پاکستان کی سلامتی کے خدشات اورتحفظاتی اقدامات
شیئر کریں
میر افسرامان
نصرتمرزا صاحب ،سینئر صحافی،مشہور اینکر پرسن اور رابطہ ہ فورم انٹر نیشنل کے چیئر مین نے اسی فورم کے تحت پاکستان کی سلامتی،ایک کے پرامن نیوکلیئر پروگرام کے متعلق عوام میں آگاہی، پاکستان کے قومی دن کے موقوں پر پروگرام کرتے رہتے ہیں۔ اس سے ان کی وطن عزیز سے گہری محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں نصرت مرزا صاحب نے کراچی سے دور گلگت میں اپنی رابطہ فورم کی ٹیم کے ساتھ کر ۱۹۶۵ء کی جنگ پر پروگرام کیا۔ اس پروگرام میں یونیورسٹی کے پروفیسر،حکومتی اہلکار اور عوام نے بھر پور شرکت کی تھی۔انہوںنے کلگت سے واپسی پر اسلام آباد میں اس دوستوں کی ایک میٹینگ میں اس پروگرام کے متعلق معلومات مہیا کی تھیں جنہیں سن کر حالات سے آگاہی ہوئی۔اس سے قبل کراچی کے ایک ہوٹل میں پورے دن کا پروگرام کیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے پر امن استعمال ،جس میں صحت، ایکریکلچر اور انرجی پرکراچی کے مقامی ہوٹل میں ایک بڑا پروگرام بھی کر چکے ہیں۔ ملک میں سب سے بڑے اخبار جنگ میں پاکستان م کی سلامتی پر ان کے مضمون تسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اب انہوں کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں 22دسمبر 2017 کو رابطہ فورم انٹر نیشنل کے تحت’’ پاکستان کی سلامتی کے خدشات اور تحفظاتی اقدامات‘‘ کے عنوان سے پروگرام کیا۔ جس میں پاکستان کے دفاعی امور اورخارجہ امورکے ماہر اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔
شریک حضرات میں سا بق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر صاحب، سابق سفیرنجم الدین شیخ صاحب اور دیگر نے شرکت کی۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے فرمایا کہ اگر ملک میں معاشی بدحالی ہو گی تو ملک کا دفاع کرنا مشکل ہو جا تا ہے۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ کسی ملک کی سلامتی صرف دفاعی قوت کو مضبوط کرنے سے مستحکم نہیں ہوتی دیگر عوامل کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ پاکستان دفاعی اعتبار سے ایک مضبوط ملک ہے، ہم ایٹمی قوت ہیں اور اپنے روایتی حریف سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں، دفاعی قوت کے ساتھ ہمیں معاشی طور پر مستحکم ہونا ہوگا، بیرونی قرضوں سے جان چھڑانی ہوگی، خودانحصاری کی طرف بڑھانا ہوگا، اس کے ساتھ ہمیں سیاسی استحکام حاصل کرنا ہوگا، بدعنوان سیاسی ٹولے کا احتساب ہوجائے گا تو معاشی حالات بہتر ہونے لگیں گے، بدعنوانی سے بھی سلامتی کو خطرہ ہے، اس کے علاوہ ہمیں توانائی کے بحران پر قابو پانا ہوگا، اگرچہ اس حکومت نے توانائی کے حوالے سے کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن اب بھی ہماری انڈسٹری کو توانائی کی کمی کا سامنا ہے، انڈسٹری بند ہوگی تو بے روزگاری بڑھے گی ۔جس سے معاشرے میں بے چینی اور کرائم بڑھے گا، اسی طرح ہمیں پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ ہم زرعی ملک ہیں، زراعت کا انحصار پانی پر ہے۔ ہم نے دو بڑے ڈیم منگلہ اورتربیلہ بنانے کے بعد اس طرف توجہ نہیں دی۔ آج ہمیں پانی کی ہر حوالے سے کمی کا سامنا ہے، قومی سلامتی کے لیے معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی بھی ضروری ہے، ہمیں سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچ، مہاجر اور دیگر قومی سوچ سے بلند ہو کر پاکستانی بننا پڑے گا ۔تب مسائل کا حل بھی نکلے گا اور دشمن کو کرارا جواب بھی دے سکیں گے۔
سابق سفیرنجم الدین شیخ نے کہا کہ امریکا اپنے پاکستان کو سپلائی کردہ ایف سولہ جنگی جہازوں کے معاملے میں پاکستان سے تعاون نہیں کر رہا۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کا انحصار خارجہ اور داخلی دونوں سطح پر ہے، ہم دوست ممالک کے ساتھ مل کر خطے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، امریکا سے تعلقات میں کبھی سرد مہری آجاتی ہے لیکن یہ تعلقات ختم نہیں ہوںگے، دونوں ملکوں کا مفاد اسی میں ہے کہ تعلقات کو قائم رکھیں، کچھ دھمکیاں ملتی رہتی ہیں لیکن ہماری اُن کو ضرورت ہے، امریکا نے F-16 طیاروں کے اسپیئر پارٹس اور ہارپون میزائل کے آلات روک لیے، ہم نے اس کا متبادل ڈھونڈ لیا، ہمارا امریکا پر انحصار کم سے کم ہورہا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر سیما ناز صاحبہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ملک کی سیاسی لیڈر شپ کو ملک کی سنگین صورت حال کا اداراک نہ ہو تو ملک کی سلامتی خطرے میں پڑھ سکتی ہے۔پروفیسر صاحبہ نے مزید کہ کہا کہ جب سے پاکستان قائم ہوا ہے، اس وقت سے دشمن اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، مشرق کی طرف بھارت نے کبھی ہمیں پُرسکون نہیں رہنے دیا، اس طرح مغربی سرحد پر افغانستان کی طویل سرحدی پٹی پر دشوار گزار اور پہاڑی راستوں کی وجہ سے سیکورٹی کا مناسب نظام نہیں بن سکا۔ اگرچہ اب پاک فوج کی جانب سے اس پر کام ہورہا ہے۔ ہماری سلامتی کو دہشت گردی سے بھی خطرات ہیں۔ افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے جتھے آ کر ہمارے ملک میں کارروائی کرتے ہیں۔
امریکا بھی ہمیں مختلف طریقوں سے دھمکاتا رہتا ہے۔ داعش اور شدت پسند گروہ مل کر ہمیں نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدرتی آفات کے خدشات بھی درپیش ہیں۔ ہمیں اس طرف توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں ان خدشات سے نمٹنے کے لیے سیاسی استحکام، معاشی مضبوطی اور مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنی ہوگی۔ کسی دوسرے ملک پر مکمل انحصار بھی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ 70 سال ہوگئے مگر ہم خودانحصاری کی طرف قدم نہیں بڑھا سکے ہیں۔ معاشی خودانحصاری حاصل کرنی ہوگی۔ رابطہ فورم انٹرنیشنل کے چیئرمین نصرت مرزا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قیام کے بعد ہی سیکورٹی خدشات شروع ہوگئے تھے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ (جاری ہے )