میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کالی بطخ

کالی بطخ

منتظم
هفته, ۲۸ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کے نمبر ون چینل کے نمبر ون پروگرام کے نمبر ون اینکر ہمارے ہر دل عزیز ڈاکٹر شاہد مسعودنے ایک عرصے سے ہمیں اپنا End of Times نامی پروگرام دکھا کر خوف و ہذیان میں مبتلا کررکھا تھا۔ہم پہلے بھی غالب کے اس شعر کی تصویر بے کسی تھے کہ
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اپنے25 جنوری کے پروگرام میں انہوں نے ایک اور انیائے (ظلم) کیا،بے لطفی کی ساکت جھیل میں ایک کالی بطخ اور چھوڑ دی۔ ریٹائرڈ ایڈمرل JAMES STAVRIDIS کے فارن پالیسی میگزین میں شائع ہونے والے مضمون جو طوفاں بہ دست صدر ٹرمپ کو سجھاؤنی دینے کے لیے شائع ہوا تھا۔ہم نے انہیں سمجھایا بھی تھا کہ پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ،تو اور ہمیں ناشاد نہ کر، قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر ، یوں ظلم نہ کر بے داد نہ کر۔۔۔مگر وہ کب ہماری سنتے ہیں۔ہم ان کے دل سے گرویدہ ہیں۔ پاکستان میں وہ محاسبے (احتساب غلط لفظ ہے) کی امید کا آخری ٹمٹماتا چراغ ہیں۔مشرق وسطی کی خانہ جنگی اور مغربی استعمار،چین کے پھیلائو پر انہوں نے اپنے پروگراموں میں سب سے پہلے نشاندہی کی، سو ہم راحیل شریف کے ساتھ ان کا بھی شکریہ تواتر سے ادا کرتے رہے۔


ریٹائرڈ ایڈمرل JAMES STAVRIDIS ہمارے ہاں کے ٹاک شوز میں نظر آنے والے دفاعی تجزیہ نگاروں کی مانند مقتدر حلقوں سے موثر تعلقات کے شیرے میں لتھڑے کوئی معمولی آدمی نہیں۔ہلیری کلنٹن ایک مرحلے پر انہیں اپنا ہم رکاب نائب صدر ات کا امیدوار بنانا چاہتی تھیں تو موجودہ صدر ٹرمپ انہیں سیکرٹری آف اسٹیٹ کے لیے موزوں سمجھتے تھے مگر پھر اس منصب کے لیے قرعہ فال ایکژان موبل کے سربراہ اور روسی صدر پیوٹن کے دوست ریکس ٹلرسن کا نام نکل آیا۔سوچئے وکٹ کے چاروں طرف کھیلنے والے کیسے ویرات کوہلی ہیں۔
ریٹائرڈ ایڈمرل JAMES STAVRIDIS اس وقت ٹفٹس یونیورسٹی کے مشہور زمانہ فلیچر اسکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی کے ڈین اور سربراہ ہیں ۔ اس سے پہلے وہ نیٹو کی جنوبی کمانڈ اور اس سے بھی بڑھ کر نیٹو کی الائیڈ کمانڈ کے چار سال سربراہ رہے ہیں۔فلیچر اسکول میں زیر تربیت ہونا ہر سفارت کارا ور قانون دان کے لیے بہت اعزاز کی بات ہے۔ تلفظ کے حساب سے یونانی النسل سٹیب ۔ری۔ ڈس اور کئی کتب کے مصنف اگر دفاعی تناظر میں خارجہ حوالے سے کوئی بات کہیں گے تو لازم ہے کہ اسے کہیں نہ کہیں بغور سنا اور سوچا جائے گا۔یہ ان کی شخصیت کو سامنے رکھ کر زیادہ مستند سمجھی جائے گی۔ان کا مضمون
Pakistan Is the Crisis Flying Under the Radar
Why the Trump administration needs a plan for Pakistan, now.
( ریڈار پر منڈلاتا پاکستان کا بحران۔۔ٹرمپ انتظامیہ کی فوری توجہ کا محتاج)۔اس مضمون میں چار متضاد تجاویز دی گئی ہیں۔ہم چونکہ عراق میں بڑے پیمانے پر ہلاکت پھیلانے والے ہتھیار (WMD) پربرطانوی وزیر اعظم کی قبل از مرگ خلق خدا سے معافی کہ انہیں کس طرح امریکا ، فرانس اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے اس بارے میں لغو اور بے بنیاد اطلاعات فراہم کیں اور ایک جنگ میں جھونک دیا۔مودی کے پرانے کرنسی نوٹوں کی منسوخی کے فیصلے اور اس کے مضمرات اور ایک آدمی کے تخیل اور لالچ کے حوالے سے میٹرو بس ، سستی روٹی،دانش اسکول،اورنج ٹرین، سیف سٹی جیسے شیخ چلی منصوبوں کی بھٹی میںعوام کو نتائج اور نقصانات کو یکسر نظر انداز کرکے جھونک دینے سے واقف ہیں۔
یہ امر بعید از امکان نہیں کہ مصنف کے عہدے، تجربے اور مقتدر حلقوں میں بے دریغ رسائی کے حوالے سے کوئی ان کے مضمون کے مضمرات کو سوچے سمجھے بغیر عملی جامہ پہنانا شروع کردے۔پاکستان کے لیے سر دست یہ لمحہ فکریہ ہے اور اسے اپنے دوستوں سے بالخصوص دو مختلف زاویوں سے ایک طرف سعودی عرب اور چین تو دوسری طرف ایران اور روس کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔قدیم ہندو گیانی کہا کرتے تھے کہ جہاں راجہ بیوپاری ہوگا ،وہاں کی جنتا بھکاری ہوگی۔امریکا کی سیاست میں جارج بش کی آمد سے پہلے آنکھ کی یہ شرم پائی جاتی تھی کہ وہ تاجروں کو اقتدار نہیں سونپتے تھے۔
چڑھتی جوانی ،نئی دولت اور تاجر کی سیاسی طاقت بڑی مستانی ہوتی ہے۔اس آبدار زہر میں بجھے خنجر کی مانند جو کٹنے والے گلوں کا نام یاد نہیں رکھتا۔ امریکی فیصلہ ساز ماحول ابھی انہیں مضمرات سے جل تھل ہے۔
آپ اگر اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ امریکا کےایوان ہائے اقتدار میں فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں اور امریکی صدر ایف بی آئی اور سی آئی اے کے خوف سے لرزہ بر اندام رہتا ہے تو اپنی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے سی آئی اے کے اہل کار جان نکسن کی کتاب ـ’’“Debriefing the President: The Interrogation of Saddam Husseinــ‘‘ پڑھنی چاہیے۔

جیمز نکسن عراق میں سی آئی اے کی اس ٹیم کے سربراہ تھے جس نے سب سے پہلے عراق کے معزول صدر صدام حسین کو ایک طویل عرصے تک زیر تفتیش رکھا۔

جب صدر کو بریف کرنے کے لیے سی آئی اے کے متعلقہ شعبے کو صدرجارج بش کی طرف سے بلاوا آتا تھا تو سی آئی اے ہیڈ کوارٹر لینگلے کی ساتویں منزل پر دوڑیں لگ جاتی تھیں۔جب یہ سب اپنی مکمل تیاری سے اوول آفس میں براجمان ہوتے تو ایسا لگتا تھا کہ پہلے سے بھیجے گئے بریف پڑھے ہی نہیں گئے۔صدر صاحب کے سوالات اکثر موضوع سے ہٹے ہوتے تھے ۔ استفسارات اس قدر بے راہ رو ہوتے کہ ایک دن ایران پر بریفنگ میں جب یہ بتایا گیا کہ ایران مشہور شیعہ لیڈر مقتدی الصدرسے ناراض ہے تو بش صاحب نے کہا کہ وہاں عراق میں جو ہماری ہٹ ٹیمیں ہیں انہیں حکم دیتے ہیں کہ وہ مقتدی الصدر کو قتل کردیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ اس سے امریکا کا کونسا مقصد پورا ہوگا اور ان مشتعل حامیوں کو سنبھالنے کے لیے ہمارے پاس کوئی اور قابل قدر لیڈر نہیں۔ اس پر صدر بش کی تائید میں مقتدی الصدر کی تحقیر کرتے ہوئے انہیں’’flake ‘‘ (پاگل اور مخبوط الحواس فرد) کہا ۔جس پر بش نے ان کے شان میں ٹھگ اور کلر جیسے نازیبا کلمات بیان کرکے موضوع بدل دیا۔
آئیے اب آقائے سٹیب ۔ری۔ ڈس کے مضمون کی طرف آتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو چتائونی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس وقت بین الاقوامی طور پر دولت اسلامیہ، شام کا سانحہ،کھولتا ہوا شمالی کوریا،چین اور روس سے معاملات سبھی اس وقت توجہ کے طالب ہیں مگر ہمارے دفتر خارجہ کی نگاہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی جانب بھی ہونی چاہیے تاکہ بھارت کو ساتھ ملا کر ہم بین الاقوامی امن کو فروغ دے سکیں۔پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کالی بطخ کا سا اقدام ہو۔
لبنانی امریکی دانشور نسیم نقولا طالب کی کتاب ’’کالی بطخ‘‘ میں یہ تصور عام کیا گیا۔نسیم طالب کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جو ممکنہ خطرات،ممکنہ اقدامات، اور غیر یقینی جیسے مشکل پیرایوں میں سرمائے سے لے کر سیاست کا جائزہ لیتے ہیں۔کالی بطخ کی مثال انہوں نے ہی پہلی دفعہ عام کی۔ہوا یوںکہ آسٹریلیا کی دریافت سے قبل ساری دنیا میں صرف ایک ہی خیال اور مشاہدہ عام تھا کہ بطخ ہمیشہ سفید رنگ کی ہوتی ہے۔پہلی دفعہ کالی بطخ جب آسٹریلیا میں دکھائی دی تو لوگوں کا برسوں کا مشاہدہ تلپٹ ہوگیا۔ کالی بطخ علامتاً وہ واقعہ ہوتا ہے جس کے اثرات بے حد چونکا دینے والے ہوں اور جس کی متاثرین کو توقع بہت ہی کم ہو۔جیسے نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ، کالی بطخ تھا۔
ڈین ایڈمرل بھیانک سٹیب ۔ری۔ ڈس نے یہ تجویز اس لیے دی ہے کہ خود ان ہی کے الفاظ میںTrump administration should recognize that our levers to influence Pakistan are limited – but not entirely impotent. (ٹرمپ انتظامیہ کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان پر اثر انداز ہونے کے مواقع محدود مگر مکمل طور پر غیر موثر نہیں)۔ہم ان کی اس من پسند تجویز پر بعد میں بات کریں گے ۔پہلے جلدی سے ان کی بقایا تجاویز کا جائزہ لیتے ہیں۔مضمون میںآگے جاکر ان سے غلطی ہوئی ہے۔وہ نواز شریف کے مئی 2013 میںوزیر اعظم بننے کو قیام پاکستان کے بعد پہلا جمہوری قدم گرادنتے ہیں جب کہ اس سے پہلے بھی کئی جمہوری ادوار گزرے ہیں۔کالی بطخ والی تجویز کو وہ اگلے ہی سانس میں یوں غیر اراداتاً کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے لازم ہے کہ بھارت اپنے پڑوسیوں سے عمدہ اور برابری کے تعلقات کو فروغ دے۔(کس زمانے کی بات کرتے ہو) پاکستان کی فوجی امداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ افغانستان میں دہشت گردی کا مقابلہ کرسکے( کیا یہ منصوبہ بھارت کی نیندیں نہیں اڑا دے گا) پاکستان کی معاشی امداد میں اس طرح اضافہ ہو جیسا 2005 کے زلزلے میں کیا گیا تھا، جس سے پاکستان میں امریکا کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات کو بہت فروغ ملا تھا۔ ہم دیگر یورپی اور ایشائی ممالک کو ساتھ ملا کر ان اقدامات کو کانگریس کی منظوری سے فروغ دیں۔
ایڈمرل سٹب۔ ری ۔ڈس کے اس مضمون کی مثال اس ذہنی عدم استحکام کے شکار عاشق کی سی ہے جو اپنے محبوب کو ملاقات کے آغاز میں کس کے تھپڑ رسید کردے اور بعد میں اسے کی دل جوئی کے لیے محبت کے نغمات سنائے۔ کالی بطخ کا تذکرہ کرتے وقت استاد محترم کے ذہن میں شاید یہ تلخ حقیقت موجود نہ تھی کہ پاکستانی قوم جو پیدائشی خود کش کا مزاج رکھتی ہے ،جس کے تین وزرائے اعظم اسٹاف مختلف انواع کی دہشت گردی کے ذریعے اور بقایا شرمندگی اور بے قدری کی موت مرچکے ہیں۔ جس کے ایک چیف آف آرمی کا طیارہ بھی امریکی سفیر کی موجودگی میںتخریب کاری کی نذر ہوچکا ہو، اس کے پاس سیاست دان اور سرکاری ملازم کے طور پر کوئی ایسا High-Value Human Target نہیں کہ جسے قوم یا ملک کی خاطر قربان نہ کیا جاسکے۔رہ گئے اسکولوں، ائر پورٹس اور دفاعی تنصیبات پر حملے تو
سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں