میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نظام کو خطرہ

نظام کو خطرہ

ویب ڈیسک
منگل, ۲۸ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

مینار پاکستان جلسے میں کپتان کا بلا ایک بار پھر چلا۔ یہ جلسہ اس اعتبار سے انتہائی اہم تھا کہ یہ حکومت کی دباؤ پیدا کرنے والی دیکھی اور ان دیکھی طاقت کے تمام پہلوؤں کے استعمال کے باوجود ہوا۔ عمران خان کا یہ جلسہ ماضی کے مینار پاکستان کے تمام جلسوں سے مختلف کہا جا سکتا ہے ، کیونکہ تحریک انصاف کے پچھلے جلسوں کے حوالے سے یہ پروپیگنڈا آسانی سے کیا جاسکتا تھا کہ عمران خان کو مقتدر قوتوں کی حمایت حاصل تھی۔ مگر اب عمران خان اُن ہی قوتوں کے مقابل ایک ایسے وقت میں جلسہ کررہے تھے، جب اُن پر سو سے زائد مقدمات قائم ہیں، وہ ہر روز کسی نہ کسی مقدمے میں ضمانت کی تگ ودو کرتے نظر آتے ہیں۔عدالت عالیہ لاہور کے ایک معزز جج نے برسر عدالت عمران خان کو یہ مشورہ دے دیا ہے کہ ”سسٹم میں آئیں”۔ گویا عمران خان نظام سے باہراور نظام کے مقابل واحد رہنما کے طور پر اُبھرے ہیں۔ عمران خان پر اب نظام کی اندرونی حمایت کا پرانا الزام بھی کسی طور نہیںلگایا جاسکتا۔ مریم نواز کی بات دوسری ہے جو اقتدار کے خاندانی تصرف کے ساتھ ایک خانہ ساز سیاست کی عادی بن چکی جس میں سب کچھ ہاتھ میں ہونے اور ہاتھ میں رکھنے کا مطلب ہی انصاف، سیاست ، سچ، حقیقت اور باقی سب کچھ ہیں۔وہ عمران خان کی موجودہ پزیرائی پر اپنی آنکھیں بند کرکے کچھ بھی کہہ سکتی ہیںاور کہہ بھی رہی ہیں۔ مگر سیاست ایسے بیمار تصورات کی بوجھل اور محبوس فضاؤں سے آمادۂ بغاوت ہے۔ تاریخ کی یہ سرگوشی مقتدر اشرافیہ کے کان سننے کو تیار نہیں۔ اس کے برعکس طاقت ور حلقے بہاؤ کے برخلاف اپنی من مرضی کے حالات تشکیل دینے پر مُصر ہیں، جن کا عوامی خواہشات سے دور دور تک کوئی تعلق باقی نہیںرہ گیا۔عمران خان پر ایک قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے۔ اور اُن کے بقول اُن کے خلاف مزید قاتلانہ حملوں کے منصوبے ابھی موجود ہیں۔ یہی نہیں چند روز قبل زمان پارک میں اُن کے گھر کو ایک ایسے وقت میں نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک مقدمے میں ضمانت کے لیے اسلام آباد کی عدالتوں میں موجود تھے۔ یہ سب کچھ ایک بیمار اور لاغر حکومت کے بس کی بات نہیں۔ کوئی تو ہے جو اس نظام نِیستی کو ہانک رہا ہے اور یہ پہلو ایک عام آدمی کا غصہ بن کر اُس کے ذہن میں اب سطح شعور پر اُبل، اُچھل رہا ہے۔ مینار پاکستان پر عمران خان کا جلسہ یوں ہی کامیاب نہیں ہوا۔
عمران خان کے خلاف ریاستی اور سرکاری اقدامات کو شمار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ماضی میں سردار عبدالرب نشتر کے خلاف ایوب خان کا بغض وہ پہلا واقعہ نہیں تھا جو سیاست دانوں کے ساتھ تعلق میں پاکستان پر مستقل سیاسی بدنصیبی طاری کرنے کا موجب بنا۔ یہاں ایک منتخب وزیراعظم کی پہلی لاش بھی ہے، جو اس ملک سے کچھ لینے والے نہیں بلکہ اسے دینے والوں میں تھے۔ لیاقت علی خان کا قتل بعد کے وزرائے اعظم کو قتل کرنے والے واقعات جیسا نہیں۔ یہ ایک مختلف قتل تھا، بعد کے وزرائے اعظم پر بدعنوانی اور جاہ پسندی سمیت سینکڑوں الزامات لگائے جاسکتے ہیں۔ مگر لیاقت علی خان پر تو ایسا کوئی الزام نہیں تھا۔ وہ بزم بانیانِ پاکستان کا حصہ تھے۔ اور ایک نوزائیدہ ملک کو درست سمت میں رکھنے کی جستجو میںتھے۔ مگر ایسے لوگ بھی گوارا نہیںکیے جاسکے۔ اقتدا کی لت اور فیصلوں پر اختیا رکا مرض ، نظیر ،دلیل، اپیل اور وکیل سے شفایاب ہونے والا نہیں۔ یہ ایک جراحت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں مستقل نوعیت کے خطرات موجود ہیںاور ایک ہڑبونگ مچنا فطری عمل ہے۔ عمران خان حادثاتی طور پر اس جدلیاتی عمل میں”جواب دعویٰ ”(اینٹی تھسیس) کی حالت پر دھکیل دیے گئے ہیں۔ خوش قسمتی سے وہ ابھی تک اعصابی طور پر اس کے اہل ثابت ہورہے ہیں۔آگے کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
یہ کوئی کمزور اعصاب کا آدمی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کہ جہاں ایک ریلی گوارا نہ کی جارہی ہو، وہاں مینار پاکستان میں جلسے کا اعلان کردیا جائے۔ مینار پاکستان جلسے سے قبل دو مرتبہ تحریک انصاف کی ریلیوںکو طاقت کے ذریعے اڈھیڑا گیا۔ مینار پاکستان میں جلسے کا فیصلہ بھی دوبار تبدیل کیا گیا۔ طاقت کے ننگے استعمال میں حکومت پہلے کبھی اتنی بے پروا دکھائی نہیں دی۔ جتنی لاہور میں اب نظر آئی۔ سرکاری ادارے کسی باز پرس کے احساس سے عاری دکھائی دیے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ دیکھی ان دیکھی قوتیں تحریک انصاف کو کچلنے کے لیے کوئی آخری حد نہیں رکھتی۔ اس دوران عمران خان کو عدالتی تاریخوں کا مزہ بھی ساتھ ساتھ چکھایا جا رہا تھا۔ پھر زمان پارک پر سفاکی سے ہلّہ بولا گیا۔ یہ سب عمران خان کے اعصاب چٹخانے کے لیے کافی سے زیادہ تھا۔ مگر ایسا نہیںہوسکا۔ ماضی میں طاقت ور ترین سیاسی رہنماؤں کے خلاف مختلف ریاستی آپریشنز کم ازکم عارضی حدتک ہی سہی مگر نتیجہ خیز رہے ہیں۔ ایم کیوایم کی مثال تو بالکل سامنے ہے۔ ایم کیوایم تحریک انصاف کی طرح سیاسی ذرائع سے جدوجہد کرنے پر یقین نہ رکھتی تھی۔بلکہ ایم کیوایم وہ قوت تھی جو سیاسی ذرائع اور انتخابی عمل تک کو قوت سے کنٹرول کرنے کی تاریخ اور نفسیات رکھتی تھی۔ الطاف حسین کھلے بندوں دھمکیوں، بوریوں اور لاشوں کا ذکر لہک لہک او ربہک بہک کرکرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں، ایم کیوایم کے خلاف ریاستی آپریشن کا حصہ بننے والے پولیس افسران ایک ایک کرکے نشانا بنائے گئے۔ ایم کیوایم کے پاس اسلحہ بھی موجود تھا۔ مگر وہ سیاسی ذرائع اختیا رنہ کرنے اور عوامی حمایت کے مضبوط بیانیے سے محرومی کے باعث ریاستی طاقت کے آگے ڈھیڑ ہوگئی، یہی اس کی بداعمالیوں کا مقدر بھی تھا۔ مگر اہم نکتہ یہ ہے کہ ایم کیوایم نے خود کو مزاحمت کے لیے ہی تیار کیا تھا۔ مگر وہ اس کی اہل ثابت نہیں ہوئی۔ اس کے بالکل برعکس صرف سیاسی ذرائع پر انحصار کرنے والی تحریک انصاف ایک مضبوط بنانیے کے ساتھ کیونکر مزاحم ہونے کی اہلیت پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ سیاست کے طالب علموں کے لیے سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کا ایک بہت بڑا موضوع بھی ہے۔ تحریک انصاف پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ یہ” برگر کلاس” سے تعلق رکھتی ہے، اور اس میں ”ممی ڈیڈی” بچے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ماضی میںجیالوں کو پیپلزپارٹی کا ایک مضبوط مزاحمت کرنے والا گروہ بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ مگر تحریک انصاف جو مزاحمت دکھا رہی ہے وہ تو ماضی کی نسبتاً بہتر پیپلزپارٹی بھی نہیں دکھا سکی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مینا رپاکستان کا جلسہ اپنی عوامی شرکت کے لحاظ سے ایک زبردست پیغام رکھتا ہے۔
یہ جلسہ اس کے باوجود ہواکہ اسے ناممکن بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اقدامات اور دھمکیوں کی ایک فہرست مرتب کر لیجیے ! کیا کیا نہیں ہوا؟ اخلاقی حمایت سے محروم پنجاب کی محسن نقوی کی نگراں حکومت نے ہر شرمناک اقدام کاکھلے بندوں دفاع کیا۔ ماضی میں خود کو اسٹیبلشمنٹ مخالف ظاہر کرنے اور مختلف الزامات دھرنے والے عامر میر نے تو حد کردی۔ صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ یہ وہ مخلوق ہے جو صرف موقع کی منتظر ہوتی ہے۔ اگر موقع مل جائے تو اُن کے خیالات و نظریات بازار کی مخلوق بن جاتے ہیں۔ اس کٹھن اور مشکل ترین حالات میں عمران خان کا جلسہ منعقد کرنے کا خیال ہی ایک دیوانہ پن محسوس ہوتا تھا۔ کیونکہ صف بستہ، لب بستہ اور دست بستہ ذرائع ابلاغ میں ایک نسبتاً کم عوامی شرکت کے جلسے پر تحریک انصاف کے ناکام ہونے کا اجتماعی حکم لگادیا جاتا۔ پروپیگنڈے کا ایک طوفان اُٹھایا جاتا۔
اگر تحریک انصاف کے رہنماؤں کے گھروں پر ہزاروں چھاپے، مختلف رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں اورپنجاب حکومت کی فسطائی سوچ کے ساتھ تحریک انصاف کو کچلنے کی حکمت عملی پر کامیاب عمل درآمد کو سامنے رکھیں تو مینار پاکستان کے جلسے میں عوامی شرکت کو خوف زدہ ماحول میں ناممکن بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جلسے کے دن بھی ایسے اقدامات اُٹھائے گئے کہ لوگ گھروں سے ہی نہ نکلیں۔ پہلے تو مینار پاکستان کے جلسے تک جانے والی سڑکیںکنٹینر لگا کر بند کردی گئیں۔ یہ کافی نہ تھا کہ دہشت گردی فورس نے پاکستان تحریک انصاف کے مینار پاکستان پر ہونے والے جلسے میں حملے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے تھریٹ الرٹ جاری کردیا۔سی ٹی ڈی پنجاب نے اپنے تنبیہی پیغام میں کہا کہ تحریک طالبان کے مرکزی رہنما مکرم خراسانی نے مینار پاکستان پر دہشت گردی کا منصوبہ تیار کیا ہے ، دہشت گرد ملک میں افراتفری پیدا کرنے کے لیے پی ٹی آئی رہنماؤں کو زمان پارک، ریلیوں اور مینار پاکستان جلسے کو نشانہ بناسکتے ہے ۔سی ٹی ڈی نے اپنے مراسلے میں یہ بھی کہا کہ مکرم خراسانی نے دہشت گرد عبدالولی خان سے مشاورت کے بعد منصوبہ ترتیب دیا ہے ۔دہشت گردوں نے 25 خودکش بمباروں کے ساتھ حملے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔ عبدالولی خان ماضی میں لاہور شہر میں متعدد دھماکے کر چکا ہے ۔یہ اتنی بڑی تنبیہ تھی کہ ایسی کوئی تنبیہ ماضی میں سنائی نہیںدی۔ کیونکہ 25خودکش بمباروںکی تعداد تو افغانستان کی حالیہ جنگ میں کبھی افغان طالبان کی جانب سے امریکا اور نیٹو فورسز کے لیے بھی ایک ساتھ استعمال نہیں ہوئی۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو امریکا کچھ سال جلدی ہی افغانستان سے فرار ہوجاتا۔ عاقبت نااندیش اور مضحک کرداروں سے چلایا جانے والا یہ نظم مملکت اپنی بھد خود اڑانے کا باعث بن رہا ہے۔ یہ ایسا ماحول تھا جس میں تحریک انصاف کے کسی بھی عام حامی کے لیے جلسے میں شرکت سوائے خطرے کے او رکچھ نہ تھا۔ اس ماحول میں یہ تحریک انصاف سے زیادہ خودحکومت اور طاقت ور حلقوں کے لیے اہم تھا کہ مینار پاکستان کے اس جلسے میں اب جائزہ لیا جائے کہ لوگ شریک ہوتے ہیں یا نہیں؟ عمران خان کے ادراک سے یہ نکتہ اوجھل نہ رہا ہوگا۔ پھر بھی وہ مینار پاکستان کا جلسہ مسلسل مخالفت و مزاحمت کے ماحول میں منعقد کرنے میں کامیاب رہے۔ درحقیقت یہ حکومت تھی جس نے غیر معمولی حالات میں عوام کے جلسے میں شرکت کے عزم کو بھی غیر معمولی بنادیا۔مینار پاکستان کا جلسہ واضح کر رہا ہے کہ عوامی تیور بگڑ رہے ہیں۔ اور یہ سرکاری اقدامات ہی ہیں جو عوام میں غصے کا باعث بن کر نظام کے لیے حقیقی خطرہ بنتے جارہے ہیں۔
٭٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں