خطے میں امن کے لیے مضبوط پاکستان ناگزیر
شیئر کریں
سیف اللہ خالد
افغانستان میں ناکامی کے بعدامریکا کی پالیسیوں میں تذویراتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان پرفنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کی صورت میں ایک تلوار لٹک رہی ہے۔ اگرچہ تین ماہ کے لیے ہمیں ریلیف ملاہے مگرہنوز خطرات موجودہیں۔ فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)دراصل جی سیون ممالک کے ایماء پر وجودمیں آنے والاایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کاقیام 1989ء میں عمل میں آیاتھا۔اس ادارے کامقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کوکسی بھی قسم کے خطرات سے محفوظ رکھاجائے اوراس مقصدکے لیے قانونی اورعملی اقدامات کیے جائیں۔اس ادارے کے کل ممبران35ہیں۔ ان میں سرفہرست امریکا‘ روس‘برطانیہ‘چین ‘فرانس‘بھارت‘سعودی عرب اورترکی ہیں۔ پاکستان اس کاممبرنہیں لیکن اس پلیٹ فارم پر سب سے زیادہ زیربحث رہنے والاملک ضرورہے۔
پاکستان پراس سے قبل بھی 2012ء سے 2015ء تک سنگین پابندیاں لگاکراس کی معیشت کوزوال پذیر کرنے کی کوشش کی گئی۔بھارت اس حوالے سے کافی متحرک رہا‘اس وقت بھی بھارتی لابنگ اپنااثردکھارہی ہے۔پاکستان پران پابندیوں کوسخت کروانے ‘اسے دہشت گردی کے اندھے کنویں میں دھکا دینے میں وہ امریکا کے ساتھ کھڑاہے۔ بھارت نے پاکستان کوپوری دنیامیں تنہاکرنے کے لیے کافی مہنگی مہم چلائی‘ ایڑی چوٹی کازور لگایا لیکن پاکستان کے دوست ممالک سعودی عرب،ترکی اورچین کے مثبت کردارکی وجہ سے ہر سطح پراسے ناکامی کاسامنارہا۔
اس کامیابی پراللہ تعالیٰ کاہمیں شکراداکرناچاہئے کہ پاکستان پہلے سے مضبوط ہوا۔ اس کامطلب ہے کہ پاکستان ان حالات میں سرخروہونے کی صلاحیت رکھتاہے۔ موجودہ FATF میں پاکستان کانام لسٹ سے خارج ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پاکستان کے خلاف زمین پر سازشوں کے جال بچھائے گئے واللہ خیرالماکرین نے ان کاتوڑ آسمانوں سے خودکردیاہے۔ سو ہمیں اس مالک الملک کا دامن کسی صورت نہیںچھوڑنا چاہئے۔
صدرٹرمپ کی آمد کے بعد بھارت اور امریکا کی افغانستان میں پارٹنر شپ نے پاکستان کے لیے اندرونی وبیرونی سطح پرکافی مشکلات کھڑی کی ہیں مثلا داعش کی افغانستان میں پرورش ،گریٹر بلوچستان کی تحریک کوہوادینے کی ناکام کوشش۔۔۔ امریکا اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے ۔ ٹرمپ کی پاکستان کے خلاف ڈومور کمپین میں درحقیقت مودی چھپابیٹھاہے۔ صدرٹرمپ نے جنوبی ایشیا بارے اپنی پالیسی کااعلان کرتے ہوئے پاکستان پرالزام لگایا تھاکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کا پشتیبان ہے ،ہم نے پاکستان کوپندرہ برسوں میں33ارب ڈالر دئیے لیکن پاکستان کی طرف اسے جواب میں دھوکہ اور فریب ملاہے۔اسی لیے فرانس میں ہونے والےFATF کے اجلاس میں امریکا اوراس کے یورپی اتحادیوں نے قراردادجمع کرائی تھی۔ٹاسک فورس میں قراردادپیش کرنے سے پہلے ایک رپورٹ امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینئیل آڑ کوٹس نے سینٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے روبرو پیش کی جس کابیانیہ امریکی عزائم کوواضح کرتاہے۔کوٹس نے پاکستان پرانتہاپسندوں سے تعلقات جاری رکھنے کے سنگین الزامات کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کوبھی نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہوئے الزام عایدکیا تھاکہ پاکستان یکطرفہ طورپر اپنے ایٹمی اثاثوں میں اضافہ کررہاہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی اس رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں خبردار کیا گیاہے کہ پاکستان کی جانب سے نئے جوہری ہتھیاروں کی تنصیب‘ عسکریت پسندوں سے تعلقات کوبرقراررکھنا‘انسداد دہشت گردی کے تعاون کوروکنااور چین سے قریبی تعلقات امریکی مفادات کے لیے خطرے کاباعث بنیں گے۔ کوٹس نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں میں اضافے کودنیاکے لیے خطرہ قراردیا لیکن بھارت کے حوالے سے لب کشائی سے اجتناب برتا۔ حالانکہ خطے میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ توہندوانتہاپسند حکومت نے شروع کی تھی اور یہ امریکا ہی تھاجس نے بھارت کے ایٹمی دھماکوں پرچپ سادھ لی تھی بلکہ ایٹمی ری ایکٹر کے لیے سہولیات بھی فراہم کی تھیں۔ بھارت کے دھماکوں کے جواب میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے کی تیاریاں شروع کیں تو صدرکلنٹن نے پاکستان کوایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے لالچ اوردھمکیوں کاہرحربہ اختیارکیا۔ پاکستان نے بھارت کے جارحانہ عزائم کودیکھتے ہوئے اپنی مدد آپ کے تحت ملک کوایٹمی طاقت بنایااور بھارتی جارحیت کوروکنے کے لیے ایٹمی وار ہیڈتیارکیے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کانگریس میں دھائیاں دیں کہ پاکستان کم فاصلے تک ٹیکنیکل ہتھیار‘سمندری کروزمیزائل‘ ائیرلانچ کروز میزائل بڑے فاصلے تک جانے والے بیلسٹک میزائل سمیت جدیدترین ہتھیار تیار کررہاہے۔
یہ جان کر توہرپاکستانی کاچہرہ کھل اٹھتاہے کہ دفاع اور سلامتی کے لیے ہماراملک خودکفیل ہورہاہے۔پاکستان نے کبھی کسی ملک پر جارحیت نہیں کی بلکہ ہمیشہ اپنی سلامتی کے لیے اقدامات کیے اوریہ ہرملک کاحق ہے۔ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کومحدود رکھااورعالمی اصولوں کی پاسداری کی ۔اس کے ساتھ ہی پڑوسی ملک میں دوبڑی عالمی استعماری قوتوں کی جنگوں اور وطن عزیز میں شدت پسندی اور امریکی حلیف بننے کی پاداش میں پہنچنے والے نقصان کے باوجود اپنے ایٹمی اثاثوں کی اس طرح حفاظت کی کہ بھارت‘اسرائیل اورامریکا سمیت دنیاکے خفیہ ادارے پاکستانی ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل نہ کر سکے توپھر کیسے ممکن ہے کہ کوئی ہتھیاربندگروپ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سے دنیاکوخطرات سے دوچارکرسکتاہے۔
دراصل ان الزامات کامقصد پاکستان کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کرکے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کومشکوک بناکر اپنے مذموم مقاصد کوکامیاب بنانے کی ناپاک کوشش ہے۔ کوٹس کابیانیہ بھارتی لہجے کی عکاسی کرتانظرآتاہے۔ بھارت جس قسم کے الزامات پاکستان پرعائد کرتاہے‘وہی زبان کابل اور امریکا بولتے ہیں۔یہ نہیں بتایاجارہاہے کہ افغانستان کی سرزمین میں محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی بھیانک وارداتیں ہزاروں قیمتی جانوں کے ضیاع کاسبب بنیں۔
امریکا اگر ہم پرپابندیاں لگوانے کے لیے کوشاں ہے ‘جیسے کہ اس نے FATF میں ہمیں دبا نا اور جھکاناچاہا۔ امریکا اگر پاکستان پرپابندیاں لگواتا ہے تو اس کانقصان صرف پاکستان کونہیں بلکہ امریکا کو بھی ہوگا۔ اس کاپاکستان میںکردارمحدود ہوگا۔عوام میں اس کے خلاف نفرت اوربڑھے گی، افغانستان میں اس کی برپاکردہ جنگ اس کے لیے مزید تباہی کاپیش خیمہ بنے گی۔ اسی طرح نیٹوسپلائی پربھی روک لگے گی۔17انٹیلی جنس ایجنسیوں نے جو رپورٹ مرتب کی ہے ‘اس میں یہ درج ہے کہ 2019ء میں پاکستان امریکا کے اثرورسوخ سے باہر نکل کرچین کے دائرہ اثرمیں آجائے گااوریہ عمل جنوبی ایشیائی خطے کے لیے خطرہ ہوگا۔ ایسی رپورٹس اور بیانیے ترتیب دینے سے پہلے کوٹس کو چاہیے تھا کہ اپنے پیش رو کی کتاب کا مطالعہ کر لیتے۔ 2006ء کے دوران سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے اپنی کتاب میں لکھاہے کہ ہم سے یہ غلطی ہوئی کہ ہم نے تمام پشتونوں کوطالبان یاان کے حامی سمجھ کر ڈیل کیااور ان عناصر کی سرپرستی کی جن سے پشتونوں کی کشیدگی چل رہی ہے۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے پاکستان کے کردارکونظرانداز کیااور طالبان کی حمایت کی آڑمیں ہم نے اس کوشک کی نگاہ سے دیکھاحالانکہ طالبان کو اقتدار دلانے میں بنیادی کردار ہماراتھااور پاکستان نے اس کام میں محض ہماری معاونت کی تھی۔اگریہ کہاجائے کہ ہم ہی نے پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کی تھی توغلط نہیں ہوگا۔ایک اہم غلطی یہ بھی کی کہ امریکا نے افغانستان میں مزاحمت کرنے والوں کو سیاسی عمل کاحصہ نہ بنایا یہی غلطی اس نے روس کے انخلاء کے موقع پر بھی کی۔ ہماری اس روش نے وارلارڈز کوکلیدی کرداردے دیا امریکی فورسز نے افغان روایات کے برعکس سرچ آپریشنز کے دوران خواتین اورگھروں کی تلاشیاں لے کرعوام کومسلسل اذیت اور اشتعال کی کیفیت سے دوچارکیا۔
جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے یہ اپنی آزادی اور خودمختاری کے اصولوں پر پڑوسیوں سمیت دنیاکے تمام ممالک کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات چاہتاہے۔اس کی واضح مثال تاپی تاپی گیس منصوبہ ہے جس سے خطے کے عوام کو متحد کرنے میں مدد ملے گی ۔پاکستان ، افغانستان کی تعمیر نو اورترقی میںFATF میں پابندیوں کے باوجود پہلے بھی پیچھے نہیں ہٹاتھااب بھی نہیں ہٹے گا۔ پاکستان کاشروع سے موقف رہاہے کہ افغانستان میں بے معنی جنگ کو طول دینااور غیرملکی افواج کی موجودگی امریکا سمیت کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔اس کااعادہ جنرل قمرجاویدباجوہ نے جرمنی کے شہرمیونخ میں سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میں کیا کہاکہ امریکا ‘افغانستان میں اپنی ناکامیوں کے لیے پاکستان کوموردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے ان وجوہات کوتلاش کرے جس کی وجہ سے افغانستان میں اسے شکست کاسامناہے۔اسی طرح میونخ کی سکیورٹی کانفرنس کے چاردن بعد کابل میں9ممالک کی چیفس آف ڈیفنس کانفرنس ہوئی اس کانفرنس سے جنرل قمرجاویدباجوہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کاراستہ پاکستان سے ہوکر گزرتاہے بھارت اورامریکا کو پاکستان روس اور چین کے تعلقات میں جوقربتیں نظر آرہی ہیں اس نے بھی امریکا کی مایوسیوں اور پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔ یہ پیش رفت پاک روس تعلقات کی نئی جہتوں کی نشاندہی کی صورت میں سامنے آئی ہے اوردونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون کے لیے ایک کمیشن کے قیام کی راہ ہموارہوئی ہے یہ صورتحال بہت خوش آئند،پاکستان کے روشن اورتابناک مستقبل کی نشاندھی کررہی ہے۔ان حالات میں مزیدکامیابیاں سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری کوکامیاب سفارتکاری کے ذریعے حقائق سے باربار آگاہ کیاجائے، پراپیگنڈے کے اس دور میں عالمی برادری تک سچائی اس انداز اور تواترسے پہنچائی جائے جس تواترسے پاکستان کیخلاف جھوٹ پھیلانے اورالزامات لگانے کاسلسلہ جاری ہے۔