قوم کے لیے ۵فروری کاتحفہ ۔۔۔۔۔(پہلی قسط)
شیئر کریں
یقین مانئے کہ اس امر کا خدشہ تو شاید ذہن کے کسی نہاں خانے میں موجود تھا لیکن اس بات کی توقع قطعاً نہیں تھی کہ یہ اس قدر جلد ہو جائے گا۔ کیوں کہ اب بھی نوازشریف کے پاس کچھ ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو نظریہ پاکستان اور میاں محمد نواز شریف کے نظریاتی سپاہی باور کیے جاتے ہیں۔ اُن کی وزیراعظم کے پاس موجودگی سے ہمیں نجانے کیوں غلط فہمی تھی کہ شاید یہ معاملہ کسی ’’باوقار ‘‘طریقے سے حل ہو ۔لیکن وزیر اعظم کے مشیر کا جب خصوصی انٹرویو نو بجے والے خبرنامے میں چلا اور کسی بھی اخبار کے صفحہ تین پر دو کالمی خبر والی شخصیت کو اچھا ل کر فرنٹ پیج پر لایا گیا تو ہمارا ماتھا ٹھنکا۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ وزارتِ اطلاعات کی ایک خصوصی کمیٹی کی فرمائش پر (نظریہ پاکستان کے محافظ) وزیر اعظم نے عین اس وقت ملک میں بھارتی فلموں کی اجازت دی ہے جب قوم مظلوم کشمیریوں کے ساتھ یومِ یک جہتی منانے کے لیے کمر کس رہی ہے۔ یہ بات قابلِ ہضم نہیں کہ نظریہ پاکستان کے سپاہی اور اُن کے موجودہ باس میاں نوازشریف اس سے آگاہ نہیں ہوں گے کہ پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جانے لگا ہے کیوں کہ میاں نواز شریف نے پنجاب کے حکمران کے طور پر یہ دن منانے کی روایت (اپنی اُس وقت کی سیاسی حریف بے نظر بھٹو کو کشمیر فروش ثابت کرنے کے لیے) خود ہی ڈالی تھی، تو پھر کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس فیصلے میں چند دنوں کی تاخیر کر لی جاتی؟ لیکن وہ کیا ہے کہ آج کل بھارتی فلم ’رئیس ‘بڑا بزنس کر رہی ہے اور کوئی بھی تاخیر ایک بڑے میڈیا ٹائیکون کے لیے خسارے کا موجب ہو سکتی تھی، جنہوں نے اس فلم کی بکنگ کروا رکھی ہے۔
ہماری خوش فہمی کی وجہ یہ تھی کہ یہ پابندی سرے سے پاکستان نے تو لگائی ہی نہیں تھی کیوں کہ پاکستانی قوانین کے مطابق تویہاں کسی طور بھارتی فلم درآمد ہو ہی نہیں سکتی ۔ اس لیے پاکستانی سینما مالکان یا پھر کسی اور فریق کی کیا اوقات بچتی تھی؟ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں جو فلمیں آ کر نمائش کے لیے پیش ہو رہی ہیں وہ کیسے آ رہی تھیں؟ تو سیدھی سی بات ہے اس قانون کو موم کی ناک بنا لیا گیا تھا۔ بھارتی فلموں کے نمائش کنندگان کی طرف سے فلم کے آغاز میں دو یا تین سلائیڈز کا اضافہ کردیا جاتا ، یہ فلم دبئی میں فلاں فلاں ادارے نے بنائی ہے، اور فلاں ادارے کے پاس اس کے بین الاقوامی نمائش کے حقوق موجود ہیں اور یہ فلم وہ ادارہ پاکستان بھجوارہا ہے، تاہم اس کی ’’عکس بندی ‘‘بھارت میں کی گئی ہے۔ اور ہمارے ملک کا جلبِ زر کا مارا طبقہ اشرافیہ قانون کی اس موم کی ناک کو اپنے حق میں مروڑلیتا اوریوں یہ فلم حلال ہو کر براستہ دبئی پاکستان پہنچ جاتی۔
تو کیا میاں نواز شریف کا بھارتی فلموں کی درآمد پر پابندی ختم کرنے کا وہ حکم جو ان میڈیا ہاوسز نے ہم تک پہنچایا ہے، اس کے ذریعے کیا ملک کے مروجہ قوانین میں تبدیلی ہو گئی؟ لیکن وہ کیا ہے کہ قانون میں تبدیلی کے لیے تو ہم نے ایک پارلیمنٹ نہیں رکھی ہوئی یا پھر ہمارے ہاں مغل اعظم ثانی کا دور چل رہا ہے؟ جناب بیرسٹر ظفر اللہ خان جیسی نابغہ روزگار اور ااہل ِ علم شخصیت اس قانونی موشگافی پر قوم کی رہنمائی فرمائیں تو احسان ہو گا،اگرچہ قوم ان کے احسانوں کے بوجھ تلے پہلے ہی دبی ہوئی ہے ۔
ہم تو جناب پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال کی طرف سے اس بیان کے انتظار میں بھی ہیں کہ جب وہ فرمائیں کہ بھارتی فلموں کی درآمد سی پیک کا حصہ ہے جس سے خطے میں خوشحالی کے ندی نالے بہہ نکلیں گے۔ویسے درونِ خانہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فلموں پرپابندی ہماری طرف سے نہیں لگائی گئی تھی بلکہ بھارتی فلموں کے تیار کنندگان وبرآمد کنندگان کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے جن سنگھیوں نے ان کے دفاتر میں جا کر دھمکیاں دی تھیں کہ اگر ان کی فلمیں کسی بھی رستے سے جاکر پاکستان میں نمائش پزیر ہوئیں تووہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اس پر بھارتی فلم برآمد کنندگان نے پاکستانیوں کو فلمیں دینے سے انکار کردیا کیوں کہ بی جے پی کم از کم ان کو بھارت کی ان ریاستوں میں تواپنی فلموں کی نمائش کرنے سے روک ہی سکتی تھی جہاں ان کی حکومت تھی۔ اور یوں وہ پورے بھارت کی منڈی سے محروم ہو سکتے تھے۔ ویسے بھی بھارت کے لیے پاکستان سو سے زائدممالک میں سے ایک منڈی ہے وہ محض ایک منڈی کے لیے اپنا کاروبار کیوں خراب کرتے، اس لیے پاکستان کو فلم بھیجنے سے بھارتیوں نے انکار کیا جب کہ ہم تو دیدہ و دل فرشِ راہ کیے بیٹھے تھے۔
بھارت کی طرف سے اس اعلانیہ پابندی کے جواب میں ہم نے بھی خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ان فلموں پر پابندی کا اعلان کردیا۔
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
فلموں کے کاروبار میں خرابی کا آغاز بھارت کی طرف سے کسی نہ کسی واقعے کو بہانہ بنا کر پاکستان کے بازو مروڑنے کی مہم سے شروع ہوا۔ جب بھارتی انتہاپسند حکومت نے کشمیر میں اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے پٹھان کوٹ ، سرجیکل ا سٹرائیک اور اوڑی واقعات کی ’نوٹنکیاں‘ شروع کی اور وہاں کام (کی بھیک مانگنے ) کے لیے جانے والے پاکستانی خواتین و حضرات اداکاراوں پر غیر اعلانیہ پابندی لگاکر ان پر حملے کی دھمکیاں دیں۔ویسے کام کی بھیک مانگنے جانے والے ان لوگوں کی ذہنی سطح کس قدر گھٹیا پست اور ذلیل ہے کہ ایک اداکار ’’عدنان صدیقی‘‘کے حوالے سے اخبار میں یہ خبر چھپی ہے کہ انہیں بھارت میںایک فلم میں اداکاری کے لیے جانے کا ویزہ ملنے پر انہیں ایسے مبارکبادیں مل رہی ہیں جیسے انہیں جنت کا ویزہ مل گیا ہو۔
لیکن ادھر ہماری جمہوری حکومت نے ہمیں یہ بتایا کہ یہ پابندی حکومتی سطح پر نہیں تھی، بلکہ سینما مالکان نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا تھا۔ تو پھر اگر سینما مالکان اپنی ہٹ پر قائم ہیں (جو تاحال ہیں )تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت سے درآمد ہونے والی فلمیں نمائش کے لیے کہاں پیش کی جائیں گی؟ اور ان فلموں کی درآمد کو کھلوانے کے لیے ملک کے تین بڑے میڈیا ہاؤسز کیوں تکلیف دہ درد میں مبتلا تھے؟اگر ذرا غور فرمائیں تواس وقت ملک میں فلموں کے درآمد کنندگان اور نمائش کنندگان تین بڑے گروہوں میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں جن کی سربراہی پاکستان کے تین بڑے میڈیا ہاؤسز (جیو، ایکسپریس اور اے آر وائی) کر رہے ہیں۔ باقی درآمد کنندگان یا تو ان کے طفیلی ہیں، یا کمیشن ایجنٹس۔ جب بھی کوئی فلم درآمد ہو رہی ہوتی ہے یا اسے منگوایا جانا مقصود ہوتا ہے تو یہ میڈیا ہاؤسز اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ایسی فلموں کے لیے ماحول بنانا شروع کر دیتے ہیں ، وہ ہر نیوز بلیٹن میں ان فلموں کی جھلکیاں دکھا کر عوام کا اشتیاق بڑھاتے ہیں اور سینما میں لگائی گئی ان فلموں کے ذریعے من کی مراد(سرمایہ) پاتے ہیں۔
فلموں کے نمائش کنندگان میں تین بڑے حصے دار ہیں ان میں سے ایک تو غیرروایتی سیٹھ جو حال ہی میں اس شعبے میں آئے ہیں (جن کا ذکر آئندہ سطور میں آئے گا) ، دوسرے مانڈی والاز (یعنی پیپلز پارٹی) اور تیسرے اپنے ڈی ایچ اے والے۔ لو کرلو گل۔ ملک کے طبقہ اشرافیہ کے تمام عناصرِ اربعہ تو اکٹھے ہو گئے تو باقی کیا بچا؟ پکچر ابھی باقی ہے دوست!!!!!! (باقی آئندہ)