سینیٹ کاچیئرمین تبدیل کرنے کی خواہش
شیئر کریں
سینیٹ کے انتخابات میں خود اپنے ہی ساتھیوں کی بے وفائی کی وجہ سے منہ کی کھانے کے بعد حکمراں مسلم لیگی ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں،انھیں اپنی یہ شکست کسی طرح ہضم نہیں ہورہی اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ جاگتے میں خواب دیکھ رہے ہیں، سینیٹ کے انتخابات میں شکست کے بعد حکمراں مسلم لیگ کے رہنمائوں کی دماغی حالت کا اندازہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے اس بیان سے لگایا جاسکتاہے جس میں انھوں نے الزام لگایاہے کہ چیئرمین سینیٹ نوٹو ںسے آیا ہے۔ چیئرمین کی کوئی عزت نہیں، اسے ووٹ خرید کر چیئرمین بنایاگیا ہے۔ یہ شخص سینیٹ کے لیے بھی بے عزتی کا باعث بنے گا۔ ہم نیا چیئرمین لائیں گے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اس بیان سے مسلم لیگی رہنمائوں کے دل پر لگنے والی چوٹ کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے تاہم سوال یہ ہے کہ کیا نوٹوں کے ذریعے لایا جانے والا شخص ادارے کے لیے بے عزتی کا باعث ہوتا ہے۔ اگر چیئرمین کے لیے یہ فارمولہ ہے تو اسمبلی کے لیے کیا ہوگا۔ کابینہ کے لیے بھی یہی ہونا چاہیے۔ مشیروں اورکمیٹیوں کے لیے بھی یہی فارمولا ہونا چاہیے۔ وزیراعظم کی یہ بات تو سو فی صد درست ہے کہ جس ادارے کے چیئرمین کو ووٹ خرید کر لایاگیا ہو اس کی کیا عزت ہوگی۔ مگر وزیراعظم یہ بھی تو بتائیں کہ ان کے کتنے سینیٹرز خرید کر لائے گئے ہیں اورخود ان کی پارٹی کے ارکان اسمبلی نے اپنی کیاقیمت لگائی تھی اورکیاقیمت وصول کی، وہ یہ بھی بتائیں کہ چوہدری سرور کو ملنے والے ووٹوںمیں خود ان کے ساتھیوں یعنی مسلم لیگی ارکان اسمبلی کے کتنے ووٹ شامل تھے اوروہ کس قیمت پر بکے تھے۔ وزیراعظم کویہ بھی بتانا چاہئے کہ کیا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں نوٹ نہیں لگتے کیا وہ قومی اسمبلی کے رکن کوئی پیسہ خرچ کیے بغیر منتخب ہوگئے تھے،کیا شاہد خاقان عباسی اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بلدیاتی کونسلرز کی نشست پر ٹکٹ کے حصول کے لیے بھی نوٹ وصول کیے جاتے ہیں۔ المیہ یہی ہے کہ ہمارے ملک میں معمولی سطح سے لے کر وزیراعظم، چیئرمین اور دیگر اعلیٰ عہدوں کے لیے بھی نوٹ خرچ کرنا پڑ تے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی پوری سیاست نوٹوں کا کھیل بن چکی ہے۔ پوری اسمبلی میں یہی ہوتا ہے۔ لوگ اپنی پارٹی کی قیادت کے سامنے روپوں کا ڈھیر لگاتے ہیں۔ جیتنے والا حلقہ اپنے لیے لینا چاہتے ہیں پارٹیوں میں اس امر پر جھگڑے ہوتے ہیں، کبھی کوئی آزاد کھڑا ہوجاتا ہے پھر جیت کر ووٹ یا سیٹ اس پارٹی کے سربراہ کے قدموں میں ڈھیر کردیتا ہے اور پھر اس کے عوض وزارت یا مراعات طلب کرتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے وزارت اور مراعات مل بھی جاتی ہیں۔ یہ سارا نوٹوں ہی کا کھیل ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ان کے سیاسی اتالیق نواز شریف اور بزعم خود خادم پنجاب شہباز شریف کو چیئرمین سینیٹ کا معاملہ اس لیے برا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے نمائندے کو نہ صرف یہ کہ کامیابی نہیں ملی بلکہ سینیٹ سے مسلم لیگ ن کاصفایاہوگیا جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی قیادت کا پورا منصوبہ خاک میں مل گیا ، کیونکہ اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکمت عملی یہ تھی کہ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد وہ قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئین میں من مانی ترامیم کراکے سینیٹ سے اس کی منظوری حاصل کرکے عدالتی فیصلوں کو پیروں تلے مسل کر رکھ دیں گے، اس مقصد کی تکمیل کے لیے مسلم لیگ ن کے لیے بلاشبہ راجا ظفر الحق ہر اعتبار سے مناسب شخصیت تھے۔ لیکن خود اپنے ارکان اسمبلی کی بے وفائی نے ان کاپورا کھیل بگاڑ کررکھ دیا،یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگی اکابرین اب انگاروں پر لوٹ رہے ہیں، جہاںتک نوٹوں کے کاروبار کا تعلق ہے تو یہ کاروبار یکطرفہ نہیں ہے ،کیا وزیراعظم خدا کوحاضر ناضر جان کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی پارٹی نے سینیٹ میں اپنے نامزد امیدوار کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ارکان اسمبلی کو کسی طرح کی لالچ نہیں دی، نوٹوں کے بریف کیس تو مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی پرانی شناخت ہیں،کبھی نوٹوں سے بھرے یہ بریف کیس نواز شریف کی مقرب خاص تارڑ لے کر رات کے اندھیرے میں کوئٹہ پہنچتے تھے اب اگر آج کسی اور نے زیادہ نوٹ کامیابی سے لگادیے اور سنجرانی جیت گئے تو پھر غم کاہے کاہے، جہاں تک وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اس بیان کاتعلق ہے کہ وہ سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹا کر نیاچیئرمین لائیں گے تو کیا وزیراعظم صاحب اس بات کی وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے کہ ایک منتخب چیئر مین کو ہٹانے اور اپنا چیئرمین لانے کے لیے وہ کون سا حربہ اختیار کریں گے جو سینیٹ کے انتخاب کے وقت وہ نہیں آزما سکے تھے، سینیٹ کے موجودہ چیئرمین کو ہٹانے کا ایک ہی آئینی راستہ ہے اور وہ ہے ان کی خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا لیکن کیا بغیر نوٹ خرچ کیے مسلم لیگ ن کے عمائدین موجودہ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے اور اس کے بعد اپنا چیئرمین بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو وہ سینیٹ میں انتخابات کے وقت ہی ایسا کرچکے ہوتے۔ جب سینیٹ کے انتخابات کے لیے نامزدگیاں ہورہی تھیں اس وقت امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے توجہ دلائی تھی کہ سینیٹ کے الیکشن میں نوٹوں کا کاروبار ہورہاہے۔ چمک دکھائی جارہی ہے۔ اس گنگا میں سب نے نہایا ہے۔ کیا مسلم لیگ کیا پیپلزپارٹی، اے این پی اور تحریک انصاف وغیرہ سب کے ارکان اسمبلی نے خوب مال کمایا ہے۔ پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی نے علی الاعلان اعتراف کیا کہ میں نے تو کسی اور کو ووٹ دیا اس الیکشن میں تو مسلم لیگ، اے این پی، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سب تھے اورسب ہی نے الیکشن میں نوٹ چلنے کی شکایات کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سب پارٹیوں نے نوٹ خرچ کیے ہیں اور نوٹوں کے ذریعے اپنا آدمی منتخب کرانے کی کوشش کی ہے۔ سب سے بڑا ثبوت تو ارب پتی تاجر کے ایم کیو ایم کی سیٹ حاصل کرنے کی کوشش پر ہنگامہ تھا۔ جب ڈاکٹر فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو سینیٹ کی سیٹ کے لیے نامزد کیا تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ ایم کیو ایم دو دھڑوں میں پی آئی بی اور بہادر آباد میں تقسیم ہوگئی۔ ایسا کیوں ہوا؟۔ کیا کامران ٹیسوری علمی شخصیت تھے۔ ان کی خدمات کراچی کے لیے بہت زیادہ تھیں؟ انہوں نے کچھ بھی کیا ہوتا تو اس کا شور مچاکر آسمان سر پر اٹھالیا جاتا۔ حتیٰ کہ وہ یہ بھی نہیں بتاسکے کہ کامران ٹیسوری نے خدمت خلق کمیٹی کو کیا چندہ دیا۔ جو بھی نوٹ لگائے گئے وہ غیر مرئی تھے۔ خواہ بلوچستان میں لگے ہوں، متحدہ میں لگے ہوں یا پی ٹی آئی وغیرہ میں۔
وزیراعظم کے بیان سے تو ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ انتخابات کا اعلان ہونے سے قبل چیئرمین سینیٹ بدلنے کی کوشش کرے گی۔ اس کوشش کے لیے ظاہری بات ہے پھر نوٹ خرچ کرنا ہوں گے۔ سینیٹ کے الیکشن کے لیے نوٹ، چیئرمین کے انتخاب کے لیے نوٹ، اب دوبارہ انتخاب کے لیے نوٹ خرچ ہوں گے۔ یہ نوٹ کہاں سے آئیں گے؟اگر کوئی اپنی جیب سے دے گا تو وصول بھی کرے گا اور اگر سرکاری خزانے سے دے گا تو اس کا مطلب ہے عوام کے پیسوں پر سیاست کی جارہی ہے۔ اب عدالت عظمیٰ نے سرکاری اشتہارات میں سیاسی رہنماؤں کی تصاویر پر پابندی لگادی ہے اور ان سے اپنی جیبوں سے ادائیگی کے لیے کہا گیا ہے تو پھر سینیٹ کے لیے چیئرمین تبدیل کرنے کا بل بھی ان کی جیبوں سے وصول کیا جائے۔ وزیراعظم نے چیئرمین سینیٹ کے بارے میں کہاہے کہ صدر کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ صدر مملکت ہوتا ہے اس سے ظاہرہوتاہے کہ سارا مسئلہ اپنے چیئرمین کا ہے۔ کسی کو پاک صاف اور عوام کے ووٹوں سے منتخب چیئرمین کی ضرورت ہے نہ فکر۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس اگر نوٹ خرچ کیے بغیر اپنی مرضی کاچیئرمین سینیٹ لانے کاکوئی نسخہ کہیں سے آگیاہو تو انھیں اس نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے اور فوری طورپر اپنے دل میں دبے ہوئے ارمانوں کی تکمیل کے لیے سینیٹ کے چیئرمین کوتبدیل کرنے کی کوششوں کا آغاز کردینا چاہئے۔تاکہ پھر کہیں دیر نہ ہوجائے اور انھیں ایک دفعہ پھر ہاتھ ملنے پر مجبور ہونا پڑے۔