آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
شیئر کریں
شاعر یوں بھی خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے ہیں۔ جاوید اختر زیادہ بھٹک گئے، کچھ بہک بھی گئے۔ ایک نحوست بھری زندگی سے کنارہ کش ہونا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں، یہاں تک کہ اس کا ادراک بھی نہیں، مگر یہ شاعر ہوتے ہیں جو تتلی کے رنگوں ، بلبل کے نغموں اور سنگیت کے تاروں میں یہ ممکن کر دکھاتے ہیں۔ مکروفریب اور نفاق وفساد سے لبریز معاشرے کے اندر رہتے ہوئے اِسے خیرباد کہہ سکتے ہیں۔ افسوس! ہمیں تو ایسے شاعر بھی دستیاب نہیں ہوسکے۔ الفاظ سے عروسِ فطرت کی رعنائیوں کو کاڑھتے ہیں مگر کوئی لعنت وغلاظت ایسی نہیں جو وہ اپنی زندگی میں نہ رکھتے ہوں۔ اب بھارتی نغمہ نگار جاوید اختر کے متعلق کیا بات کی جائے؟ ایسے مرفوع القلم پر لکھنا گاہے خود کو خود سے قابلِ ملامت بنا دیتا ہے۔ مگر جاوید اختر کا معاملہ ہمارے معاشرے کے اندر جنمتے ایک ردِ عمل کی نشاندہی کرتا ہے جو شرمناک سناٹے اور پراسرار سکوت کی سنگین تہہ داریوں سے متعلق ہے ۔یہ معاملہ جاوید اختر کا نہیں اُن مقتدر حلقوں کے گریبانوں کا ہے، جس میں جھانکنے کا وقت آگیا۔
بھارتی نغمہ نگار فیض فیسٹیول میں نفرت کے منطقے میں رضاکارانہ شریک ہوتے ہوئے گویا ہوئے کہ ہم ممبئی کے لوگ ہیں ہم نے دیکھا ہمارے شہر پر کیسے حملہ ہوا ، وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے ، نہ مصر سے آئے تھے ۔ وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں”۔ یہ قیاس بھی کیا جا سکتا تھا کہ بھارتی نغمہ نگار کے کُنج لب سے یہ الفاظ کسی انجانے اُبال میں بے اختیار پھوٹ بہے ہوں، مگر ایسا نہیں۔ لاہور کے فیض فیسٹیول میں جاوید اختر نے سوال وجواب کا سیشن خود طلب کیا تھا، جو منتظمین کے نظام الاوقات کا حصہ نہیں تھا۔ جاوید اختر نے اُسی سیشن میں وہ بات کی جس سے اندازا ہوا کہ نفرت اور تعصب میں آدمی کہاں تک گر سکتا ہے، پھر وہ بھی شاعر، جس کی پستی حدوں سے گزر جائے!اغلب گمان یہی تھا کہ بھارتی نغمہ نگار نے طے شدہ پروگرام سے ہٹ کرجو سیشن طلب کیا تھا، اس میںیہ متنازع الفاظ پہلے سے طے کر رکھے ہوں گے۔ درحقیقت جاوید اختر نے بھارت جاکر حُسنِ ظن کی کوئی گنجائش بھی نہیں چھوڑی۔ جاوید اختر نے اپنے الفاظ کو درست سمجھتے ہوئے بھارت میں یہ موقف دُہرایا اور کہا : لاہور میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف بات کرنے پر انہیں کسی طرح کا خوف نہیں ہوا، کیوں کہ انہوں نے کوئی غلط بات نہیں کہی تھی”۔
بھارتی نغمہ نگار کے یہ متعصبانہ الفاظ بھارت کی فلم نگری کے اُن برائے نام مسلم اداکاروں کے مخصوص رویوں سے میل کھاتے ہیںجو انتہاپسند ہندؤں کو خوش رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً اختیا ر کیے جاتے ہیں۔ بھارت ایک ہندو راج میں مکمل تبدیل ہو چکا ہے۔ جہاں مودی سرکار نے اقلیتوں کے لیے زندگی کا واحد مطلب یہ چھوڑا ہے کہ وہ کسی قانونی تحفظ اور حقوق ِ شہریت پر اِصرار کیے بغیر ہندؤں کے رحم وکرم پر رہیں۔جاوید اختر ایک طفیلی زندگی گزارنے پر راضی ہیں جس میں ہندوؤں کو خوش کرنا ایک لازمی ضرور ت ہے۔چنانچہ جاوید اختر کے الفاظ پر ہندو انتہاپسندوں کا ردِ عمل قابل فہم ہے۔ یہی نہیں بھارتی نغمہ نگار کے انداز و تیور سے لگتا ہے کہ وہ یہ الفاظ ادا کرنے سے پہلے اس ردِ عمل کا پیشگی اندازا رکھتے ہوں گے۔انتہا پسند ہندؤں نے کہا کہ ”جاوید اختر نے گھر میں گھس کر مارا”۔اکثر انتہا پسندوں کے ردِ عمل میں اِسے پاکستان میں بیٹھ کرپاکستان پر” سرجیکل اسٹرائیک”قرار دیا گیا۔ یہ سب کچھ قابل فہم تھا۔ اصل سوال فیض فیسٹیول کی انتظامیہ اور وہاں موجود حاضرین وسامعین سے متعلق ہے۔ کیا لاہور میں الحمرا آرٹس کونسل کے اندر جاری تقریب میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا، جو آداب میزبانی کا لحاظ رکھتے ہوئے جاوید اختر سے یہ سوال کرتا کہ کیا کلبھوشن پاکستان میں ناروے سے آیا تھا؟بھارتی نغمہ نگار جاوید اختر تو فیض فیسٹیول کے انتظامیہ کی طرف سے مدعو کیے گئے تھے، مگر ابھینندن کو تو محترمہ منیزہ ہاشمی نے مدعو نہیں کیا تھا؟ وہ یہاں کیوں آیا؟ کیا اس مجمع میں ایک بھی باضمیر پاکستانی نہیں تھا جو یہ سوال کرتا کہ اس فیض فیسٹول کی تاریخوں (17تا 19فروری) کے درمیان میں ایک تاریخ 18 فروری بھی آتی ہے، اور اسی تاریخ کو بھارتی انتہا پسند ہندوؤں نے سمجھوتا ایکسپریس میںبیٹھے پاکستانیوں کو ریاستی سرپرستی میں نشانا بنایا جس میں 43پاکستانی شہید ہو گئے تھے۔ جاوید اختر جب فیض فیسٹیول منا رہے تھے تو اسی کے درمیان ان 43شہیدوں کے خاندان اپنے پیاروں کی سولہویں برسی منارہے تھے۔ جاوید اختر تب پاکستان میں تھے، جب بھارت سے یہ خبر آئی کہ سمجھوتا ایکسپریس کو نشانا بنانے والے انتہا پسند ہندوؤں کو بھارت کے نظام انصاف نے رہا کردیا۔ کیا جاوید اختر نہیں جانتے کہ بھارت کا پورا قانونی وعدالتی نظام مسلمانوں کے خلاف ہندو ؤں کاسرپرست بنا ہوا ہے؟ افسوس لاہور میں جاوید اختر سے یہ سوالات نہیں پوچھے جاسکے! اس سے بھی زیادہ افسوس اس امر کا ہے کہ جب جاوید اختر خلاف واقعہ یہ باتیں کررہے تھے تو الحمرا آرٹس کونسل میں موجود مجمع تالیاں بجا رہا تھا۔ کیا پاکستانیوںکا قومی شعور اس درجہ پست ہو چکا ہے؟یہ سوال ارباب بست وکشاد کی توجہ چاہتا ہے!پاکستان میںایسے حلقے موجود ہیں جو تجارتی قافلوں اور ثقافتی طائفوں کے تبادلوں سے دونوں ملکوں میں امن کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان حلقوں کی” تسلی” جاوید اختر کے ہونٹوں پر کِھلتے تکلم سے ہونی چاہئے جو پاکستان اور بھارت کی جنگ کو ثقافتی سطح پر بھی اُتار لائے ہیں۔
درحقیقت جاوید اختر کے الفاظ سے کہیں زیادہ دل دہلا دینے والا مسئلہ پاکستان کے اندر اس پر ردِ عمل کی سطح سے ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا نظریاتی حلقہ اور سنجیدہ طبقہ اس حوالے سے خاموش رہا۔ جاوید اختر کے خلاف ردِ عمل کچھ پاکستانی اداکاروں اور اداکاراؤں کی سطح سے اُبھرا ۔ جن میں سے اکثر کے ٹوئٹر ہینڈلز کو ”کوئی اور” حرکت دیتا ہے۔ اس طرح یہ ردِ عمل بھی کچھ زیادہ معنی خیز اور فطری نہیں رہ جاتا۔ پاکستان کے اندر نظریاتی گرمجوشی اور ردِ عمل کی دلسوزی و رعنائی تیزی سے ختم کیوں ہو رہی ہے؟ یہ جاوید اختر کی ہرزہ سرائی سے کہیں زیادہ پریشان کن سوال ہے۔ پاکستانیوں کی عظیم اکثریت کی یہ بیگانگی ہمارے پالیسی ساز حلقوں کی اُس روش سے پیدا ہوئی ہے جنہوں نے وقتی مفادات اور ارزل سیاست پر گرفت رکھنے کے لیے تمام نظریاتی مورچے پسپا ہونے دیے۔ نظریاتی سرحدوں کے فہم کو اپنی بدلتی ضرورتوں کی بھینٹ چڑھنے دیا۔ بااثر قوتوں اور مقتدر حلقوں نے اپنے نظریاتی دھاروںاورفکری سرچشموں کو بار بار بدلا۔نظر پھیری، نظریے چھوڑے، سر اور سرچشمے تبدیل کیے، یہ سب کچھ اتنی بار ہوا کہ پاکستان کے لیے حساسیت عوامی سطح پر بھی ختم ہونے لگی۔ اس خطرے کو بھانپنے کے بجائے گندے سیاسی کھیلوں پر گرفت رکھنے کا مذموم کاروبار ابھی تک ختم نہیں ہورہا۔ یہی سبب ہے کہ ایک بھارتی نغمہ نگار پاکستان کے قلب لاہور میں بیٹھ کر ہمارے قومی فہم کا مذاق اڑاتا ہے اور حاضرین تالیاں بجاتے ہیں۔ وہیں کہیں پاکستان کہہ رہا تھا ، مگر کسی نے سنا نہیں کہ
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
٭٭٭