نواز لیگ والے ٹھنڈا پانی پئیں، لمبے لمبے سانس لیں، حوصلہ رکھیں، بلاول بھٹو
شیئر کریں
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنانا ہماری جماعت کا حق تھا۔بی بی شہید قتل کیس میں اعظم نذیرتارڑ وکیل تھا، میں کیسے انکی حمایت کرتا؟۔ مسلم لیگ( ن) کے دوستوں سے درخواست ہے ذرا سا پانی پی لیں، حوصلہ رکھیں۔مسلم لیگ (ن) سے بالکل توقع نہیں تھی کہ سینیٹ میں امیدوارکی ہار کے بعد خان صاحب جیسا ردعمل دے گی ۔ سلیکٹڈ کا لفظ میں نے دیا تھا اور میں جانتا ہوں اس کا استعمال کس پر بنتا ہے اور کس پر نہیں۔الزامات کاجواب دیناپسندنہیں کروں گا،پی ڈی ایم کونقصان نہیں پہنچاناچاہتا۔ اسٹیٹ بینک سے متعلق مجوزہ آرڈیننس خودمختاری چھیننے کے مترادف ہے۔ مطالبہ کرتے ہیں ندیم بابر کی طرح بشمول وزیراعظم تمام وزرا کو ہٹایا جائے۔پنجاب کو ایک کٹھ پتلی کے رحم و کرم پر چھوڑا نہیں جاسکتا۔ پنجاب حکومت پر پہلا حق حمزہ شہباز کا ہے، لیکن اگر اسے وزیراعلیٰ نہیں بنانا تو چودھری برادارن سے بھی بات کرنا ہوگی۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے ہفتہ کو بلاول ہاؤس میڈیا سیل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔چیئرمین سینیٹ کیخلاف ہماری جدوجہدجاری ہے۔پولنگ ڈے پرسینیٹ ہاؤس کو پولیس اسٹیشن میں تبدیل کردیا گیا اورپریزائڈنگ افسر نے غلط فیصلہ دے کریوسف رضاگیلانی کا حق چھینا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پراسلام آباد ہائیکورٹ میں نظرثانی درخواست دائرکرنے کافیصلہ کیا ہے۔جب عدالت میرٹ پر کیس سنے گی توجیت ہماری ہوگی۔پی ڈی ایم سے متعلق بلاول بھٹو نے کہا کہ مریم نوازکے الزامات کاجواب نہیں دوں گا، مریم نواز سمیت دیگر لوگ پیپلزپارٹی کے خلاف بیان بازی کررہے ہیں، ن لیگ کے رہنماؤں کا احترام کرتا ہوں، مریم نواز کی عزت کرتا ہوں۔ اگر ہم ایک دوسرے پر تنقید کریں گے تو فائدہ حکومت کو ہوگا۔ اگر استعفے سے حکومت کو نقصان پہنچتا تو آج ہی دے دیتے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ جب مریم نواز کو گرفتار کیا گیا تو سب سے پہلے میں نے آواز اٹھائی۔ ن لیگ والے غور کریں کہ انہیں پیپلز پارٹی سے لڑنے کا مشورہ کون دے رہا ہے۔ ہم مضبوط اس وقت ہوںگے جب ملکر لڑیں گے۔ شاید دیگر جماعتوں کا موقف ہو کہ حکومت مدت پوری کرے لیکن ہمارا نہیں۔ ہم موجودہ حکومت کومزیدایک دن برداشت نہیں کرسکتے۔انہوںنے کہا کہ پی ڈی ایم کونقصان نہیں پہنچاناچاہتا ہوں۔ پی ڈی ایم کی بنیاد میں نے رکھی ہے اورچاہتاہوں کہ پی ڈی ایم برقراررہے۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے وضاحت کی کہ سلیکٹڈ کا لفظ میں نے دیا تھا اورجانتاہوں کہ کس کیلیے استعمال ہوسکتا ہے اور کس کیلئے نہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ن لیگ کے ساتھیوں کو کہوں گا کہ ٹھنڈا پانی پییں اورلمبے سانس لیں۔پیپلزپارٹی سے جھگڑا کرنے کا کون انہیں غلط مشورے دے رہاہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی نے محنت اور مشکل وقت کے بعد دوبارہ عملی سیاست میں قدم رکھا۔ اپنے سینیٹر کو کیسے کہتے کہ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ نہ دیں بلکہ اعظم نذیر تارڑ کوووٹ دیں؟۔ پی پی21،اے این پی2،فاٹا2،جماعت اسلامی کاایک رکن ملاتے تو26تعداد بنتی تھی اور دونوں جماعتوں کے ارکان کی تعداد 26،26 ہورہی تھی۔ ن لیگ کے سابق رکن دلاور نے اپوزیشن لیڈر کیلئے سپورٹ کیا۔بی بی شہید قتل کیس میں اعظم نذیرتارڑ وکیل تھا، میں کیسے انکی حمایت کرتا؟اس حوالے سے مسلم لیگ (ن)رابطہ کرتی تو شاید کوئی اتفاق رائے ہوجاتا ۔انہوں نے کہا کہ بی اے پی کے سینیٹرز اپوزیشن بینچز پر بیٹھ رہے ہیں اور انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ یوسف رضا گیلانی کو ہدایت کی ہے کہ تمام جماعتوں کے ساتھ مل کرکام کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پنجاب میں بلا مقابلہ سینٹ کے الیکشن پر اعتراض نہیں کیا۔ یوسف رضا گیلانی کا سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بننا جمہوریت کی جیت ہے۔پنجاب سے متعلق بلاول بھٹو نے کہا کہ عدم اعتماد اورپارلیمانی آپشنز استعمال کریں گے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلیے نون لیگ کا حق ہے۔ قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز ہیں اور ان کا حق بنتا تھا اوربنتا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ بنیں۔ تاہم اگر حمزہ شہباز وزیراعلی نہ بننا چاہیں تو اس صورت میں مسلم لیگ (ق) اور دیگر جماعتوں سے بات کرنا ہوگی تاکہ ووٹ کواکھٹا کیا جاسکے۔بلاول بھٹو نے اس حوالے سے مزید کہا کہ پنجاب کواس کٹھ پتلی حکومت سے بچاسکتے ہیں۔عثمان بزدارکٹھ پتلی ہیں اور آج تک پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن نے100 سے زائد ووٹ رکھتے ہوئے بھی ایک بار بھی کوئی تکلیف نہیں پہنچائی اور ان کا ایک بجٹ بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کئی بار کہہ چکی ہے کہ عمران خان کے ہاتھوں سے پنجاب چھینیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ کسی کواگر مسلم لیگ (ق) سے اختلاف تھا تو پیپلزپارٹی کو بتایا جاتا۔جب بھی پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی بات کی تو شہبازشریف اور حمزہ شریف سے مثبت جواب ملا۔انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر پی ڈی ایم استعفوں کا فیصلہ کررہی ہے تو ضرور اس بات کا مدنظر رکھنا چاہئے کہ عدم اعتماد کی کوشش کرے اور بڑی اہم ذمہ داری سے منہ نے موڑے۔ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی چاہئے۔معاشی معاملات پر بلاول بھٹو نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کا آرڈیننس ملکی خود مختاری پرحملہ ہے۔ حکومت کوفوراً اس آرڈیننس کو واپس لینا چاہیے۔ غیرقانونی آرڈیننس کو ہرفورم پر چیلنج کریں گے۔حکومت میں وہ اہلیت نہیں کہ آئی ایم ایف کے سامنے صحیح فیصلے کرے، تاریخی ناکامی ہے کہ شرح نمو جنگ زدہ افغانستان اور بنگلا دیش سے بھی کم ہے۔ حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہرپاکستانی کی جیپ پرڈاکہ ہواہے۔ پیٹرول بحران کرکے پاکستان کوتاریخی نقصان پہنچایاگیا اورصرف ایک وزیرکی قربانی سے کچھ نہیں ہوگا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک میں کورونا کی تیسری لہر جاری ہے، پنجاب میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی ایس او پیز کے ساتھ ضلعی سطح پر منائیں گے۔کورونا کیسز میں اضافہ سندھ میں بھی ہوسکتا ہے، ویکسین کے حوالے سے دیگر ممالک کی نسبت ہماری کارکردگی خراب ہے۔ وفاقی حکومت صوبو ں کو ویکسین فراہم کر کے ریلیف دے۔انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی بڑے اجتماع کی صورت میں نہیں منائیں گے، گڑھی خدا بخش میں جلسہ نہیں ہوگا،4اپریل کو صرف قران خوانی ہوگی۔5 اپریل کو پی پی کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کا اجلاس ہوگا جس میں پی ڈی ایم کے حوالے سے فیصلے کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کو للکارتے رہیں گے