میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قائداعظم اور خارجہ پالیسی

قائداعظم اور خارجہ پالیسی

منتظم
بدھ, ۲۷ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

عبدالماجد قریشی
پاکستان کا محل وقوع اس کے لیے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتوں کے معاملات پر بھی نظر رکھے اور اپنے وجود کو بامعنی بنانے کے لیے کوشاں ہو۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس کے محل وقوع کی روشنی میں ابھرنے والے چیلنجز کے تابع ہے اور ساتھ ہی ساتھ قومی سلامتی اور علاقائی سالمیت بھی اوّلین حیثیت رکھتی ہے۔

خارجہ پالیسی کے معاملے میں قائداعظمؒ کا وژن یہ تھا کہ امن سب کے ساتھ ہو، دشمنی کسی سے نہ ہو۔ فروری 1947 کے ایک نشریے میں امریکی عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ پاکستان کو بین الاقوامی تعلقات میں غیروابستہ رہنا چاہیے۔ قائدؒ کا کہنا تھا: ’’خارجہ پالیسی کے میدان میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ سب سے دوستی ہو اور کسی بھی ملک کے خلاف ناپسندیدہ عزائم نہ رکھے جائیں۔ ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت اور اصولی طریقِ کار اختیار کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ہماری تمام مساعی سے عالمی امن کو یقینی بنانے میں مدد ملے۔ پاکستان اقوام متحدہ
کے منشور کے مطابق زبوں حال اور جبر سے دوچار اقوام کی حمایت اور مدد سے کبھی گریز نہیں کرے گا‘‘۔

قائد نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو رہنما خطوط واضح کیے، اْن پر عمل کرنے سے پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے منشور سے ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی۔ بالخصوص عدم مداخلت، پْرامن بقائے باہمی۔ علاقائی سالمیت کے احترام اور دو طرفہ معاملات کو پْرامن طریقے سے حل کرنے کے معاملے میں۔

قائد اعظمؒ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کو جمہوریت، رواداری، اقلیتوں کے احترام، سماجی انصاف، آزاد منڈی کی معیشت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور حقیقی امن و استحکام کے معاملے میں دنیا کے لیے ایک روشن مثال کا درجہ اختیار کرنا چاہیے۔ قائد کی بصیرت کے مطابق پاکستان کی ممکنہ خارجہ پالیسی یہ ہوسکتی ہے کہ علاقائی سالمیت برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی حقیقی آزادی کو بھی زیادہ سے زیادہ تحفظ دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ایک جمہوری قوم میں تبدیل ہونے کے عزم پر کاربند رہتے ہوئے حقیقی علاقائی اور عالمی امن کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کی جائیں۔

اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ علاقائی صورت حال، پڑوسیوں سے تعلقات کی نوعیت، قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی مساعی، محلِ وقوع کی نوعیت اور گوناگوں اندرونی مسائل کے باعث پاکستان کی خارجہ پالیسی اب تک غیر معمولی نشیب و فراز کی حامل رہی ہے اور یہ سب کچھ بہت حد تک بیلینسنگ ایکٹ کا درجہ اختیار کرتا رہا ہے۔ اس پورے عمل میں پاکستان کو کئی جنگیں بھی لڑنی پڑی ہیں اور اس کی علاقائی سالمیت بھی شدید متاثر ہوئی یعنی اپنے رقبے کے ایک بڑے حصے سے محروم بھی ہونا پڑا ہے۔ پاکستان دو لخت ہونے کے بعد اب تک ایک جارح اور مخاصمت پسند پڑوسی کے ساتھ جی رہا ہے۔

پاکستان کی علاقائی سالمیت کو ہر حال میں ہر قیمت پر اولین ترجیح دی جائے۔ پاکستان کی علاقائی سالمیت ہر صورت ہمارے لیے بنیادی فریضہ ہونا چاہیے۔ پاکستان کو خارجہ پالیسی کے حوالے سے نیا روڈ میپ تشکیل دینا ہے جو درج ذیل نکات پر مشتمل ہو:قائداعظم کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں غیر جانبدار اور متوازن خارجہ پالیسی۔اقوام متحدہ کے منشور سے مکمل ہم آہنگی۔عالمی سطح پر منظور شدہ تمام حقوق اور آزادی سے متعلق اقدار کا مکمل احترام۔

پاکستان کو اپنے تمام پڑوسیوں بالخصوصی چین سے بہتر تعلقات استوار رکھنے ہیں اور اسلامی دنیا سے بھی رابطے بنائے رکھنے ہیں۔ وسط ایشیا کی ریاستوں سے بہتر تعلقات بھی ہماری ترجیح ہونے چاہئیں تاکہ ہمہ گیر ترقی کی راہ ہموار ہوسکے۔
پاکستان کی سرزمین کو کسی بھی ایسی سرگرمی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے جس کے نتیجے میں ملک کے لیے خارجہ پالیسی کے میدان میں غیر معمولی پیچیدگیاں پیدا ہوں۔ عسکریت پسندی کے لیے ہمیں زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کرنی ہے۔ عسکریت پسندی کو کسی بھی حال میں اور کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔

دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے بجائے اقوام متحدہ کے پرچم تلے عالمگیر امن کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ کسی بھی ملک کے لیے ناپسندیدہ صورت حال پیدا نہ ہو اور امن کے لیے اقدامات یقینی بنانے میں خاطر خواہ مدد ملے۔ ہم نے کشمیر پر اصولی مؤقف اختیار کیا ہے اور ہم اس کا پْرامن حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق چاہتے ہیں۔ جنوبی وسط ایشیا کے ممالک سے دوطرفہ اور خطے کی سطح پر ہر ایک کے لیے سودمند معاشی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سارک، ای سی او اور ایس سی او کا فریم ورک اپنایا جاسکتا ہے۔

ہمیں اپنے پڑوسیوں کو یاد دلانا چاہیے کہ ہمارے قائد نے1947 میں گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امن پسندی کی بنیاد پر استوار کرنے کا واضح اعلان کردیا تھا۔ گورنر جنرل بننے کے بعد بھی انہوں نے متعدد مواقع پر دنیا کو یقین دلایا کہ پاکستان ہر حال میں صرف امن کے لیے کام کرے گا اور اس سلسلے میں کبھی اپنے بنیادی اصولوں سے رو گردانی کا مرتکب نہیں ہوگا۔

ہمیں قائد اعظم کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں ایسی خارجہ پالیسی اختیار کرنی ہے جو کسی شخص کی پسند و ناپسند پر مبنی نہ ہو بلکہ ایک ادارے کی حیثیت سے مستحکم مقام رکھتی ہو۔ اسی صورت ہم بہتر انداز سے حکمرانی کے قابل ہوسکیں گے اور ہماری خارجہ پالیسی بھی تمام عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکے گی۔ پاکستان کو ایک ایسی خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جو اس کے اندرونی مسائل سے بہت زیادہ اثر نہ لے اور عالمی برادری کو بھی یہ بھرپور تاثر ملے کہ یہ ملک عالمی امن اور حقیقی استحکام میں اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور خواہش اور سکت رکھتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں