گجرات مسلم کش فسادات،انصاف کب ملے گا؟
شیئر کریں
عبدالماجد قریشی
بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے بدترین مسلم کش فسادات کو 16 برس بیت گئے۔ بیسٹ بیکری سمیت مختلف دکانوں گھروں میں زندہ جلائے اور بیدردی سے قتل کیے گئے4ہزار سے زائد مسلمانوں کے ورثاء کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت میں انصاف نہ مل سکا۔
بھارتی ریاست گجرات کے شہر گودھرا میں فروری 2002ء کے مہینے میں جب آر ایس ایس کے تربیت یافتہ انتہا پسند ہندو ذہنیت کے حامل نریندر مودی وزیراعلیٰ، موجودہ صدر بی جے پی اور مودی کے دست راست امیت شاہ ریاست وزیر داخلہ تھے، کی مشترکہ زہریلی منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا جس پر عمل کرتے ہوئے شرپسندوں نے گوددھرا ریلوے ا سٹیشن پر رکنے والی سابرمتی ایکسپریس کی بوگی جلا ڈالی جس میں سوار 100 کے لگ بھگ ہندو یاتری جل کر مر گئے۔ اس واقعہ کو طے شدہ منصوبہ کے تحت بنیاد بناکر انتہا پسند ہندوئوں نے ریاست بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول بھڑکا دیا۔
مودی کی سرپرستی اور امیت شاہ کی نگرانی میں ہندو بلوائیوں اور غنڈوں کو لاٹھیوں، تلواروں اور دیگر خطرناک ہتھیاروں پٹرول اور ڈیزل سے لیس کر مسلمانوں کی املاک اور آبادیوں پر منظم حملے شروع کرا دیئے گئے۔ 27 فروری اور اسکے بعد آنیوالے ایام میں 4ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور مردوں میں زیادہ تر کو مارنے پیٹنے کے بعد گھروں دکانوں سمیت تیل چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا جبکہ بہت سوں کو تلواروں سے کاٹ ڈالا۔
فسادات اس قدر خوفناک تھے کہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو بھی مداخلت کرنی پڑ گئی۔ انہوں نے نریندر مودی کو ہدایت کی کہ وہ فسادات پر فوری قابو پائیں جوکہ بھارت کے ماتھے پر بدنما دھبہ ہیں۔ گجرات فسادات کا دھواں بھارت بھر میں پھیل گیا۔ نریندر مودی کو مختلف سماجی، معاشرتی سیاسی تنظیموں رہنمائوں اور عالمی لیڈروں نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکا نے نریندر مودی کو ویزا جاری کرنے پر پابندی لگا دی نریندر مودی کو آج بھی اکثر تقاریب میں خطاب کے دوران میڈیا کے سوالات کی صورت میں گجرات فسادات کی خونیں چھینٹیں اپنے دامن سے صاف کرنی پڑتی ہیں۔
بھارتی ریاست گجرات کے ایک انٹیلی جنس اہلکار سنجیو بھٹ نے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر گجرات کے فسادات کو جان بوجھ کر نہ روکنے کا الزام عائد کیا ہے۔بھٹ نے بھارتی سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے ایک حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ مودی نے پولیس افسران کی ایک بھری میٹنگ میں کہا تھا، ” کافی عرصے سے گجرات کی پولیس نسلی معاملات میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے خلاف ایکشن میں توازن رکھ رہی ہے مگر یہ وقت مسلمانوں کو سبق سکھانے کا ہے تاکہ دوبارہ اس قسم کے واقعات نہ ہوں۔” نریندر سنگھ مودی کٹر ہندو نظریات کے حامل سیاست دان ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے پلیٹ فارم سے 2001ئسے ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔
ان ہندو مسلم فسادات میں بی جے پی کی حامی تنظیم وشوا ہندو پریشد خاصی سرگرم رہی تھی۔نریندر مودی نے 2002 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجودہندؤں کی جانب سے بلوے کے دوران نگاہیں چرائے رکھیں۔یہی وجہ تھی کہ بش انتظامیہ نے انھیں 2005 میں ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان پر یہ پابندی اس قانون کے تحت عائد کی گئی تھی جس کے مطابق ان حکومتی اہلکاروں کا امریکا میں داخلہ ممنوع ہے جو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہوں۔اوباما انتظامیہ اور مودی دونوں ہی اس تنازع کو پس پشت ڈالنا چاہتے ہیں لیکن اصولی طور پر پابندی اب بھی برقرار ہے اور وہ امریکا صرف ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے آسکے ہیں کیونکہ انھیں اس کے لیے ویزا مل سکتا ہے۔
بھارت کے قوم پرست وزیرِ اعظم نریندر مودی کے خلاف 2002 کے گجرات فسادات میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت امریکا میں مقدمہ قائم کیا جانا دورہ امریکا کے موقع پر انھیں زیادہ سے زیادہ شرمندہ کرنے کی کوشش تھا۔ امریکی حکام یہ تو واضح کر چکے ہیں کہ سربراہِ مملکت کی حیثیت سے انھیں امریکی سر زمین پر استثنٰی حاصل ہے لہٰذا یہ مقدمہ صرف نریندر مودی کے لیے باعثِ جھنجھلاہٹ ہوگا۔
گجرات میں مسلمانوں کے خلاف یہ فسادات گجرات کی ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت پر کیے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ مسلمانوں کی نسل کشی تھی۔ اس میں تقریباً 2500 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔ان فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی کردار ادا نہ کیا بلکہ گجرات کے وزیر اعلی مودی نے اس قتل و غارت کی سرپرستی کی۔ ہندو بلوائیوں کے لیے مسلمانوں کا قتل انتقام نہیں بلکہ کھیل کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ریاستی پولیس موجود تھی لیکن بالکل لاتعلق۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا جا رہا ہے۔ یہ شیطانی کھیل تین راتیں اور تین دن تک جاری رہا۔ ہندو دہشت گردوں سے معصوم بچے یا بوڑھے کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ بہت سے بچوں اور عورتوں نے چھتوں سے ہندو ہمسائیوں کے گھر کود کر پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ہمسائیوں نے انتہائی بے رحمی سے انہیں ہندو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا۔یہاں تک کہ ہزاروں مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر حکومت کی طرف سے بنائی گئی پناہ گاہوں میں پناہ لینی پڑی۔ اسی دوران لڑکیوں کے ایک سکول کو بھی پناہ گاہ میں تبدیل کر کے بے گھر ہونے والے مسلمانوں کو وہاں منتقل کر دیا گیا۔ جن میں اکثریت بچوں، کم سن و نوجوان لڑکیوں اور بوڑھی عورتوں کی تھی کہ اچانک ایک رات ہندو دہشت گردوں نے سکول پر دھاوا بول دیا۔ صبح ہونے تک وہاں ایک بھی پناہ گزیں زندہ سلامت نہیں بچا تھا۔ تین دنوں میں گجرات میں ایک بھی مسجد سلامت نہیں رہنے دی گئی۔ یہاں تک کہ احمد آباد میں صوفی بزرگ ولی گجراتی کی خانقاہ کو بھی آگ لگا دی گئی۔
گجرات کے مسلم کش فسادات کے حوالے سے بھارتی ٹی وی کی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ان فسادات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی براہ راست ملوث تھے جنہوں نے ہندوؤں کو تین دن کی کھلی چھٹی دی اور زیادہ مسلمانوں کو شہید کرنے والے ہندوؤں کو پھولوں کے ہار پہنائے۔یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف پرتشدد واقعات سب سے زیادہ گجرات ہی میں پیش آتے ہیں۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے۔