میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فاروق ستار کا غیر لچکدار رویہ ایم کیو ایم کو مہنگا پڑا

فاروق ستار کا غیر لچکدار رویہ ایم کیو ایم کو مہنگا پڑا

منتظم
بدھ, ۲۸ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

چلئے فاروق ستار یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی قیادت کھو دی، حق دوستی تو ادا کر دیا اور وہ کامران ٹیسوری کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فاروق ستار کی کنوینر شپ بھی گئی اور کامران ٹیسوری کا سینیٹر بننے کا خواب تو پہلے ہی بکھر کر رہ گیا تھا۔ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کا بحران جس مقام پر پہنچ چکا ہے، اس کا آغاز بھی اس وقت ہوا تھا جب کامران ٹیسوری کا نام سینیٹ کے امیدواروں کی فہرست میں سامنے آیا، کامران ٹیسوری پارٹی کے کوئی پرانے کارکن نہیں تھے بلکہ ایک لحاظ سے اجنبی تھے۔ ایم کیو ایم میں اپنی انٹری سے پہلے وہ مسلم لیگ (ف) میں تھے، پھر وہاں سے رخصت ہوکر ایم کیو ایم میں آگئے اور جلد ہی سینیٹ کے ٹکٹ کے مستحق ٹھہرے، وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر فاروق ستار پارٹی کے لیے ان کی خدمات سے خوش اور متاثر تھے، البتہ بعض لوگ ایسے تھے جن کے نزدیک ٹیسوری کی یہ خدمات زیادہ نمایاں نہ تھیں، جو فاروق ستار کو تو نظر آتی تھیں، ٹیسوری کے مخالفین کو نہیں۔

چنانچہ رابطہ کمیٹی نے ان کی رکنیت معطل کر دی اور سینیٹ کا ٹکٹ دینے سے بھی انکار کر دیا، لیکن ڈاکٹر فاروق ستار ڈٹ گئے۔ انہوں نے جواب میں پوری رابطہ کمیٹی ہی معطل کر دی۔ پھر معطلیوں اور بحالیوں کے اس کھیل میں بات بڑھتی چلی گئی، کبھی فاروق ستار معطل تو کبھی رابطہ کمیٹی، نتیجے کے طور پر باقاعدہ دو گروپ بن گئے۔ ایک بہادر آباد گروپ کہلایا تو دوسرا پی آئی بی کالونی۔ درمیان میں اختلافات رفع کرنے کی کوششیں تو بہت ہوئیں، لیکن بھائیوں اور باجیوں کے لیے باہمی احترام کے جذب فراواں کے باوجود سیاسی اختلافات دور نہ ہوسکے رابطہ کمیٹی نے خالد مقبول صدیقی کو کنوینر بنادیا تو ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے حامیوں کو بلا کر پارٹی انتخابات کروائے۔ اس کے باوجود یہ گنجائش تو موجود تھی کہ اختلافات کا دائرہ کسی نہ کسی طرح محدود کیا جاتا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ زبانی کلامی دعوے تو ہوئے بلکہ اب تک ہو رہے ہیں، لیکن کامران ٹیسوری کی نامزدگی سے جو بحران شروع ہوا تھا، اس کا نتیجہ اس صورت میں نکلا کہ اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پر جو پارٹی اپنے چار سینیٹر منتخب کراسکتی تھی، اسے صرف ایک پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔

بیرسٹر فروغ نسیم کے سوا کوئی منتخب نہ ہوسکا۔ عین ممکن ہے اگلے کنوینر بھی وہی بن جائیں، فوری نہ سہی، کچھ عرصے کے بعد ہی سہی۔ کئی لوگ پارٹی چھوڑ کر پیپلز پارٹی کو پیارے ہوگئے اور خالص منافع کی شکل میں پیپلز پارٹی نے سینیٹ کی تین نشستیں حاصل کرلیں۔ یہی منافع بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچا کہ پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے تعاون سے چیئرمین بھی اپنا منتخب کرا لیا اور ڈپٹی چیئرمین بھی۔ ڈاکٹر فاروق ستار جس کامران ٹیسوری کی محبت میں پوری رابطہ کمیٹی توڑ بیٹھے تھے، ان کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔ وہ نہ تو سینیٹر بن سکے اور نہ ہی پارٹی کے اتحاد میں کوئی کردار ادا کرسکے اور اب حالت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے وہ انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے دئیے ہیں، جس کے نتیجے میں ڈاکٹر فاروق ستار اپنی معطلی کے بعد دوبارہ پارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے خلاف فیصلہ آیا تو انہوں نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اسے جسٹس منیر کے فیصلے کے مماثل قرار دیا، جنہوں نے مولوی تمیز الدین کیس میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا۔

فاروق ستار نے اس فیصلے کو ’’سیاہ فیصلہ‘‘ قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس فیصلے کا مقصد مائنس ون نہیں، مائنس ایم کیو ایم ہے۔ الیکشن کمیشن نے باقی سب کو عدالت بھیجا، ہمیں گھر بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ویسے اب فاروق ستار کے پاس اس فیصلے کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ البتہ بہادر آباد کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام اب بھی یہی آیا ہے کہ مل بیٹھ کر معاملات طے کرلیتے ہیں۔ اب معلوم نہیں اس خیر سگالی کے پیغام میں سیاست کتنی ہے اور خلوص کتنا۔ کیونکہ یہ بات تو دونوں جانب سے پہلے ہی بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے بیٹھ کر فیصلہ کرلیتے ہیں، لیکن جب بیٹھنے کی نوبت آتی ہے تو اٹھنے تک اختلافات پہلے سے بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کامران ٹیسوری کے معاملے پر ڈاکٹر فاروق ستار غیر لچکدار رویہ اختیار نہ کرتے اور انہیں ہر حالت میں سینیٹ کے لیے پارٹی ٹکٹ پر اصرار نہ کرتے تو شاید اختلافات زیادہ وسیع نہ ہوتے یعنی جب رابطہ کمیٹی نے انہیں ٹکٹ دینے کی مخالفت کی تھی تو فاروق ستار اس معاملے کو آگے بڑھنے سے روک بھی سکتے تھے۔ اب بھی توکامران ٹیسوری سینیٹر منتخب نہیں ہوسکے۔ اس صورت میں بھی یہی کچھ ہوتا۔ البتہ اس سارے کھیل میں ان ارکان اسمبلی نے بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھوئے جو پیپلز پارٹی کے سینیٹر منتخب کرانے کا وسیلہ بنے۔

ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب فاروق ستار نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا تھا کہ بہادر آباد والے مانیں یا نہ مانیں لیکن وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ہر صورت قبول کریں گے، وہ خلاف آئے یا حق میں۔ لیکن اب انہوں نے غصے اور اشتعال کی حالت میں یہ فیصلہ مسترد کر دیا ہے اور اسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ ویسے تو الیکشن کمیشن کے ہر فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور موجودہ فیصلے کو بھی کیا جائے گا، لیکن آج انہوں نے 9 نومبر کی پریس کانفرنس کا جو حوالہ دیا، وہ بہت معنی خیز ہے، اس پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا ’’نومور انجینئرنگ‘‘ ان کا اشارہ اس توڑ پھوڑ کی طرف تھا جو ایم کیو ایم میں کی جا رہی تھی، لیکن سوال یہ ہے کہ توڑ پھوڑ کا جو سلسلہ جاری ہے وہ کہاں جا کر رکے گا؟ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں ایم کیو ایم پاکستان نے صادق سنجرانی کو ووٹ دیا تھا۔ البتہ جب ڈپٹی چیئرمین کے لیے ووٹنگ کا معاملہ آیا تو ان کے ارکان غیر حاضر ہوگئے۔ کیا ’’انجینئرنگ‘‘ ایسے ہی مقاصد کے لیے کی جا رہی تھی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں