میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کووڈ۔19، نتائج دنیا بدل سکتے ہیں!

کووڈ۔19، نتائج دنیا بدل سکتے ہیں!

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۷ دسمبر ۲۰۲۰

شیئر کریں

جارڈڈائمنڈ

آج، کورونا وائرس کی بیماری (کووڈ۔19) دنیا کو تباہ کر رہی ہے۔ یہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو (شاید سب سے زیادہ لوگوں کو) متاثر، کچھ کو ہلاک، ہمارے عام معاشرتی تعلقات کو بند کرنے، بیشتر بین الاقوامی سفر کو روکنے اور معیشت و تجارت کی تباہی میں ملوث ہے۔ اس شدید بحران کے خاتمے کے بعد، اب سے چند سال کے بعد دنیا کیسی ہو گی؟ ایک وسیع پیمانے پر یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ویکسین جلد ہی ہم سب کو کووڈ۔19 کے خلاف حفاظت فراہم کریگی، افسوس اس بات کا امکان بہت کم ہے۔ بیماریوں سے ان کے ٹیکے لگنے سے بچنے کے امکانات مختلف ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، چیچک اور پیلے بخار کے خلاف کچھ ویکسینز دہائیوں سے دستیاب ہیں۔ تاہم فلو کے معاملہ میں ویکسین ایک سال سے بھی کم عرصہ کے لیے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ملیریا اور ایڈز کے خلاف ابھی تک کوئی ویکسین، اس کی تیاری کے لئے بہت زیادہ کوششوں کے باوجود، موجود نہیں ہے۔ فلو کا وائرس کثرت سے تبدیل ہوتا رہتا ہے، یا اس کے تناسب بدل جاتے ہیں اس لئے ہر سال ایک نئی ویکسین تیار کی جانا مشکل امر ہے۔ جہاں پولیو اور چیچک کے ٹیکے ہر ایک کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں، فلو اور ہیضے کی ویکسین ان میں سے نصف لوگوں کو ہی محفوظ بنا پاتی ہے۔ لہٰذا کووڈ۔19 ویکسین کی افادیت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔

ہم فرض کر لیتے ہیں کہ کووڈ۔19 کی موثر ویکسین وسیع پیمانے پر دستیاب ہو گی۔ اس سے دنیا کیسے تبدیل ہو گی؟ چین، امریکا، روس، برطانیا اور دیگر بہت سارے ممالک کے سائنس دان اس کو تیار کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اس سے ایک بدترین صورتحال سے ایک بہترین معاملہ تک پہنچنے اور اس کے درمیان عوامل کا پتا چلتا ہے۔کسی بدترین منظر نامے کی بہت سی علامات پہلے ہی ظاہر ہو چکی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر یہ ویکسین کارآمد ثابت ہوئی تو بھی، دنیا کے 7.7 بلین افراد کے لیے 7.7 بلین خوراکیں راتوں رات تیار اور دنیا بھر میں تقسیم نہیں کی جا سکتیں۔ اب تک کی صورت حالات کے مطابق ان کے لیے سامان بھی کم ہے۔ یہ شرط عائد کرنے کی تجویز بھی ہے کہ پہلی خوراکیں طبی عملے کے لیے مختص کر دی جائیں کیونکہ ہر ایک کو طبی عملے کی ضرورت ہوتی ہے جو باقیوں کے لئے ویکسین کا انتظام اور بیمار لوگوں کی دیکھ بھال کر سکے۔ ایسے امیر اور بااثر افراد، جو طبی عملہ نہیں ہیں، غریب اور عام لوگوں سے پہلے ویکسین تک رسائی کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ بین الاقوامی خودغرضی کا بھی امکان ہے۔ ایک ایسا ملک جس میں ویکسین تیار ہوتی ہے اس کی ترجیح یقیناً اپنے شہری ہوں گے۔ ابھی چند ماہ پہلے اس تفریق کا اندازہ ماسک کے حوالے سے ہو چکا ہے۔ جب ماسک بہت کم تھے اور چین سے پہلی کھیپ یورپ پہنچی تو اس وقت کشمکش کی صورت حالات ہیدا ہوئی جب چند ممالک نے اس سامان کو اپنے لئے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ بدترین بات یہ ہے کہ جن ممالک نے ویکسین تیار کر لی وہ اسے سیاسی یا معاشی حریفوں سے روک سکتے ہیں۔

اگرچہ خود غرض قومی پالیسیاں خود کشی کے مترادف ہوں گی۔ یہاں تک کہ کوئی بھی ملک اپنی حدود میں موجود بیماری کو ختم کر کے اپنے لیے کووڈ۔19 سے دیرپا تحفظ حاصل نہیں کر سکتا۔ آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں، کووڈ۔19 دوسرے ملک، جہاں وائرس کا خاتمہ نہیں ہوا تھا، سے ایسے ملک میں واپس آجائے گا۔ ایسا پہلے ہی نیوزی لینڈ اور ویتنام کے ساتھ ہو چکا ہے، جہاں سخت اقدامات سے مقامی سطح پر وبا کا خاتمہ ہو گیا تھا لیکن واپس آنے والے مسافروں کے ساتھ کووڈ۔19 کے نئے کیس سامنے آ گئے۔ اس سے یہ اہم نکتہ واضح ہوا کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک کووڈ۔19 سے محفوظ نہیں رہے گا جب تک یہ عالمی سطح پر حل طلب ہے۔

میں اس حقیقت کو خوشخبری سمجھتا ہوں۔ اس سے ہمیں عالمی سطح پر حل طلب دیگر عالمی مسائل خصوصاً ماحولیات کی تبدیلی، دنیا بھر میں وسائل کی کمی اور عالمگیر عدم مساوات کے سنگین نتائج شامل ہیں۔ جس طرح کوئی بھی ملک اپنی حدود میں موجود وائرس کا خاتمہ کر کے اپنے آپ کو کووڈ۔19 سے ہمیشہ کے لئے محفوظ نہیں رکھ سکتا، اسی طرح کوئی بھی ملک، صرف فوسل ایندھن پر انحصار کم اور گرین ہائوس گیسوں کے اپنے اخراج کو کم کر کے، ماحولیات کے تغیرات سے اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔ ماحولیاتی کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی کووڈ۔19 کی طرح سرحدوں کا احترام نہیں کرتی۔ ماحولیات میں بدلائو، وسائل کی کمی اور عدم مساوات موجودہ وبائی مرض سے کہیں زیادہ ہماری بقا اور معیار زندگی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ یہاں تک کہ بدترین صورتحال میں بھی، اگر زمین پر ہر انسان کووڈ۔19 کا سامنا کرنا پڑے اور اس کے نتیجے میں 2 فیصد لوگ مر جائیں تو بھی یہ صرف 154 ملین اموات ہوں گی۔ اس سے لگ بھگ 7.546 بلین افراد پھر بھی بچ جائیں گے جو انسانی بقا کو یقینی بنانے کے لیے کافی زیادہ ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی، وسائل کی کمی اور عدم مساوات سے درپیش خطرات کے مقابلہ میں کووڈ۔19 ایک بے کار اور حقیر شے ہے۔

تو پھر جب ہم کووڈ۔19 کے معمولی خطرے سے نمٹ رہے ہیں، تو کیا ہمیں ماحولیات کی تبدیلی اور ان دیگر عالمی خطرات کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ اس کا جواب واضح ہے: کووڈ۔19 فوری (کچھ دن یا ہفتوں کے اندر) اور غیر یقینی طور پر اپنے شکاروں کو بیمار یا ہلاک کرنے کے باعث توجہ کا مرکز ہے۔ اس کے برعکس ماحولیات کی تبدیلی ہمیں آہستہ آہستہ اور غیر واضح طور پر بالواسطہ نتائج، جیسے کم خوراک کی پیداوار، فاقہ کشی، موسم کے انتہائی واقعات اور منطقہ حارہ کی بیماریوں کو تپش والے خطوں میں پھیلانا، کے ذریعے ہلاک کرتی ہے۔ لہٰذا، ہم ماحولیات کی تبدیلی کو عالمی خطرہ کے طور پر تسلیم کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کووڈ۔19 کے وبائی مرض نے مجھے امید دلائی ہے، باوجود اس کے کہ اس نے میرے عزیز دوستوں کو مجھ سے چھینا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار، دنیا بھر کے لوگوں کو یہ تسلیم کرنا پڑ رہا ہے کہ ہم سب کو مشترکہ خطرہ ہے اور کوئی ملک اس کا مقابلہ خود نہیں کر سکتا۔ اگر دنیا کے لوگ کووڈ۔19 کو شکست دینے کے لئے، مجبوری کے تحت سہی، ساتھ مل جائیں تو وہ سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ ،مجبوری میں ہی سہی، ماحولیات میں بدلائو، وسائل کی کمی اور عدم مساوات کا بھی مشترکہ طور پر مقابلہ کرنے کے لئے متحرک ہو سکتے ہیں۔ کووڈ۔19 اس معاملے میں دنیا کے لوگوں کو ایک پائیدار راستہ پر گامزن کر کے نجات بھی دلائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں