میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
میاں جی کااعتراف‘بہادرآبادکی جیت اورباباجی چھتری

میاں جی کااعتراف‘بہادرآبادکی جیت اورباباجی چھتری

منتظم
بدھ, ۲۸ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

لوجی میاں جی نے اعتراف کرلی ہی لیا کہ مجھے زرداری کے خلاف میموگیٹ کاحصہ نہیں بننا چاہیے تھا‘انھوں نے یہ بھی کہاکہ نیب کاقانون پرویزمشرف نے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت بنایااسے 2002میں ہمارے ہی خلاف استعمال کیاگیااب بھی ایساہی لگتا ہے ۔میا ں جی کااعتراف اپنی جگہ ‘لیکن ابھی توابتداء ہوئی ہے، ہوسکتا ہے انھیں اوربھی بہت سے ایسے اقدامات یادآجائیں جوانھیں نہیں کرنے چاہیے تھے ۔ جہاں تک تعلق ہے قومی احتساب بیوروکاتواس سے بھلا کون واقف نہیں کہ سیاستدانوں کے احتساب کے لیے نیب کی تشکیل خودمیاں نوازشریف نے اپنے دورمیں کی اورسیف الرحمان کواس کاسربراہ بنایا۔جنھوں نے کسی کے اشارے پرایسے ڈنڈے چلائے کہ مخالفین کونانی یاددلادی ۔ اس بات سے بھی ساری قوم واقف ہے کہ اس دورمیں میاں جی کے حریف پیپلزپارٹی والے ہی زیادہ تھے۔کیوں دیگرجماعتوں کوتوانھوں نے اپنے گلے کاہاربنارکھاتھا۔ دیگررہنمائوں کی بات توچھوڑیں سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیربھٹوخود اس بے رحمانہ احتساب کاشکاررہیں ۔اوران کے شوہرنامدارآصف علی زرداری نے زندگی کاکافی عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا۔ اس وقت اوراس کے بعد بھی جب تک ن لیگ والے احتساب کی زدمیں نہ آئے نیب اچھارہااب یکایک براہوگیا۔ایساکیوں ہوایہ بتانے کی اب چنداں ضرورت نہیں ۔

بتانے کی ضرورت تواب کسی کویہ بھی نہیں کہ ایم کیوایم پاکستان کی آسمان پربلندپتنگ کنوں سے کٹ کرچرخی سمیت ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی کی جھولی میں آگری ہے ۔اورفاروق ستارصاحب ہاتھ ملتے ہی رہ گئے ہیں ۔لوگوں نے بہت سمجھایا۔میڈیانے مشورے دیئے ۔کالم نگاروں نے اخبارات کے صفحات سیاہ کیے لیکن نہیں ۔نہ بہادرآبادوالے مانے نہ پی آئی بی والے ،کارکنوں نے زورلگایا۔رہنمائوں نے ہوش دلایا۔ ہمدردوں نے شورمچایاپرمجال ہے جودونوں جانب سے کوئی ایک بھی ٹس سے مس ہواہو۔بہادرآبادوالے توپھربھی پی آئی بی کے چکرلگاتے دیکھے گئے ۔ پی آئی بی والوں نے بہادرآبادجانا تودوراس طرف دیکھنابھی گواراکیا۔سینیٹ الیکشن ہارا‘جگ ہنسائی ہوئی ۔خواتین اراکین اسمبلی نے پیپلزپارٹی کے امیدواروں کوووٹ دیئے ۔پھربھی کان پرجوں تک نہ رینگی ۔الزامات درالزامات کاسلسلہ جاری رہااوراب بھی ہے ۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے فاروق ستارایک جانب کردیئے گئے خالدمقبول اینڈکمپنی اگریہ کہاجائے توغلط نہ ہوگا کہ عامرخان اینڈکمپنی کی جیت ہوئی ۔ بہادرآبادمیں جشن ہوابلکہ ہورہاہے لیکن کسی ایک رہنماکویہ فکرنہیں کہ مہاجرووٹرزکاکیاہوگا۔چلیں تعصب کی نگری سے نکل کربولتے ہیں کہ کراچی کی سب سے بڑی آبادی کامستقبل کیاہوگا۔ وہ آئندہ کس کوووٹ دیں گے ۔ مہاجروں کے نام پرسیات کرنے والا‘قومی اسمبلی ‘سینیٹ اورصوبائی اسمبلی کے ایوانوں میں موجود اوران کوہاں تک پہنچانے والا کوئی رہنما یہ نہیں سوچ رہاکہ جن لوگوں نے انھیں یہ عزت دی ‘ووٹ دیکرایوانوں تک پہنچایا، آپس کی لڑائی چھورکران کے مسائل حل کیے جائیں۔ ایم کیوایم کاشیرازہ بکھرنے کے بعد ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں کراچی کے ووٹ پرنظریں جمائے ہوئے ہیں ۔انھیں موقع کی تلاش ہے اوریہ موقع کوئی اورنہیں خودایم کیوایم والے ہی انھیں دے رہے ہیں ۔

موقع توخیرپیپلزپارٹی والوں کوبھی مل گیاہے کہ وہ ایک بارپھرنوازشریف سے معافی کامطالبہ کردیں اسی لیے تومولابخش چانڈیومیاں جی کے تازہ ترین بیان کے بعدانھیں کسی صور ت بخشنے کوتیارنہیں ہیں ۔ اورانھوں نے کہہ دیاہے کہ نوازشریف جتنے بھولے بنتے ہیں اتنے ہیں نہیں ۔میموگیٹ کے حوالے ادھورااعتراف کرکے وہ قوم کودھوکہ نہیں دے سکتے معافی مانگنی ہی پڑے گی ۔انھوں نے یہ بھی کہاہے کہ اب ہم ان کی چکنی چپڑی باتوں میں نہیں آئیں گے ۔ویسے تومولابخش صاحب خودمن مولاہیں، پرہمارامشورہ ہے کہ انھیں اوران کی جماعت کواب کسی کی چکنی چپڑی باتوں میں آنابھی نہیں چاہیے ۔ کیوں کہ میاں کی عدلیہ مخالف مہم کافائدہ اٹھاکرجوکھیل مفاہمت کے شہنشا ہ نے کھیلا وہ کسی سے ڈھکاچھپانہیں ۔ بلوچستان حکومت بدلی سوبدلی کمال مہارت سے اپناچیئرمین اورڈپٹی چیئرمین ہی نہیں اپوزیشن لیڈربھی منتخب کرالیا۔نوازشریف اوران کے حلیف ہی نہیں عمران خان سمیت تمام اپوزیشن لیڈربھی منہ دیکھتے رہ گئے ۔

منہ تو خیر صحافی بھی دیکھتے رہ گئے مولانا عبدالغفور حیدری کا،جب انھوں نے دوران پریس کانفرنس کہاکہ سینیٹ الیکشن میں مولوی بکانہ جھکانواب، سردار‘خان اوران کے بچے بک گئے ۔ان کی اس بات میں کس قدرسچائی یہ تووہ جانیں اورمولو ٰی صاحبان لیکن اڑتی اڑتی خبرضرورآئی ہے کہ ن لیگ والوں نے دبے لفظوں میں جمعیت علمائے اسلام کے اراکین سینیٹ پرصادق سنجرانی اورسلیم مانڈوی والاکوووٹ دینے یاکچھ اراکین کے ووٹ دینے کاالزام عائدکیاہے۔اب یہ فیصلہ کرناعوام کاکام ہے کہ عبدالغفورحیدری صاحب کی بات میں وزن ہے یان لیگ کے رہنمائوں کے الزامات میں صداقت ،ہم توصرف خاموشائی رہنے میں عافیت جانتے ہیں ۔ویسے بھی اب ایم ایم ا ے بحال ہوچکی ہے مولانا فضل الرحمن صاحب کو سربراہی ملی ہے تولیاقت بلوچ کوبھی سیکرٹر ی جنرل کا عہدہ مل چکاہے اس لیے تمام سیاسی مولانا حضرات ایک چھتری تلے جمع ہیں ۔ اس لیے اب فیصلہ کرنے میں زیادہ آسانی ہوگی کہ مولوی بکتا ہے یاجھکتا ہے ۔ہماری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں ۔کیوں کہ ایک بارپھرمذہبی رجحان کے حامل افرادکوآئندہ کی قیادت کے انتخابات کے لیے ایک پلیٹ فارم میسرآگیاہے ۔ پلیٹ فارم مذہبی رجحان رکھنے والے ووٹرزکومیسرآیاہے توکئی مذہبی جماعتوں کے سربراہوں کوایم ایم اے کے تحت سیاسی چھتری بھی مل چکی ہے ۔اب یہ چھتری کب تک سایہ فگن رہے گی یہ آنے والاوقت ہی بتائے گا۔

چھتر ی پریادآیاملتان والے بزرگ سیاستدان جب سے پی ٹی آئی کی ٹولی سے الگ ہوئے ہیں انھیں کوئی سیاسی چھتری میسرنہیں آرہی پیپلزپارٹی والے توکبھی انھیں قبول نہیں کریں گے ۔ تحریک انصاف میں بھی وہ دروازے اپنے لیے سختی سے بندکرواچکے ۔ ایم ایم اے میں شمولیت کاامکان اس لیے نہیں بنتا کہ اس کے لیے کم ازکم مولوی ہوناشرط ہے ۔ لے دے کے ان کی سابق چھتر ی ن لیگ ہی رہ گئی ہے جس سے بڑے جوش کے ساتھ اڑکرپی ٹی آئی کی چھتری پرجاکے بیٹھے تھے اسی لیے توسرتوڑکوششوں کے باوجودوہ ابھی تک اپنی سابق پارٹی میں واپس نہیں جاسکے ویسے ابھی اس کاامکان بھی نظرنہیں آتالیکن سیاست میں سب ممکن ہے اور امید پر دنیا قائم۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں