میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محکمہ ماحولیات، ڈپٹی ڈائریکٹر نے انسپکٹرز کاچھاپہ مار اسکواڈ بنا لیا

محکمہ ماحولیات، ڈپٹی ڈائریکٹر نے انسپکٹرز کاچھاپہ مار اسکواڈ بنا لیا

ویب ڈیسک
پیر, ۲۷ دسمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

محکمہ ماحولیات کے ماتحت ادارے سیپا کے نان کیڈر ڈی جی کے مبینا فرنٹ مین اور دہری شہریت کے حامل ڈپٹی ڈائریکٹر نے انسپکٹرز پر مشتمل غیرقانونی چھاپہ مار اسکواڈ تشکیل دے دیا، اسکواڈ کے ذریعے کراچی کے چھوٹے صنعتکاروں سے ہر ماہ کروڑوں روپے غیرقانونی وصولی کا انکشاف ہوا ہے۔تفصیلات کے مطابق محکمہ ماحولیات کے ماتحت ادارے سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن اتھارٹی (سیپا) کے نان کیڈر ڈی جی نعیم مغل کے مبینہ فرنٹ مین اور سیپا میں اپنی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے باعث کالے کوے کا لقب پانے والے کینیڈین شہری ڈپٹی ڈائریکٹر کامران خان کیمسٹ کی سربراہی میں گوریلا مانیٹرنگ کارروائی شروع کی گئی ہے، کارروائی کرنے کے بعد ماحولیاتی انسپکٹرز روزانہ سہ پہر ڈپٹی ڈائریکٹر کامران خان کے کمرے کو مفقل کرکے وصولی کے اعداد وشمار چیک کرتے ہیں، وصولی سے تمام حصہ داروں کے پیکٹ بناکر کر حسب مراتب تمام بڑے لوگوں کے خاص آدمیوں یا فرنٹ مینوں کو حصہ پہنچادیا جاتا ہے۔سیپا کے افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ گوریلا مانیٹرنگ شروع کرنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ ایسی کارروائیوں کا سیپا میں کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا ہے اور کسی گھریلو صنعت کے مالکان یا انتظامیہ اگر چھاپہ مار گوریلا ٹیموں کے ساتھ کسی قسم کی مزاحمت کریں تو اُسے کار سرکار میں رکاوٹ ڈالنے کا عمل قرار دے کر مزاحمتی عناصر کے خلاف ایف آئی آر درج کرادی جاتی ہے۔افسر نے کہا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر کامران خان بنیاد ی طور پر لیبارٹری کا افسر ہے اور اس کو ماحولیاتی نمونے اکٹھے کرنے کے علاوہ فیلڈ کی کوئی بھی سرگرمی کرنے یا نگرانی کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے اس لیے زیادہ وصولی کا یہ طریقہ نکالا گیا ہے کہ اُسے چھوٹی چھوٹی گھریلو صنعتوں سے رقم بٹورنے کا کام سونپا گیا ہے تاکہ وصولی کے اہداف میں کوئی کمی نہ آئے۔افسر کے مطابق کچھ صنعتوں نے سیپا کے حکام کو دھمکی دی ہے کہ آئندہ اگر کامران خان کیمسٹ نے وصولی کے لیے اُن پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تو وہ ثبوتوں کے ساتھ اُس کے کالے کرتوت اعلیٰ عدالتوں میں پیش کردیں گے۔ مذکورہ افسر پر کینیڈین شہری ہونے کا مقدمہ درج ہونے کے بعد سیپا کے حکام اُسے اثر رسوخ والے صنعتی علاقوں میںبڑی صنعتوں میں بھیجنے سے اجتناب برت رہے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں