کیاشام کے مظلوموں کے لیے آواز اُٹھانا فرقہ واریت ہے ؟ ( آخری حصہ )
شیئر کریں
سید عامر نجیب
ایک کروڑ سے زائد افراد کا بے گھر اور در بدر ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ جسے نظر انداز کردیا جائے ۔ اقتدار بچانے کے لیے خود اپنے عوام کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا ، شریف اور معصوم عورتوں کی عصمت دری کرنا ، بے رحمی کے ساتھ گنجان آبادیوں پر بمباری کر کے تباہی مچانا ، جنگ کے متاثرین کو خوراک ، امداد اور علاج معالجے سے محروم کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنا اس میں زیادہ تر یکطرفہ مظالم ہیں ۔ خورشید ندیم صاحب کہتے ہیں کہ دونوں طرف قاتل بھی مقتول بھی ہیں گویا وہ شام میں متحارب فریقوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتے ہیں وہ اس تناسب کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں جو دونوں طرف کے قاتل اور مقتولین میں پایا جا رہا ہے ۔ وہ اس حقیقت سے بھی صرف نظر کر رہے ہیں کہ جنگ کے عالمی قوانین کی دھجیاں کون بکھیر رہا ہے کون بے رحمی ، سنگدلی ، سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔
بشار حکومت کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں رہ گئی اپنے ملک اور اپنے عوام کو فتح کرنے کے لیے اس نے ہر اخلاقی اور قانونی حد پار کر لی ہے ۔ ظلم و بربریت کا جو مظاہرہ شام کے فساد میں بشار الاسد اور اس کے ہمنواﺅں نے کیا ہے وہ فرقہ وارانہ نفرت اور عصبیت کا اظہار ہے روس تو خیر کرائے کے قاتل کا کردار ادا کر رہا ہے لیکن ایران مشرق وسطیٰ میں موجود اپنی تمام طاقتوں کو مجتمع کر کے اس جنگ میں اپنی مرضی سے شریک ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق اس جنگ کے لیے پاکستان سے بھی بھرتیاں کی گئی ہیں اور شیعہ عسکریت پسندوں کو ایران سے ٹریننگ دے کر شام بھیجا جاتا رہا ہے۔ لہذا یہ تو واضح ہے کہ بشار الا سد کے فوجی اور ایران اور اس کے زیر اثر حزب اللہ کے سپاہی ایک مخصوص فرقے اور عقیدے کے بندھن میں بندھے لڑ رہے ہیں ۔ خورشید ندیم صاحب کا کہنا ہے کہ مسلک کو اس جنگ میں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ شام میں ظلم کرنے والے مسلک کو استعمال نہیں کر رہے بلکہ مسلک ہی کے لیے لڑ رہے ہیں، ایران شام کی شیعہ حکومت بچانے آیا ہے اور حزب اللہ کا مقصد بھی یہی ہے جبکہ دسری طرف سنی جنگجو داعش ، القاعدہ اور مقامی جتھوں کی صورت میں لڑ رہے ہیں ۔ داعش اور القاعدہ کا کردار خود سنیوں میں مشکوک بھی ہے اور متنازع بھی، سعودی عرب کے مفتی اعظم بھی ان کے خلاف فتوے دے چکے ہیں اور خود سعودی عرب اور وہاں کے حکمران ان تنظیموں کی ہٹ لسٹ پر بھی ہیں اور فتوو¿ں کی زد میں بھی ہیں ۔ اس جنگ کا شیعہ فریق اور ان کا امام تو خود اس جنگ میں اعلانیہ شریک ہے جبکہ سنیوں کا گلا یہ ہے کہ شام میں سنیوں کی اعلانیہ اور عملی مدد کے لیے کوئی سنی ریاست میدان میں نہیں کودی ۔ ترکی ، سعودی عرب اور قطر اگرچہ اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی سطح پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن عملی طور پر وہ انتہائی محتاط اور دفاعی نظر آرہے ہیں ۔ مذکورہ صورتحال میں اس حقیقت سے کیونکر انکار کیا جائے کہ عقیدوں کا اختلاف مشرق وسطیٰ کے انتشار کا ایک اہم سبب ہے ۔ یہاں صف بندی اسی بنیاد پر ہوئی ہے، فرق جارحیت اور دفاع کا ہے اور یقیناً اس تباہی کا اصل ذمہ دار جارح ہے۔ کیا خورشید ندیم صاحب دفاع کا حق بھی دینے کے لیے تیار نہیں ۔
خورشید ندیم صاحب کا یہ کہنا بھی بڑا عجیب ہے کہ اس تنازعے کا مسلمانوں سے بحیثیت مذہبی گروہ کیا تعلق ہو سکتا ہے ۔ یہ تنازع اگر مسلمانوں کا باہمی تنازع قرار پائے تب بھی اس کا تعلق مسلمانوں کے بحیثیت مذہبی گروہ سے ہوا، اس تعلق سے انکار کے بجائے اس کی حکمت عملی پر بات ہونی چاہیے اور اگر یہ انتشار مسلمانوں اور غیر مسلموں کی دشمنی کے سبب ہے جیسا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا عالمی تناظر میں تجزیہ کرنے والے بیان کر رہے ہیں تب بھی مسلمان بحیثیت گروہ اس سے کس طرح لا تعلق رہ سکتے ہیں ۔ خورشید ندیم صاحب قرار دیتے ہیں کہ ” پاکستانیوں کا بھی اس تنازع سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہمیں بطور مسلمان اور بطور پاکستانی اس جنگ سے دور رہنا چاہیے “ ۔دور رہنے سے اگر ان کی مراد یہ ہے کہ پاکستانی افغانستان کی طرح شام میں پرائیوٹ جہاد نہ کریں تو بات ان کی درست ہے ،شام میں عسکری مدد ریاست ہی کی سطح پر ہونا چاہیے لیکن اگر ان کی مراد یہ ہے کہ پاکستان میں شام کے مظلوموں کی مدد کے لیے رائے عامہ نہ بنائی جائے، حکومت سے مطالبات نہ کیے جائیں، شام میں ظلم کرنے والوں کی مذمت کے لیے کوئی احتجاج نہ کیا جائے۔۔۔ تو ایسا کہنا اخلاقی اور شرعی اعتبار سے تو ہے ہی غلط، ملکی مفاد کے اعتبار سے بھی درست نہیں۔
مشرق وسطیٰ کی صف بندی میں پاکستان کا اپنے دیرینہ دوستوں سعودی عرب ، ترکی اور قطر کے ساتھ کھڑے ہونا بہتر ہے جن سے پاکستان کے معاشی مفادات وابستہ ہیں یا غیر جانبداری کی پالیسی اپنا کر ان دوستوں کے گرمجوش تعلق میں سرد مہری لانا بہتر ہے ؟ پاکستان میں طاقتور لابی ان ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کے لیے کوشاں ہے کیونکہ وہ جن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں وہ پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کا تنہا تنہا شکار کھیلنا چاہتے ہیں ۔کیا خورشید ندیم صاحب بھی ان ہی کی آواز بول رہے ہیں ؟
محترم خورشید ندیم شام اور حلب کے مظلوموں کے لیے امن کے دائرے میں رہتے ہوئے اور جمہوری طریقے کے مطابق آواز اُٹھانے کو ملکی مفاد کے اس قدر خلاف سمجھ رہے ہیں کہ اسے ملکی سلامتی کے مسئلے کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور اسی لیے انھیں تعجب ہے کہ پاکستان میں بہت سی جماعتیں حلب کے نام پر لوگوں کے جذبات مشتعل کر رہی ہیں اور حکومت نیشنل ایکشن پلان کو بروئے کار نہیں لا رہی ۔ اگر اعتدال پسندی کا پرچم تھامنے والا اس قدر انتہا پسند ہوجائے تو اس تضاد کو کیا نام دیا جائے ؟ فرقہ واریت کے اسباب اگر سمجھ آسکیں تو حکومت کا شام کے مسئلے میں چپ سادھنا فرقہ واریت کا سبب بن سکتا ہے، شام کے مظلوموں کے لیے آواز بلند کرنا قطعی فرقہ واریت نہیں ہے ۔ فرقہ واریت کے اسبا ب کی بحث انتہائی ضروری ہے لیکن طویل ہے ،کسی اور موقع پر اس پر تفصیلی بات کروں گا۔ لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں اگر شام کے مسئلے میں خورشید ندیم صاحب کی سوچ کو سرکاری پالیسی بنادیا جائے تو پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ کو مزید ایندھن مل جائے گا ۔
٭٭