میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انصاف اور ملین ڈالر درخت

انصاف اور ملین ڈالر درخت

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۸ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

قحط الرجال کا ماتم کرنے والا بھی لحد میں اُتر گیا۔گمنامی جسے راس آئی۔ بغداد کے بزرگ نے کہا تھا ”عافیت گمنامی میںہے۔“ ہر کسی کو یہ میسر کہاں؟حیرت ہے کہ حیات کو سرکاری ملازمت میں بسر کرنے اور فعال زندگی کی تمام حرکیات سے نباہ کرنے والے نے بالآخر زندگی کو گمنامی کی نذر کیا۔کیسے مگر کیسے وہ یہ کرپایا؟ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا جب اس سوال کی رومان پرور فضاءمیں خاکسار نے اُس کے درِ دولت پر حاضری دی۔ خاموش اور مرتب آدمی، اپنی کتاب کی طرح۔ ورق ورق کھلتا ، مگر کہاں؟انکسار جسے اُس نے بے رحمانہ تربیت سے پیدا کیا ہوگا کہ وہ ایک سرکاری افسر تھا۔ اور معمولی نہیں۔جس نے اپنی زندگی اکابرین میں گزاری تھی اور سرکاری فرائض کی بجاآوری میں غفلت نہ برتی تھی۔ یہ ہیرو اپنے ہیروز کے ساتھ بھی فرائض کی بجاآوری میں کبھی غافل نہ رہا ہوگا۔” آوازِ دوست“ میں یہ احساس بھی ہر جگہ بولتا ہے۔ نثر کی گرج جسے خاموش نہیں ہونے دیتی۔مرتب آدمی انکسار کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر بات کرتا۔ لب پر ایک مشفقانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا!کیا واقعی یہ گمنامی ہے؟جیسے کہہ رہے ہو، میں دل میں ایک دنیا آباد کرکے بیٹھا ہوں۔کتاب کی مانند نہیں جس کے متن پر کبھی پُرانے پن کی پیلاہٹ اُترآتی ہے یہ ” سفرِ نصیب“ ہے جو دل کی دنیا کے مسافر کو ساز گار ہے۔جس کا پڑاو¿ بھی منزل ہے۔ ارے نہیں!یہ وہ سفر ہے جس میں دوام منزل کو نہیں سفر کو ہے۔ جس میں سفر خود منزل ہے۔
مختار مسعود کو مرحوم کیسے لکھیں!سفرنصیب کے دوسرے حصے کی سفری داستان کاعنوان ”طرفہ تماشا“ ہے ۔جس میں آج کے پاکستان کا پورا تماشا بھی ملتا ہے۔ ماند یادداشت پر بھی زیادہ زور دینا نہیں پڑتا۔ دل کا مسافر اسی کی دہائی میں نیویارک کے عالمی میلہ میں ایک قد آور گھنے اور چھتنار درخت کے پاس ٹھہر گیا تھا۔ ایک عجیب درخت جس میں کوئی ہریالی اور چھاو¿ں نہ تھی۔ یہ درخت اُگا نہیں تھا۔ اس کا تنازمین میں گاڑا گیا تھا۔اس پرشاخوں کو جوڑااور پتوں کو ٹانکا گیا تھا۔ایک مالیاتی ادارے نے اس درخت کو وہاں نصب کررکھا تھا اور یہ دولت کا درخت تھاجس پر پتوں کی جگہ کرنسی نوٹ لگے تھے اس کا نام ملین ڈالر درخت تھا۔ مسافر جو سفرنصیب کے لطیف و کثیف تجربوں میں سرخرو لوٹا تھا،لکھتے ہیں کہ سراسر مصنوعی درخت کو دیکھنے ایک دنیا امڈ آئی تھی۔ پھٹی پھٹی آنکھیں اور للچائی للچائی نظریں۔ مسافر نے اُس کے گرد جمع ہونے والی مخلوق کاخاکہ ہی نہیں کھینچا ، کچھ کان پڑے فقروں کا بھی ذکر کیا ہے۔مسافر جب ان احوال کا مشاہد بن رہا تھاتب پاکستان میں موٹے پیٹوں کا ایک لشکر لالچ کے پنگھوڑے میں جھولتے ہوئے بہتی ناکوں اور گرتی رالوں میں متعفّن لوریاں سُن رہا تھا۔ اسے بعد میں جانے والوں کی مذمت اور آنے والوں کی مدحت کا منفعت بخش فریضہ سرانجام دینا تھا۔جس میں بھٹو کی مخالفت کی بھی ایک قیمت تھی اور زرداری کی حمایت کی بھی۔جس میں نوازشریف کی کاسہ لیسی بھی تھی اور پھر پرویز مشرف کو قائد اعظم ثانی تک قراردینے کی چالاکی بھی۔ اُن کا ملین ڈالر درخت نیویارک کے کسی میلے میں نہیں گڑا تھا بلکہ حکمرانوں کے تلوے تلے دبا تھا۔ وہاں حسرتیں تھیں یہاں ذلتیں ہیں۔ وہاں نایافت کا ملال تھا یہاں یافت کا کمال ہے۔ وہاں پھٹی پھٹی نگاہیں تھیں یہاں لٹکی لٹکی توندیں ہیں۔ وہاں پر بس دیکھنے والوں کے گھاو¿ تھے یہاں دیکھنے والوں کے ساتھ حمیت ، غیرت اور آخرت تک سب کچھ داو¿ پر ہیں۔ کیا مختار مسعود کو اندازا رہا ہوگا کہ وہ سفر کا جو مشاہدہ لکھ رہے تھے وہ کبھی وطن عزیز کا ماجرا ہوگا؟ ابھی اس درخت کے نیچے ہی کھڑے رہیں جس کی کوئی چھاو¿ں نہیں اور مسافر کی زندگی کے اُن چار سالوں میں جھانکتے ہیں جب وہ ایران میں آرسی ڈی کے جنرل سیکریٹری کے طور پر قیام پزیر رہے۔ اور اپنی شاہکار کتاب لوحِ ایام رقم کی۔
مختار مسعود نے ایران کے تین بادشاہوں کا ذکر کیا ہے عدل وانصاف کے باعث جو تاریخ کے دوام میں رہیں گے۔اُنہوں نے نوشیروان ، کیقباد اور کمبوجیہ میں سے ہر ایک کے عدل کے بارے میں کچھ فقرے تحریر کیے۔جس میں بادشاہ کمبوجیہ کے دور میں عدالتوں میں انصاف رائج کرنے کی ایک انوکھی ترکیب کا ذکر بھی ہے۔ بادشاہ کے حکم کے تحت بے ایمان جج کی کھال اُس کے جیتے جی کھینچ لی جاتی اور پھر وہی کھال اُن کی کرسی عدالت پر مڑھوا دی جاتی پھر وہاں اُسی جج کے بیٹے کو مقرر کیا جاتا ۔ مختار مسعود نے اس کی وجہ اپنے الفاظ میں لکھی ہے کہ ”تاکہ وہ اُس کرسی پر بیٹھ کر آغوشِ پدر کی گرمی اور انجامِ پدر کی تپش محسوس کرے اور مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت انصاف اور صرف انصاف سے کام لے۔“آگے لکھتے ہیں کہ ”معاشرہ میں عدل وانصاف رائج کرنے کا یہ دستور اور مظلوم کی حمایت کا یہ نسخہ جو ول دیورانٹ کی داستانِ تہذیب میں درج ہے نہ جانے کیوںپاکستان کے ہر اس کمیشن کی نظروں سے اوجھل رہاجو وقتاً فوقتاً انصاف کو فوری اور یقینی بنانے اور رشوت کا قلع قمع کرنے کے لیے قائم کیے جاتے رہے۔ اگر Cambyses کے اس قانون کو آج ہر سرکاری اور نیم سرکاری ادارہ میں نافذ کردیا جائے تو گودام بے انصاف اور بددیانت حکمرانوں کی کھالوں سے بھر جائیںاور ملک میں صوفوں اور کرسیوں کی پوشش بنانے والے تمام کارخانے بند ہو جائیں۔“مختار مسعود جب یہ لکھ رہے تھے تو پاناما کو پیش آنے میں ابھی سنتیس سال سے کچھ اوپر کا عرصہ باقی تھا۔ کسی کو کیا خبر کہ وہ اس فیصلے سے چار روز قبل کیوں اس دنیا سے کوچ کرگئے ہوں گے؟ دل کے مسافر نے اپنے اندر جھانکا ہوگا اور شہ رگ سے قریب اپنے رب سے کہا ہوگا کہ چارروز کی اس زندگی میں چار روز کے بعد کے پاکستان کا دکھ کیا دیکھنا؟ جس کی حفاظت کا ذمہ تو نے اُٹھایا اُس کا غم میں کیوں کھاو¿ں؟ دو آرزو میں کٹ گئے اب مزید دو انتظار میں نہیں گزارنے۔بس یہ کہا ہوگا اور غمِ حیات سے بھی نجات کی دُعا کی ہوگی؟ دل کا مسافر آخرت کے اب سفر پر ہے مگر دماغ کے کیڑے اب بھی زمین پر رینگتے ہیں۔ پاناما کی شیرینی چاٹتے اورکھیر بانٹتے ہیں۔
مسافر تورخصت ہوا! مگر ملین ڈالر کا وہ درخت ابھی بھی کھڑا ہے۔ نیویارک کے عالمی میلے میں نہیں پاکستان کے اندر موٹے پیٹوں کے لشکر کے دماغوں میں، فیصلہ سازوں اور حکمرانوںمیں۔یاد آیا مسافر نے لکھا تھا کہ ہوا کا جھونکا آتا تو نیویارک کے درخت کے مصنوعی کاغذی پتوں سے سبز پتوں کی سُریلی آواز کے بجائے درشت اور ڈراو¿نی آوازیں آنے لگیں۔ مگر ساتھ کھڑی ہوئی ایک لڑکی کہہ رہی تھی کہ میں نے اس سے زیادہ سُریلی آواز اپنی زندگی میں نہیں سُنی۔ میرا تو اس درخت کے پتوں کی تال پر کپڑے پھاڑ کر ناچنے کو جی چاہتا ہے۔ لڑکی کو ڈراو¿نی آوازیں سُریلی لگیںاور اُس کا برہنہ رقص کرنے کو دل چاہا۔ مگر یہاں یہ عریاں بدن رقص رات دن جاری ہے۔ موٹے پیٹوں کے لشکروں کو بھی حریص لڑکی کی طرح درشت اور ڈراو¿نی آوازیں سُریلی لگتی ہیں۔مختار مسعود نے اس کاتجزیہ ایک فقرے میں کردیاکہ ”مسافر کو احساس ہوا کہ موسیقی دل میں کانوں کے راستہ داخل ہونے کے بجائے گاہے خواہش کے زینہ سے نیچے اُترتی ہے۔ “مسافر چار روز مزید زندہ رہتے تو موٹے پیٹوں کے لشکروں کے لیے خواہش کے لفظ کو غیر موزوں پاتے۔ یہاں حرص و ہوس کے ماروںکے لیے وہ کوئی ایسا لفظ ڈھونڈتے جو قبل ازاسلام کی عرب شاعری میں بھی اسفل و ارزل ہوتا۔ ایسے لوگ بس اپنے حریص بیٹوں کے ہیرو بنتے ہیں قوم کے بیٹوں کے نہیں۔ جب یہ دنیا سے اُٹھتے ہیں تو اُن کے بیٹے ناجائز دولت کے لیے باہم لڑتے مرتے ہیں۔مسافر نے نیویارک کے عالمی میلے کے درخت کے پت جھڑ کے موسم کا ماجرا بھی لکھا ہے کہ” اس کے پتے شاخوں سے جدا نہیں ہوتے۔ بس دعوے دار اور حصہ دار بلندیوں سے زمین پر منہ کے بل گرتے رہتے ہیں۔خزاں دولت پر نہیں دولت مندپر آتی ہے۔ الھٰکمُ الَّتکاثُرُ حَتّٰی زُرتُم المَقابِر۔مختار مسعود کو مرحوم کیسے لکھیں؟ انصاف کو لکھتے ہیں اور موٹے پیٹوں کے لشکر کو جنہیںایک روز لالچ کی بلندیوں سے زمیں پر منہ کے بل آگرنا ہے۔تب وہ اپنے گرد آباد انجمن کو ایک تماشادیکھنے والا ہجوم پائیں گے۔ وہ اُن کی تعزیت کے لیے کلمہ خیر تک نہ کہیں گے۔کہ وہ اُن کے ہی تو سچے مقلد ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں