میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ،کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین کامسئلہ اٹھ گیا

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ،کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین کامسئلہ اٹھ گیا

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۷ نومبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) میں گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی کے لئے چیف سیکریٹری سندھ کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کردی ۔ کے ایم سی کے 12 ہزار سے زائد ملازمین کی حاضری کے لئے مینوئل حاضری رجسٹر کے علاوہ ملازمین کی حاضری کی پڑتال کا کوئی جدید مکینزم موجود نہ ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے ۔ پی اے سی نے کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین پر ماہانہ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے خدشے کے پیش نظر ملازمین کا ریکارڈ تمام ڈیٹا سمیت طلب کرلیا ہے ۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نثار احمد کھوڑو کی صدارت میں سندھ اسمبلی کی کمیٹی روم میں ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین خرم سومرو، قاسم سراج سومرو سمیت کے ایم سی کے میونسپل کمشنر افضل زیدی، ڈی جی آڈٹ لوکل گورنمنٹ سمیت دیگر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں کے ایم سی کی سال 2018سے سال 2021 تک آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔ پی اے سی اجلاس میں کے ایم سی افسران کے ایم سی کے تمام ملازمین کی ڈیٹا، سروس بک، پرسنل فائلز کی تفصیلات اور سال 2018کی کے ایم سی کی اے ڈی پی کی تفصیلات فراہم نہیں کرسکے ۔ پی اے سی چیئرمین نثار کھوڑو نے کے ایم سی کے میونسپل کمشنر سے استفسار کیا کہ کے ایم سی کے ٹوٹل کتنے ملازمین ہیں اور کتنے ملازمین ڈیوٹی پر آتے ہیں، ملازمین کی حاضری چیک کرنے کے لئے کیا مکینزم موجود ہے ؟ جس پر میونسپل کمشنر افضل زیدی نے بتایا کہ کے ایم سی کے 12ہزار سے زائد ملازمین ہیں جن کی حاضری چیک کرنے کے لئے صرف حاضری رجسٹر موجود ہے ، بائیومیٹرک سسٹم نصب نہیں اور کے ایم سی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس اپنے اپنے شعبے کے ملازمین کی حاضری کی تصدیق کرتے ہیں اور کوئی گھوسٹ ملازم نہیں ہے ۔چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کہا کے شہر کراچی سندھ کا کیپیٹل ہے اور کے ایم سی ملازمین کی حاضری صرف رجسٹر کے ذریعے مانیٹر کررہا ہے ، جدید دور میں بائیو میٹرک نظام کیوں نہیں ہے ۔ مینوئل حاضری رجسٹر ہونے سے ملازمین ایک دن آکر ایک ہفتے اور ایک ماہ کی حاضری لگا کر چلے جاتے ہیں۔ اگر تمام ملازمین ڈیوٹی پر آتے ہیں تو پھرآج ہی تمام ملازمین کا حاضری رجسٹر پیش کریں۔ میونسپل کمشنر افضل زیدی نے پی اے سی کو بتایا کے کے ایم سی میں 300ملازمین ایسے تھے جو ڈبل تنخواہیں لے رہے تھے اور وہ کے ایم سی کے ساتھ ساتھ سندھ پولیس میں بھی کام کر رہے تھے ان کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔چیئرمین پی اے سی نثار کھوڑو نے کہا کہ کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین اور گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کا عمل کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، محکموں میں ویزا سسٹم بند ہونا چاہئے اور کے ایم سی میں گھوسٹ ملازمین کی موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ؟ اس لئے کے ایم سی ملازمین کی ڈیٹا سمیت ملازمین کی انٹرنل آڈٹ کرائی جائے ۔ پی اے سی نے کے ایم سی کے ہر ماہ کروڑوں روپے گھوسٹ ملازمین پر خرچ ہونے کے خدشے کے پیش نظر کے ایم سی کے تمام 12 ہزار سے زائد ملازمین کا ریکارڈ تمام ڈیٹا سمیت طلب کرلیا اور پی اے سی نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں گھوسٹ ملازمین کی نشاندھی کے لئے چیف سیکریٹری سندھ کو تحقیقاتی کمیٹی قائم کرکے تحقیقات کروانے کی ہدایت کردی۔ اجلاس میں کمیٹی کے رکن خرم سومرو نے کے ایم سی افسران سے پوچھا کے کراچی میں کتنے قبرستان ہیں اور کراچی کے قبرستانوں میں کے ایم سی کے ملازمین گورکن بن کر فی قبر 40 ہزار روپے میں فروخت کر رہے ہیں اور ایک گورکن نے مجھ سے رشتے دار کی قبر کے لئے 40 ہزار روپے لیے ۔ جس پر میونسپل کمشنر افضل زیدی نے بتایا کے کراچی کے قبرستان میں فی قبر کی سرکاری فیس کی پرچی صرف 300روپے ہے ۔ پی اے سی اجلاس میں کمیٹی رکن قاسم سومرو نے افسران سے پوچھا کے کراچی میں کے ایم سی کے کتنے پارکس ہیں اور کتنے پارکس پر قبضہ ہے ۔ میونسپل کمشنر افضل زیدی نے پی اے سی کو بتایا کے کراچی میں کے ایم سی کے پاس 46 پارکس ہیں جن میں 90 فیصد پارکس فنکشنل ہیں اور کسی پر بھی قبضہ نہیں ہے ۔ پی اے سی اجلاس میں کراچی کی 202 نوٹیفائیڈ کچی ابادیوں کے 91 ہزار 495 گھروں اور 15 لاکھ سے زائد کمرشل یونٹس کو ریگیولر نہ ہونے سے سندھ کے خزانے کو 21 ارب سے زائد کا نقصان ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے جس پر پی اے سی نے کچی آبادیوں کی لیز اور ریکوری کے متعلق محکمے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں