وقت بقائے زندگی کے دو ہی اصول ہیں ۔۔ کرونا سے لڑنا ہے ڈرنا نہیں ۔۔اور بیگم سے ڈرنا ہے لڑنا نہیں ۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔