اور قلعہ فتح ہو گیا
شیئر کریں
اشتیاق احمد خان
جب بادشاہتیں قائم تھیں تو قلعہ کا تحفظ ہی بادشاہت کا تحفظ ہوتا تھا…. جب تک قلعہ پر بادشاہ کی عملداری قائم رہتی تھی بادشاہ کی بادشاہت بھی محفوظ رہتی تھی۔ اس لیے ہی قلعے بہت وسیع وعریض مضبوط اور محفوظ بنائے جاتے تھے، قلعے کی فصلیں بلند، انتہائی مضبوط ،کہ ان میں شگاف لگانا ممکن نہ ہو، چڑھ کر عبور کرنا عملاً خودکشی ہو۔ اسی طرح عمومی طور پر قلعے کی فصیلوں کے ساتھ گہری کھائیاں بنائی جاتی تھی کہ اس وقت دشمن کی فوجیں گھڑ سوار ہو ا کرتی تھیں اور گہری کھائیاں گھڑ سواروں کے لیے عبور کرنا ممکن نہ ہوتا تھا، دفاعی اخراجات کا بڑا حصہ قلعے کی حفاظت پر خرچ ہوتا تھا۔ بادشاہ کا محل بھی قلعے کے محفوظ ترین علاقے میں ہوتا تھا ۔بادشاہتیں ختم ہوئیں، جموریت طرز حکومت قرار پایا، مقررہ مدت میں عوام سے رائے لی جانے لگی، عوامی نمائندے تبدیل ہوتے رہے لیکن بادشاہت پھر بھی قائم رہی۔ صرف ایک فرق پڑا ہے اب بادشاہ ملک نہیںاپنی پارٹی کا مالک ومختار ہوتا ہے ۔
طرز حکومت کی تبدیلی نے ایک ملک میں ایک بادشاہ کے بجائے بڑی تعداد میں پارٹی بادشاہوں کو جنم دیا، تقریباً ہر پارٹی کا سربراہ اس کا بادشاہ ہے کہ نام کے لیے سی ای سی موجود ہوتی ہے، عہدیدار بھی منتخب ہوتے ہیں لیکن یہ سب بیگن نہیں بادشاہ کے ملازم ہوتے ہیں اور پارٹی بادشاہ کے اشارہ ابرو ان کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے بادشاہ دن رات جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ذہنوں اور دلوں میں بادشاہت قائم ہے ۔تقریباً ہر سیاسی بادشاہ پارٹی قیادت میراث کی طرح اولاد کے نام منتقل کرتا ہے اور مخصوص علاقوں کو اپنا قلعہ قرار دیتا ہے ،کسی نے لاڑکانہ اور سندھ کو اور کوئی کراچی اور حیدرآباد کو اپنا قلعہ قرار دے رہا ہے تو کوئی تخت لاہور میں مگن ہے ۔
لاہور کا شاہی قلعہ اب حکومت چلانے نہیں حکومت کے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے ،عمر کوٹ کا قلعہ سرکاری عُمال کی عملداری میں ہے لیکن حیدرآباد کا پکا قلعہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے ،یہ بادشاہوں کا مسکن بھی رہا ہے اور بادشاہ گر بھی۔ آج کے جمہوری دور میں جس نے اس قلعے میں اپنا قبضہ مضبوط کر لیا وہ کراچی اور حیدرآباد کا بادشاہ قرار پاتا ہے ،پھر کراچی اور حیدرآباد کے ” عوامی نمائندے ایم این ایز ،ایم پی ایز ،بلدیاتی نمائندے اور اس کے خواہش مند ” اسی بادشاہ کے گھر کا پانی بھرتے ہیں کہ جس بادشاہ ابرو کے اشارے سے کایا پلٹ سکتی ہے ،گنگو تیلی مایا رام بن سکتا ہے ۔
70 کی دہائی کے وسط تک مارکیٹ چوک حیدرآباد سندھ میں سیاسی ہوا کے بادپیما کا درجہ رکھتا تھا جس نے مارکیٹ چوک حیدرآباد میں کامیاب جلسہ کر لیا ،اس نے عملاً حیدرآباد میں عوام کے دل جیت لیے ۔1970 کے انتخابات سے قبل علامہ شاہ احمدنورانی صدیقی نے مارکیٹ چوک پر سب سے بڑا جلسہ کیا تھا اور پھر انتخابات میں علامہ کے نامزد مولانا محمد علی رضوی ہی کامیاب ہوئے تھے ،فرق بہت تھوڑا تھا ،اتنا ہی جتنا علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے جلسے اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے جلسے کی حاضری کا تھا ،حیدرآباد کی نشست پر جماعت اسلامی کے سید وسیع مظہر ندوی دوسرے نمبر پر رہے تھے ۔
پکا قلعہ حیدرآباد کو حیدرآباد اور شہری سندھ کے بادپیما کا درجہ 1977 کے انتخابات کے دوران ملا ۔پکا قلعہ میں پہلا بڑا سیاسی جلسہ پاکستان قومی اتحاد نے کیا تھا ،فروری 1977 میں پاکستان قومی اتحاد کے پکا قلعہ میں کامیاب جلسہ کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی شدید خواہش تھی کہ وہ بھی کسی طور پر اس میدان میں جلسہ کرے لیکن پی پی کی مقامی قیادت نے عوامی تیوردیکھتے ہوئے اس سومناتھ کی فتح سے گریز کا راستہ اختیار کیا کہ اس دیوتا کے قدموں میں سررکھنا سر کٹاناتھا۔
1977 کے انتخابات کے تقریباً4 ماہ بعد ہی ملک میں مارشل لاءلگ گیا تھا اور سیاسی سرگرمیاں ،جلسہ جلوس شجرِ ممنوع قرار پائے تھے ،1985 میں مارشل لاءکے خاتمے اور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ملنے کے بعد مارچ1986 میں جماعت اسلامی نے پکا قلعہ کو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ،مارچ1986 سے 31 اکتوبر 1986 تک اس میدان میں دو تین جلسے ہوئے لیکن 31 اکتوبر 1986 کے جلسے نے فیصلہ دے دیا کہ حیدرآباد اور شہری سندھ اب ایم کیو ایم کے رجواڑے کا حصہ ہیں ۔31 اکتوبر 1986 کا جلسہ عام ان حالات میں ہوا تھا کہ پہلے سہراب گوٹھ کراچی اور پھر مارکیٹ ایریا حیدرآباد میں مہاجر پٹھان ٹکراو¿ ہو چکا تھا ،ضلعی انتظامیہ جلسے کے آغاز سے قبل ہی شہر میں کرفیونافذ کرنے کا اعلان کر چکی تھی ،ضلعی انتظامیہ کی ہدایت تھی کہ رات 8 بجے سے کرفیو نافذ ہو جائے گا ،تمام لوگ اپنے گھروں کو چلے جائیں ۔ان حالات میں بھی صرف پکا قلعہ میدان نہیں ، گردونواح کی سڑکوں پر بھی عوام کا جم غفیر تھا۔ 31 اکتوبر1986 کو حیدرآباد کے پکا قلعہ نے ایک بادشاہت کو تسلیم کر لیا تھا، پکا قلعہ کیا فتح ہوا پورا حیدرآباد اور کراچی ہی فتح ہو گیا۔ 1987 کے بلدیاتی اور اس کے بعد ہونے والے تمام عام انتخابات اس بات کے گواہ ہیں کہ کبھی کبھی قلعہ کی فصیل کی ایک آدھ اینٹ تو ادھر ادھر ہوئی ہے قلعہ محفوظ رہا ہے۔
30 سال تک پکا قلعہ ایم کیو ایم کی بادشاہت کا مرکز اور محور رہا ،اس عرصے میں کسی پارٹی نے پکا قلعہ حیدرآباد میں جلسے کی اجازت ہی نہیں مانگی اور جس پارٹی نے اجازت مانگی اس کو بادشاہ کی خواہش کے احترام میں سیکوریٹی کا بہانہ بنا کر منع کر دیا گیا ۔
3 مارچ2016 کو دبئی کراچی فلائٹ سے وجود میں آنے والی ،پہلے بے نام اور پھر پاک سرزمین پارٹی نے جب پکا قلعہ حیدرآبادمیں جلسے کا فیصلہ کیا تو یہ پاک سرزمین پارٹی اور مقامی انتظامیہ دونوں کے لیے ایک امتحان کا درجہ رکھتا تھا ۔ضلعی انتظامیہ کا امتحان آسان تھا کہ اب حیدرآباد کراچی کے بادشاہ کا حال بھی مغل بادشاہوں جیسا ہو گیا تھا کہ ان کے اپنے قلعہ میں بھی عملداری عملاً ختم ہو گئی تھی ،کہ رعایا باغی ہو گئی تھی لیکن پاک سرزمین پارٹی کے لیے یہ جلسہ زندگی اور موت کا درجہ رکھتا تھا۔ جب اجازت مل گئی تو جلسے کو کامیاب بنانا ،عوام کو گھروں سے نکالنا ایک مسئلہ تھا ،پھر 9 دسمبر کو ڈوبتے بادشاہ اور اس کے اتفاقی باغیوں کے مبینہ ٹکراو¿ کے ذریعے خوف کی ایک لہر اُٹھانے کی کوشش کی تھی ،لیکن کہتے ہیں کہ جب زوال آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے ۔اس ٹکراو¿ سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہ ہوئے ،کہ مطلوبہ مقاصد تو اس وقت حاصل ہوتے جب خون گرتا، چند گھروں میں صف ماتم بچھتی ،موت کا فرشتہ اپنا کام دکھاتا ،میتیں اُٹھتی ںاور مقامی انتظامیہ کا خوف دلایا جاتا کہ یہ تو بادشاہ اور اس کے اتفاقی باغیوں کا ٹکراو¿ تھا ،حقیقی باغی کے مقابلے میں بادشاہ اور اس کے اتفاقی باغی یکجا ہونگے تو خون کی ندیاں بہہ سکتی ہےں ۔
ان حالات میں 23 دسمبر کا دن آگیا ،اس دن قلعہ کے محفوظ ہونے یا سرنگوں ہونے کا فیصلہ ہونا تھا ۔۔۔اور قلعہ سرنگوں ہو گیا۔پکا قلعہ نے بادشاہت کا تاج ایک بادشاہ کے سر سے اُتار کر دوسرے بادشاہ کے سر پر رکھ دیا ہے لیکن اب یہ تاج پھولوں سے سجا نہیں ،کانٹوں سے بھرا ہے ۔اس قلعے کی بادشاہت اور تاج بدلنے والوں نے 30 سال میں بہت کچھ دیکھاہے، سینکڑوں بچے یتیم ہوئے ہیں، عورتیں بیوہ ہوئی ہیں، ماو¿ں کی گودیں اجڑی ہیں، باپوں کے سہارے، بھائیوں کے بازو ،بہنوں کی امیدوں کے مرکز اور بیویوں کی وجہ ِ زندگی ان سے چھینی ہے۔ اب ایسا نہیں ہونا چاہیے، نئے بادشاہ کو بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہونگے ،بادشاہ بہادر شاہ ظفر نہیں، عدلِ جہانگیری قائم کرنا ہوگا، طرز اوزنگزیبی اختیار کرنا ہو گا۔ ورنہ نئے بادشاہ کا عرصہِ بادشاہت شیر شاہ سوری کی طرح مختصر بھی ہو سکتاہے اور معزول بادشاہ جلال الدین اکبر کی طرح واپس بھی آ سکتا ہے۔
٭٭