13 برس بعد بھی بےنظیر بھٹو کے قاتل آزاد
شیئر کریں
کراچی (رپورٹ: شعیب مختار) سابق وزیر اعظم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کو 13برس بیت گئے قاتل آج بھی قانون کی گرفت میں نہ آ سکے گذشتہ کئی دہائیوں سے سندھ پر حکمرانی کی دعویدار جماعت اپنے ہی پارٹی کو انصاف دلانے میں ناکام ہو گئی جیالے آ ج بھی اپنی عظیم لیڈر کوکھونے پر مایوس۔تفصیلات کے مطابق 27 دسمبر 2007کوراولپنڈی کے لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو کوعوامی اجتماع سے خطاب کے بعد قاتلانہ حملے میں شہید کیا گیا تھا جبکہ جلسے کے بعد ہونے والے دھماکے میں 27سے زائد جیالے بھی شہید ہوئے تھے جس کے بعدراولپنڈی کے تھانہ سٹی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا مقدمہ نمبر 471میں قتل،دہشتگردی اور اقدام قتل کی دفعات شامل تھیں۔ اس کیس کی تحقیقات پنجاب پولیس اور ایف آ ئی اے کے سپرد کی گئی تھی بعد ازاں کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں عالمی تنظیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا نام بھی سامنے آ یا تھا مگر انہیں چالان میں شامل نہ کیے جانے پر آج بھی سیاسی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے جبکہ کیس میں تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کو بھی اشتہاری قرار دیا گیا تھا جو 2009 میں امریکی ڈرون حملے ماراگیاتھا۔بے نظیر بھٹو قتل کیس کا مقدمہ 9برس 8ماہ تک انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں بھی زیر سماعت رہا اس دورانیے میں 141 گواہوں میں سے 68 گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کو ضروری قرار دیا گیا تھا 31اگست 2017کو کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جس میں 9 سال تک گرفتار رہنے والے پانچ ملزمان اعتزاز شاہ،حسنین گل،شیر زمان،رفاقت اور رشید احمد کو عدم ثبوت پر بری کیا گیا تھا جبکہ دو پولیس افسران جن میں سابق سی پی او سعود عزیز اور سابق ایس ایس پی خرم شہزاد شامل ہیں. غفلت کے مرتکب ٹھہرائے گئے تھے کو 17،17 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی دونوں پولیس افسران کو واقعے کے فوری بعد جائے وقوعہ کو دھو کر شواہد ضائع کرنے اور مقتول وزیر اعظم کا پوسٹ مارٹم نہ کروا کر کیس پر اثر انداز ہونے پر سزا سنائی گئی تھی جو حالیہ دنوں ضمانت پر رہا ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کو بین الاقوامی دہشتگردی بھی قرار دیا گیا ہے جس کے بعد بھی کیس کے مرکزی ملزمان آ ج تک قانون کی گرفت میں نہیں آ سکے ہیں شہید بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد پانچ سالوں تک اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی کیس کو حل کرنے سے متعلق کسی قسم کا سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے جس نے معاملے کی شفافیت پر کئی سوالیہ نشان داغ دیے ہیں۔