ہم کہاں کھڑے ہیں؟
شیئر کریں
ترقی کے پس منظرمیں یہ جاننا بھی ضروری ہوتاہے کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے ہمارا طرزِ عمل کیساہے ؟ دوسروںکا اس بارے میں نقطہ ٔ نظر کیا ہے؟ داخلی اور خارجی مسائل کیا ہیں؟ ہماری حکومتوںکے پاس اس کا سلوشن کیاہے؟ یا کیا ہونا چاہیے عوام کی اکثریت کو اس بات کا یقین ہے کہ ہمارے حکمران صرف اپنے متعلق ہی سوچتے ہیں عوام ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہیں۔ قومیں ایسے ہی اوپرنہیں اٹھیں اس کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی،زبردست حکمت ِ عملی اور ویژن ہونا لازمی ہے اب ہم لاکھ دنیا بھرمیںد ھنڈورہ پیٹتے پھریں کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروںکے لئے حالات سازگارہیں ،ان کے لئے ترقی کے زبردست مواقع ہیں یا پھرا س کے لئے تر غیبا ت کے روزانہ نت نئے پیکیج کے اعلانات کریں کسی کو اعتبارنہیں آئے گا۔۔کیوں؟ اس کا جواب بڑا آسان اور سادہ سا ہے جب ہمارے اپنے ملک کے لو گوں نے بھاری بھرکم انوسٹمنٹ بہت سے غیرممالک میں کررکھی ہے ہم یقین کون کرے گا ،ان لوگوںمیں ہماری سینکڑوںاہم شخصیات اور بیوروکریسی،سیاستدان اور تاجرشامل ہیں جب یہ لوگ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاروںکے لئے ترغیبات کے لئے زمین آسمان کے قلابے ملارہے ہوتے ہیں تو مجھے یقین ہے وہ دل ہی دل میں ہنس رہے ہوتے ہیں کوئی مبالغہ نہیں کوئی یہ بھی کہہ رہاہو
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ا سی تناظرمیںروسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جوکچھ کہا وہ اتنی بڑی سچائی ہے کہ انکار محال ہے اس کی باتیںبڑی پرفیکٹ ہیں سوچیں تو اگر ہماری یہی حالت جاری رہی توپھر یقین ہے کہ
لائیں گے غسال کابل سے اورکفن جاپان سے
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے ہماری سوچ کے مطابق بات کہی ،یہ خیالات کوئی نیک شگون نہیں ہے بلکہ ہماری قومی المیہ ہے لیکن ہمیں مطلق اس کااحساس نہیں اس لئے احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ پاکستان پاکستانیوں کے لئے قبرستان ہے ، پیوٹن کا کہنا تھا کیا اشرافیہ پاکستان کو فقط قبرستان سمجھتی ہے وہ تو پاکستان میں اپنا علاج کروانا گوارا نہیں کرتے ،ان میں شامل جو حکمران ہیں ان کو اللہ نے اتنی توفیق بھی نہیں دی کہ وہ یہاں ایسے ہسپتال بھی نہیں بنوا سکے جہاں ان کا اپنا علاج ہو سکتااسی لئے کہ جب کوئی پاکستانی امیر ہوجاتاہے تووہ اپنا بینک اکاؤنٹ سوئیزر لینڈمیں رکھتا ہے۔ وہ علاج معالجہ کے لئے امریکہ اور برطانیہ جاتاہے وہ شاپنگ دوبئی اور یورپ سے کرتا ہے وہ چائنا کی چیزیں خریدتا ہے وہ عبادت مکہ اور مدینہ میں کرتا ہے۔ اولاد یورپ میں تعلیم حاصل کرتی ہے وہ سیر کرنے کے لئے امریکہ برطانیہ اور کینڈا کا سفر کرتا ہے اور وہ جب مرجاتاہے تو وہ اپنے آبائی وطن پاکستان دفن ہوتاچاہتا ہے۔اس سے ظاہرہوتا ہے ۔پاکستان پاکستانیوں کے لئے صرف قبرستان ہے اور جان لوایک قبرستان کیسے ترقی کرسکتاہے۔
اب آتے ہیں معروف اداکارہ انجلینا جولی کی طرف جس نے پاکستانی رہنمائوں کے بارے میں شرمناک خیالات کااظہارکرکے دنیا کو چونکادیا تھا لیکن ہم نے اس سے بھی کچھ نہیں سیکھا ،ستمبر 2010ء کو اقوامِ متحدہ کی سفیر کا دورہ تھا ۔ہالی ووڈ کی صف اوّل کی اداکارہ اور اقوامِ متحدہ کی سفیر انجلینا جولی نے جب پاکستان میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور امریکہ واپسی پر اقوام متحدہ کے لئے ایک خصوصی رپورٹ بھی لکھی جس میں انہوں نے ایک طرف متاثرین کی صورتحال کو انتہائی دردناک انداز میں پیش کیا اور دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کی عیاشیوں اور انکے شاہانہ طرز عمل کو دیکھ کر صدمے میں آگئی ۔ انجلینا جولی جنہوں نے پاکستان میں فوٹو سیشن اور میڈیا میں آنے سے انتہائی گریز کیا اپنی رپورٹ میں لکھتی ہے کہ انہیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ اعلیٰ حکام اور بااثر شخصیات ان سے ملنے کے لئے قطاروں میں کھڑے ہو کر متاثرین کو پیچھے دھکیلتی رہے ۔ ہر کسی کی یہی خواہش تھی کہ وہ مجھ سے ملے ۔ انہیں یہ دیکھ کر نہایت تکلیف ہوئی جب وزیراعظم نے ان سے خواہش ظاہر کی کہ ان کے اہل خانہ ہالی ووڈ کی نمبر ون ادکارہ سے ملنے کے لئے بے چین ہیں ۔ ان کی فیملی مجھ سے ملنے کے لئے ان کے آبائی شہر ملتان سے خصوصی طور پر ایک طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچی اور مجھے بیش قیمت تحائف دئیے۔ وزیراعظم اور ان کی فیملی نے مجھے انواع و اقسام کے کھانے کی دعوت بھی دی۔ انجلیناجولی لکھتی ہیں کہ میرے لئے وہ انتہائی افسوس اور دکھ کا موقع تھا جب میز پر طرح طرح کے کھانوں کی بھرمار تھی۔ وہ کھانے ان سینکڑوں لوگوں کے لئے کافی تھے جو محض ایک آٹے کے تھیلے اور پانی کی چھوٹی سی بوتل کے لئے ایک دوسرے کو دھکے دے کر اس تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ ایک طرف ملک میں بھوک اور افلاس ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم ہائوس اور کئی دیگر سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت اور سج دھج دیکھ کر حکمرانوں کی عیاشی مغرب کو بھی حیران کر دینے کے لئے کافی ہے ۔
انجلینا جولی نے اپنی رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان پر زور دیا جائے کہ اقوامِ عالم سے امداد مانگنے سے پہلے عیاشیاں ختم اور اخراجات کم کرے ‘‘ چلتے چلتے ایک اور بات۔۔۔ ایک سوئس بینک ڈائریکٹر کا کہناہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے 98 ارب ڈالر سوئس بینکوںمیں پڑے ہوئے ہیں یہ رقم پاکستان میں انوسٹ کردی جائے تو30سال کیلئے پاکستان ٹیکس فری بجٹ پیش کر سکتاہے۔6کروڑ پاکستانیوںکیلئے روزگار،ملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔500سے زیادہ پاور پراجیکٹ کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جا سکتی ہے، کراچی ، پشاور سمیت ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چاررویہ سڑکوں پر مشتمل نئی ہائی وے بنائی جا سکتی ہے یا ہر پاکستانی کو چار سال تک20000روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ یہ کچھ بتانے کا مقصد فقط یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمارے دلوں سے احساس ِ زیاں جاتارہاہے جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی آپ دل پر ہاتھ رکھ کر ذرا خودسے سوال کریں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔