
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک
شیئر کریں
جاوید محمود
امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد جنوبی کوریا سے شروع ہونے والی فوربی تحریک اب دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو جنوبی کوریا کے فیمینسٹ حلقے کی طرف سے شروع کی گئی، جنہوں نے معاشرے میں خواتین کے خلاف نفرت کے جواب میں مردوں کے بغیر رہنے کا انتخاب کیا۔ ٹرمپ کے انتخابات کے بعد مرد کہتے ہیں کہ اسقاط حمل گناہ ہے پھر وہ خواتین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کریں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جنہوں نے معاشرے میں خواتین کے خلاف نفرت کے جواب میں مردوں کے بغیر رہنے کا انتخاب کیا۔ فوربی تحریک کی کارکن من جو کہتی ہیں کہ ہم مسلسل ایسی خبریں سنتے رہتے ہیں کہ خواتین ڈیٹنگ کے دوران تشدد کا شکار ہو رہی ہیں یا تعلقات ختم کرنے کی کوشش میں انہیں قتل کر دیا گیا۔ صنف کے روایتی کردار اور توقعات کو چیلنج کرنے والی یہ تحریک اب امریکہ میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد مغرب میں فوربی تحریک کے بارے میں بحث میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ جنوبی کوریا کی فیمینسٹ خواتین جنہوں نے اس تحریک کے اصولوں کو فروغ دیا اور ان کے مطابق زندگی بسر کی، حالیہ عالمی توجہ کے بعد حوصلہ افزائی بھی محسوس کر رہی ہیں ۔تاہم وہ مایوسی بھی محسوس کرتی ہیں اس تحریک سے تعلق رکھنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ یہ خواتین کے لیے ایک تصور ایک تحریک اور روزمرہ کی مشق ہے۔
خواتین کی خود مختاری پر زور دینے کے لیے دوسرے اصول جیسے جنسی تعلقات ڈیٹنگ اور بچے پیدا کرنے سے انکار کرنا شامل کیا گیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ یہ ہڑتال نہیں بلکہ اپنا احترام کرنے کا انتخاب ہے، ان کے لیے فوربی کا مقصد پدر شادی کو ختم کرنا ہے نہ کہ مردوں کو مسترد کرنا۔ یہ خواتین کے لیے انسان کی طرح زندگی گزارنے کی تحریک ہے۔ ڈیٹنگ سیکس شادی اور بچے کی پیدائش حقیقت میں خواتین کو کمزور کرتی ہے۔ گونگ یو ہوا جنہوں نے اس تحریک کے بارے میں تعلیمی مطالعے لکھے ،بتاتی ہیں کہ انہوں نے فور بی اصولوں کو اپنانے کا فیصلہ کیا تھا ،وہ کہتی ہیں کہ بہت سی خواتین کو یہ احساس ہونے لگا کہ نہ صرف شادی بلکہ ڈیٹنگ اور یہاں تک کہ جنسی تعلقات بھی انہیں خطرے میں ڈال سکتے ہیں ۔انہوں نے وزارت صنفی مساوات اور خاندان کی 2020کی ایک رپورٹ کا ذکر کیا، جس میں بتایا گیا کہ 42فیصد مردوں نے کم از کم ایک بار جنسی سیکس کے لیے جسم فروشوں کے پاس جانے کا اعتراف کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس انکشاف نے ان کی دوستوں کو اپنے مرد پارٹنر کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا۔ میں بھی کبھی کبھی اکیلا محسوس کرتی ہوں لیکن میں نے محسوس کیا کہ شک اور خوف سے بھرا رشتہ اتنا قیمتی نہیں جتنا کہ دوسری خواتین کی مدد کرنے میں اپنا وقت اور توانائی خرچ کرنا ہے۔ فور بی خود کو جسمانی اور ذہنی طور پر اس تشدد سے بچانے کا ایک طریقہ ہے، جس کا سامنا خواتین تعلقات میں کر سکتی ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ مجرموں کو اکثر بہت کم سزا ملتی ہے۔ کوریا میں ڈیٹنگ کرنا ایسا لگتا ہے جیسے کسی شخص کو یہ حق سونپ دیا جائے کہ وہ مجھے نقصان پہنچائے یا یہاں تک کہ میری زندگی لے لے۔ فور بی سے جڑی خواتین کہتی ہیں کہ اپنی حیضہ دانی ہٹانے کے لیے طبعی عمل سے گزرنے سے انہیں فوربی طرز زندگی اپنانے کی ترغیب ملی۔ اس نے ہمیں احساس دلایا کہ عورت کے جسم کو افزائش نسل کے آلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
فور بی مزاحمت کی ایک غیر فعال شکل ہے جس کا خواتین کھلے عام اعلان نہیں کرتی لیکن انہوں نے افزائش نسل کو کنٹرول کرنے کے لیے خاموشی سے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایسے معاشرے میں زندہ رہنے کا طریقہ بن گیا ہے جو خواتین کی آواز کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ خواتین سے نفرت اور فیمینزم کی مخالفین کا قومی بائیکاٹ ہے ۔خواتین تسلیم کرتی ہیں کہ جنوبی کوریا میں فوربی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ایک چیلنج ہے۔ من جو کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے فیصلے کے بارے میں مرد دوستوں یا ساتھیوں کو نہیں بتایا مجھے لگتا ہے کہ کھلے عام فوربی کے طور پر شناخت کرنا خطرناک ہے ،میں نے بہت سے حامیوں کو اپنا موقف سرعام آن لائن شیئر کرنے کے بعد سائبر بلنگ کا سامنا کرتے دیکھا ہے۔ یوں ہوا اب آسٹریلیا میں رہتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ ان کا آبائی ملک ان کے لیے غیر محفوظ ہے ۔وہ کہتی ہیں کہ صنفی امتیاز کا سامنا کرنے کے علاوہ صرف خواتین کے حقوق کی وکالت کرنے اور فیمینزم کی پیروی کرنے نے مجھے دھمکیوں کا نشانہ بنایا جس نے مجھے بہت پریشان کر دیا۔ جب بھی میں کھلے عام فوربی تحریک کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتی ہوں تو مجھے فوری طور پر فیمینسٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ایک ایسی اصطلاح جو کوریائی معاشرے میں دشمنی کو بڑھا سکتی ہے، اسقاط حمل اور جنسی استحصال کے الزامات کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف نے امریکہ میں کچھ خواتین کو انتخابات میں کامیابی کے بعد فور بی تحریک کو اپنانے پر مجبور کیا ہے۔
ٹرمپ نے اسقاط حمل کے بارے میں فیصلہ انفرادی ریاستوں پر مقامی قوانین کے مطابق چھوڑ دیا ہے۔ اس چیز نے خواتین کے حقوق کے گروپوں میں اسقاط حمل کی ممکنہ وفاقی پابندی کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے صدر سینٹ اور ایوان نمائندگان پر ریپبلکنز کا کنٹرول ہے اور سپریم کورٹ میں قدامت پسند اکثریت کے ساتھ وہ سخت قانون سازی کرنے کی مضبوط پوزیشن میں ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے بارے میں ٹرمپ کے ماضی کے بیانات بشمول جنسی استحصال کے اقدامات اور ان کی حریف کمیلاہیرس کے بارے میں متنازع بیانات دہرائے جا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں امریکی خواتین میں فوربی کو اپنانے کی تحریک بڑھ رہی ہے ۔اس تحریک کے بارے میں سوشل میڈیا پوسٹس نمایاں توجہ حاصل کر رہی ہیں جبکہ سرچ انجن کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے کچھ مہینوں کے دوران اس دلچسپی میں ڈرامائی اضافہ ہوا۔ کوریائی خواتین کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک فوربی اب عالمی سطح پر فیمینسٹ گفتگو کا حصہ بن چکی ہے۔ تاہم جنوبی کوریا میں فوربی کے بارے میں عوامی اگہی اور جذبات محدود یا پھر منفی ہیں۔ کم ہیون نے پہلی بار تین سال قبل آن لائن اس تحریک کو دیکھا ، 30سالہ اداکارہ کا کہنا ہے کہ میں ان لوگوں کے بارے میں رائے قائم نہیں کرتی ہوں جو فور بی پر عمل کرتے ہیں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ کچھ خواتین دوسری خواتین کو ان اقدار کو نہ اپنانے پر مورد الزام ٹھہراتی ہیں اور یہ غلط ہے کچھ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے اس تحریک کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ میں اسے جزوی طور پر سمجھ سکتی ہوں کہ کچھ خواتین اس طرز زندگی کا انتخاب کیوں کرتی ہے لیکن میرے خیال میں اس کی وجہ معاشی چیلنجز ہیں ۔روز مرہ کی بڑھتی ہوئی لاگت کے ساتھ قریبی تعلقات میں مشغول ہونا مشکل ہوتا جا رہا ہے، پھر بھی کچھ کوریائی خواتین کے لیے فور بی نے ان کی زندگی کے منصوبوں کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور خاندان کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو نئے سرے سے ترتیب دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کے لیے درجنوں تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ میرا جسم میری مرضی کی طرح یہ تنظیم بھی سر اٹھا رہی ہے اور یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔