یہ جارحانہ ہندتوا کی جیت ہے!
شیئر کریں
اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ان حلقوں میں مایوسی کی لہر دوڑادی ہے جو تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے تھے ۔بالخصوص یوپی اور اتراکھنڈ میں بی جے پی کی واپسی پر سیکولر حلقوں میں غم کا ماحول ہے ۔اضطراب اور بے چینی کی ایسی لہر ہے جسے پوری طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔انتخابی نتائج کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہندتوا کی جارحانہ سیاست نے عوام کے ذہنوں پراپنا تسلط قایم کرلیا ہے اور وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں سوچنے کی طاقت کھوچکے ہیں۔ اترپردیش ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے اور کہا جاتا ہے کہ دہلی کی گدی کا راستہ لکھنؤ سے ہوکر گزرتا ہے ۔اسی لیے یہاں کی ہر سیاسی سرگرمی پر پوری دنیا کی نگاہ ہوتی ہے ۔یوں تو اس بار پانچ صوبوں میں چناؤ ہورہے تھے ، لیکن سب کی نگاہ اترپردیش پر ہی مرکوز تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ اگر بی جے پی اترپردیش کا چناؤ ہارگئی تو پھر اس کے لیے 2024کے عام انتخابات جیتنا مشکل ہوجائے گا اور ملک میں تبدیلی کی لہر آجائے گی۔اسی لیے سیکولر حلقوں کی کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح یوپی میں بی جے پی کے قدموں کو روک کر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے ، لیکن یہ کوشش ناکام ہوئی اور بی جے پی ایک بار پھر یوپی کے اقتدار پر قابض ہوگئی۔ اس کے ساتھ وزیراعظم نریندرمودی نے اپنے 2024 کی راہ آسان ہونے کا اشارہ بھی دیا۔ان نتائج سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ملک میں اب سیکولر سیاست کی جگہ محدود ہوگئی ہے ۔ تاہم اطمینان بخش بات یہ ہے کہ یوپی میں سماجوادی پارٹی اس بار ایک مضبوط اپوزیشن کے طورپر ابھری ہے اور اس کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔2017کے مقابلے اس کی سیٹیں تین گنا بڑھ گئی ہیں۔سماجوادی پارٹی کی کامیابی میں مسلم ووٹ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔دوسری اطمینان بخش بات یہ ہے کہ جس مسلم ووٹ بینک کو ختم کرنے کا بی جے پی نے دعویٰ کیا تھا، وہ ایک بار پھر یوپی کی سیاست کے محور میں آگیا ہے ۔ اس مرتبہ مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد میں دس کا اضافہ درج ہوا ہے ۔ پچھلے الیکشن میں مسلم ممبران کی تعداد23تک محدود ہوگئی تھی، جواب بڑھ کر 33ہوگئی ہے ۔کئی حلقوں میں سماجوادی پارٹی کے مسلم امیدواروں نے بی جے پی کو دھول چٹائی ہے ۔
سبھی کو معلوم ہے کہ سنگھ پریوارنے اترپردیش کو ہی سب سے پہلے اپنی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا۔90کی دہائی میں جب یہاں رام جنم بھومی مکتی آندولن شروع کیا گیا تو ماحول پوری طرح ‘شانت’ تھا، لیکن جیسے جیسے بابری مسجد کے خلاف زہر افشانی شروع ہوئی تو ماحول پراگندہ ہوتا چلا گیا اور اس کے نتیجے میں بی جے پی کو اترپردیش کی کرسی ملی۔کانگریس یہاں سے صاف ہوگئی اور اس کا ووٹ سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی میں منتقل ہوگیا۔آج اترپردیش میں کانگریس کا کوئی نام لیوا نہیں ہے ۔ حد تویہ ہے کہ دلت ووٹوں کی واحد ٹھیکیدار مایا وتی بھی حاشیہ پر پہنچ گئی ہیں۔ نتائج کو دیکھ کر اندازہوتا ہے کہ مایا وتی نے اپنا ووٹ بی جے پی کو منتقل کرادیا ہے اور یہ کام کسی بڑی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ مایا وتی نے اپنی بدترین شکست کا ٹھیکرا ان مسلمانوں کے سر پھوڑا ہے ، جنھیں انھوں نے کبھی اہمیت ہی نہیں دی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یوپی میں یوگی سرکار کے خلاف عوام میں زبردست ناراضگی تھی اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کی ناکارکردگی کے نتیجے میں اس بار عوام یوگی کا تختہ پلٹ کراترپردیش کی کمان سماجوادی پارٹی کو سونپ دیں گے ، لیکن یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ سماجودای پارٹی کی سیٹوں میں خاصا اضافہ تو ہوا لیکن وہ اکثریت تک نہیں پہنچ پائی۔ 2012کے اسمبلی چناؤ کی طرح اس بار بھی مسلمانوں نے اپنا سارا ووٹ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔ حالانکہ پوری انتخابی مہم کے دوران اکھلیش یادو نے مسلمانوں سے ‘دوگز کی دوری’بنائے رکھی اور ان کی کسی میٹنگ یا روڈ شو میں مسلمان نام کی کوئی چڑیا بھی ان کے ساتھ نظر نہیں آئی۔ان کا خیال تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ رکھیں گے تو بی جے پی ان پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگائے گی۔ حالانکہ وہ اس الزام سے خود کو بچا نہیں پائے اور مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے متعدد ریلیوں میں ہندوؤں کو یہ خوف دلایا کہ اگر سماجوادی پارٹی اقتدار میں آئی تو طاقت کا توازن اعظم خاں، ناہید حسن اور مختار انصاری کے پاس ہوگا۔وہ ایسا تاثر دینا چاہتے تھے کہ 25کروڑ کی آبادی والے اس عظیم صوبے میں یہی تین داغدار ہیں۔ ظاہر ہے یہ برادران وطن کے ذہنوں کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش تھی، جس میں بی جے پی کامیاب ہوگئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امت شاہ کے اس منفی پروپیگنڈے کے باوجود رامپور سے اعظم خاں، کیرانہ سے ناہید حسن نے جیل میں رہتے ہوئے زبردست کامیابی حاصل کی اور مختار انصاری کا بیٹا بھی کامیاب ہوا۔ایک دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی یوپی میں کسانوں کا اتحاد توڑنے کے لیے بی جے پی نے مظفرنگراور کیرانہ کا جو موضوع اچھالا تھا، اس کا الٹا ہی اثر ہوا۔ایک طرف جہاں کیرانہ میں ‘پلائن’کا موضوع اچھالنے والے بی جے پی لیڈر آنجہانی حکم سنگھ کی بیٹی کیرانہ سے ناہید حسن کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئی تو وہیں مظفر نگر فساد کے کلیدی ملزمان میں شامل بی جے پی کے تین ممبران اسمبلی سریش رانا، سنگیت سوم اور امیش ملک شکست فاش سے دوچار ہوئے ۔ دوبار کے ایم ایل اے سنگیت سوم کو سردھنہ حلقے میں سماجوادی پارٹی کے امیدوار اتل پردھان نے 18ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ جبکہ دوسری طرف یوگی سرکار کے وزیر اور مظفرنگر فساد کے ملزم سریش رانا تھانہ بھون سیٹ سے آرایل ڈی کے اشرف علی خان نے شکست فاش سے دوچار کردیا۔ فساد کے ایک اور ملزم امیش ملک کو بڈھانہ حلقہ میں آرایل ڈی امیدوار راج پال بالیان نے شکست دی۔یہ وہ حلقے ہیں جہاں امت شاہ نے عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہاں تک کہ انھوں نے 650 برس پہلے ہونے والے جاٹوں اور مغلوں کے کسی معرکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح جاٹوں نے مغلوں سے لوہا لیا تھا، اس طرح ہم بھی لے رہے ہیں۔اگر آپ اترپردیش میں بی جے پی کی انتخابی مہم کا سرسری جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ مہم پوری طرح فرقہ وارانہ موضوعات پرمبنی تھی۔ امت شاہ نے بارہا ایسے بیانات دئیے جو بطور وزیرداخلہ انھیں زیب نہیں دیتے تھے ۔ الیکشن کے میدان میں وہ اس حقیقت کو فراموش کرچکے تھے کہ ان کے کاندھوں پر ملک کی اندرونی سلامتی کی ذمہ داری بھی ہے ۔بی جے پی لیڈروں کی سب سے بڑی
شناخت یہی ہے کہ وہ الیکشن کے میدان میں یہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے وزارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے کسی بھی فردکے ساتھ بھیدبھاؤ نہ کرنے کا حلف اٹھایا ہے اور آئین کی پاسداری کی قسم کھائی ہے ۔
حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج میں دو ایسی باتیں ضرور ہوئی ہیں جنھوں نے سبھی کو چونکا دیا ہے ۔ ان میں پہلی یہ ہے کہ بہوجن سماج پارٹی اس الیکشن میں پوری طرح صاف ہوگئی ہے ۔ چار مرتبہ اترپردیش کی وزیراعلیٰ رہ چکی بہن جی کو اس الیکشن میں رائے دہندگان نے پوری طرح مسترد کردیا ہے ۔ حالانکہ 2019کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی نے لوک سبھا کی دس نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن اس بار ان کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا۔انھوں نے سب سے زیادہ 88 مسلم امیدوار یہ سوچ کر میدان میں اتارے تھے کہ مسلمان ان کی جھولی ووٹوں سے بھردیں گے ، مگر الیکشن کے دوران بی جے پی کی طرف ان کا جھکاؤ دیکھ کر لوگ سنبھل گئے تھے ۔ دوسری اچنبھے والی بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی نے پنجاب میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے ۔اس نے وہاں 97 سیٹیں جیت کر ریکارڈ قایم کردیا ہے ۔ برسراقتدار کانگریس پارٹی وہاں شرمناک شکست سے دوچار ہوئی ہے ۔ خود وزیراعلیٰ چنی کو عام آدمی پارٹی کے ایک ایسے امیدوار نے شکست دی ہے جو ایک موبائل شاپ میں معمولی ملازم ہے ۔اس طرح عام آدمی پارٹی اب دہلی کے بعد پنجاب میں بھی حکومت سازی کرنے جارہی ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ پانچ اسمبلی انتخابات کے رزلٹ کے بعد اپوزیشن کیا حکمت عملی تیار کرتی ہے ۔2024کے چناؤ کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں اور وزیراعظم نے باقاعدہ اس کا بگل بجادیا ہے ۔اگر اپوزیشن نے متحد ہوکر اس کی تیاری ابھی سے شروع نہیں کی تو نتائج اس سے مختلف نہیں ہوں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔