میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
غذائی بحران اورکرپشن کی اجازت

غذائی بحران اورکرپشن کی اجازت

ویب ڈیسک
منگل, ۲۸ مارچ ۲۰۲۳

شیئر کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں سیاسی دنگل تو چل ہی رہا ہے ساتھ میں صدر اور وزیر اعظم کے خط بھی دلچسپ صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں اور ان خطوط کی روشنی میں مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے سرکاری ملازمین بھی دبی دبی سرگوشیوں سے کھلے خط کی طرف آن پہنچے ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم کے الزامات سے بھر پور خط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ملازم نے وزیراعظم شہباز شریف کوحقیقت پر مبنی خط لکھ کر کرپشن کرنے کی اجازت مانگ لی۔ ملازم نے خط میں لکھا کہ مہنگائی کے باعث گھریلو اخراجات تنخواہ سے پورے نہیں ہو رہے۔ گھریلو اخراجات ایک لاکھ 10ہزار 500روپے ہیں اور تنخواہ کم ہے۔ اگر حکومت تنخواہ نہیں بڑھاتی توپھر ہمیںکرپشن کرنے کی اجازت دی جائے۔ مہنگائی اوراخراجات بڑھنے کے باعث مستقبل کے لیے کوئی جمع پونجی نہیں ہے جبکہ ہمارے مقابلے میں نیب، ایف آئی اے، پی ایم آفس اور دیگر اداروں کے ملازمین کی تنخواہ زیادہ ہے اور اب کم تنخواہ اور مہنگائی کے باعث گھریلو اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا ۔
ایف بی آر کے ملازم کی طرف سے لکھا گیا یہ خط سچ مان لیاجائے تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں کیونکہ صرف ایک ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں 1.80فیصد کا بڑا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 46.65فیصد ہو گئی اور اس صورت حال میں سرکاری ملازمین کی چیخیں نکل گئی ہے تو عام آدمی کا کیا حشر ہوتا ہوگا بلکہ عام آدمی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ حکومت کی طرف سے مفت آٹا پانے کی تگ و دو میں ملک کے مختلف شہروں میں اب تک 6 جانیں بھی جاچکی ہیں اورسابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے شہر تونسہ میں اسسٹنٹ کمشنر کو اپنی واسکٹ کی قربانی دے کر بھاگنا پڑا ،ورنہ ہجوم نے اس کے کپڑے بھی اتار دینے تھے۔ اس تمام صورت حال کے باجودضلعی انتظامیہ آٹے کی پرسکون تقسیم کا طریقہ کار نہ بناسکی جن شہروں میں آٹے کے حصول میں لوگ جان سے گئے ان میں بھکر ، مظفر گڑھ، ملتان، فیصل آباد، کوٹ ادو اورچارسدہ شامل ہیں۔ اگر ضلعی حکومت نے آٹے کی مفت تقسیم کا آسان اور پرسکون طریقہ اختیار نہ کیا تو پھر آنے والے دنوں میں حالات کسی کے بھی قابو میں نہیں رہیں گے۔ تونسہ میں مفت آٹے کے حصول میں آنے والے شہریوں نے اپنے پر تشدد رویے سے اسسٹنٹ کمشنرکو بھاگنے پراس لیے مجبور کیا کہ انہیں کئی گھنٹے لائن میں لگنے کے باوجود آٹا نہیں ملا۔ بلاشبہ حکومت کا آٹے کی مفت فراہمی کا فیصلہ بہت ہی اعلیٰ ہے اور اس سلسلہ میں پنجاب کا محکمہ خوراک بھی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ سیکریٹری فوڈ زمان وٹو اپنی ٹیم کے ہمراہ ہر شہر میں آٹا تو فراہم کررہا ہے لیکن شہروں کی انتظامیہ کوئی ایسا طریقہ وضع کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی کہ عوام کو بغیر دھینگا مشتی کے آٹے کا ایک تھیلا مل سکے۔ امید ہے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اس طرف بھی توجہ دینگے کیونکہ عوام کے جان و مال کا تحفظ ان کی پہلی ترجیح ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو مستقبل میں گندم سمیت مختلف اجناس کو ذخیرہ کرنے کے لیے بھی جدید ماڈلز کو اپنانا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے کی گندم چوہے بھی ہضم کرسکتے ہیں۔ سندھ میں تو ایسا ہو چکا ہے اور ہمیں گندم کی کمی کا سامنا بھی ہے۔ ابھی پنجاب میں ہونے والی حالیہ بارشوں سے گندم کی فصل کوشدید نقصان پہنچا ہے۔ اس لیے ہمیں آنے والے برسوں میں پاکستان کوخوراک کے حوالے سے مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات اور معاشی بدحالی نے ملک کے غذائی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اناج ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو بہتر بنانے سے ان میں سے کچھ چیلنجز کو کم کرنے اورغذائی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ اناج ذخیرہ کرنے کی سہولیات خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر نے کے ساتھ ساتھ فصل کے بعد ہونے والے نقصانات کو کم کرنے، اناج کے معیار کو برقرار رکھنے اور سال بھر خوراک کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرتی ہے لیکن پاکستان میں اناج ذخیرہ کرنے کی موجودہ سہولیات ناکافی اور پرانی ہیں جس کی وجہ سے پیداوار کے بعد اناج کو نقصان پہنچتا ہے جس سے خوراک کی دستیابی کم اور قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اناج ذخیرہ کرنے کی جدید سہولتوں سے استفادہ کرے تاکہ کیڑوں، چوہوں اور نمی کی وجہ سے اناج خراب ہونے سے بچ سکے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک وزراعت کے مطابق پاکستان خوراک کے نقصان کے حوالے سے دنیا بھر میں 63ویں نمبر پر ہے باقی اجناس کو تو چھوڑیں آپ صرف چنے کی فصل کو دیکھیںجس کی کاشت ان علاقوں میں ہوتی ہے جہاں زمین زرخیز ہے نہ پانی کی دستیابی ہے۔ بارشوں سے تیار ہونے والی اس فصل کی پیداوارکو سنبھالنے کے لیے ہمارے کسانوں کے پاس وسائل نام کی کوئی چیز نہیں۔ اگر ہمارے ہاں چنے کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے توکسان اسے ذخیرہ کرنے سے قاصر ہیں اور اسے مقامی تاجروں کوکم قیمت میں بیچنے پر مجبور ہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آج تک کسی حکومت نے توجہ نہیں دی حالانکہ محکمہ زراعت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو اپنی فصل بڑے پیمانے پر ذخیرہ کرنے کی سہولتیں استعمال کرنے کے لیے آسان طریقے بتائیں۔ تاکہ غریب کسان ذخیرہ کرنے کی بہتر سہولیات کے ساتھ اپنے اناج کو زیادہ دیر تک ذخیرہ کرسکیں اور وہ اپنی مصنوعات کو بہتر قیمت پر فروخت کریں ۔ حکومت اگر اس طرف توجہ دے تو کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان غذائی عدم تحفظ کے مسئلے سے نمٹ سکتا ہے جبکہ اناج ذخیرہ کرنے کی سہولیات میں سرمایہ کاری سے پاکستان کی فوڈ ویلیو چین کو مضبوط بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے اور اس سلسلہ میں اناج ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو بہتر بنانے میں نجی شعبہ بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ حکومت نجی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ یا دیگر مالی مراعات دے کر اسٹوریج کی نئی سہولیات کی تعمیر یا موجودہ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔ امید ہے متعلقہ محکمے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اس پر توجہ دیںگے تاکہ ملک میں گندم سمیت دیگر اجناس کا جو بحران رہتا ہے۔ اس پر موثر انداز سے قابو پایا جاسکے گا۔
رہی بات صدر اور وزیر اعظم کے خط کی وہ اتنا سنجیدہ نہیں جتنا کرپشن کے حوالے سے اجازت لینے والا خط ہے۔ اسے بھی زرعی ٹیکنالوجی کی طرح سنجیدہ لیا جائے ۔
٭٭٭
(تحریر ۔روہیل اکبر00923004821200)

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں