تحریک انصاف کو بلے کے نشان سے محروم کرنے کی بھونڈی کوشش
شیئر کریں
الیکشن کمیشن کی جانب سے بلے کا انتخابی نشان برقرار رکھنے کے لیے 20 دن میں انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروانے کے حکم پرپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کوبظاہر ایک اور مشکل کا سامنا ہے کیونکہ پارٹی قیادت اور مرکزی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اس کے ہزاروں متحرک اراکین بھی جیلوں میں ہیں، ان حالات میں دوبارہ پارٹی الیکشن منعقد کرانے کے حکم سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملتی ہے کہ نادیدہ قوتیں کسی بھی قیمت پر عمران خان اور ان کی پارٹی کو الیکشن سے باہر رکھنا چاہتی ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔یہی وہ صورت حال ہے جس کے پیش نظرپاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو ’متعصبانہ‘ قرار دیتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات 13 جون 2021 تک ہونا تھے جو نہ ہو سکے، جس کے بعد اسی سال اگست میں الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کو ایک سال کی توسیع دی۔تاہم پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ پارٹی انتخابات جماعت کے آئین میں ترمیم سے پہلے کرائے گئے تھے، جبکہ الیکشن کمیشن کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ سال 8 جون کو اپنے آئین میں ترمیم کی اور 2روز بعد (10 جون 2022) کو انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔بعدازاں پی ٹی آئی کی جانب سے اس کے ترمیم شدہ آئین کی کاپی الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائی گئی، جسے کمیشن نے ناکافی قرار دیا تھا۔الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق 13 ستمبر کو محفوظ شدہ فیصلہ سنایا اور پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 20 دن میں دوبارہ الیکشن کا حکم دیا۔ اگرچہ نظر بظاہرلیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرانے سے متعلق جو فیصلہ دیا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ دیگر تمام جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن میں بھی ایسے ہی نامزدگیاں ہوتی ہیں جیسے تحریک انصاف کروا چکی ہے۔الیکشن قریب ہے، معاملہ عدالت گیا تو نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔اگر انہوں نے عدالت سے رجوع کیا اور موقف اختیار کیا کہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے انتخاب بھی آئینی تقاضے پورے نہیں کرتے اور وہ بھی نامزدگیاں ہی کرتے ہیں تو اس صورت میں ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا اور عدالت عام انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کرنا چاہے گی۔اگرچہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کے لیے انٹرا پارٹی کرانا مشکل ہیں اور پی ٹی آئی کا ہی نہیں عام لوگوں کا موقف بھی یہی ہے کہ چونکہ عمران خان اور ان کی پارٹی کو الیکشن سے باہر رکھنا مشکل تھا اور عمران خان کو الیکشن سے باہر رکھے بغیر من پسند انتخابی نتائج مرتب کرکے اپنے لاڈلے کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھانا ممکن نہیں تھا اس لئے الیکشن کمیشن نے اپنے خفیہ ہدایت کاروں کی روشنی میں عمران خاں کو انتخابی دنگل سے علیحدہ کرنے کے لیے یہ چال چلی ہے۔ لیکن ابھی عدالتوں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور تحریک انصاف اعلیٰ عدلیہ کے سامنے یہ موقف اختیار کرسکتی ہے کہ وہ بھی دوسری جماعتوں کی طرح پارٹی عہدوں پر بلا مقابلہ نامزدگیاں کر سکتے ہیں،اگر عدالت نے ان کے اس موقف کو تسلیم کرلیا توعمران خان، شاہ محمود قریشی اور چودھری پرویز الٰہی جیل میں بند ہونے کے باوجود قانونی طور پر الیکشن لڑ سکتے ہیں کیونکہ انہیں کسی عدالت کی جانب سے سزا نہیں سنائی گئی اس لیے وہ کسی الیکشن کے لیے نااہل قرار نہیں دیے گئے۔ عمران خان کو جو سزا ہوئی تھی وہ کالعدم قرار دی جا چکی ہے۔جہاں تک انتخابی نشان بلے کی بات ہے تو جب تک پی ٹی آئی کی رجسٹریشن موجود ہے، نشان انہی کا رہے گا۔ البتہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوششیں جاری ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانبداری پر بھی سوالات ہیں، پی ٹی آئی کے پاس ابھی عدالت سے رجوع کرنے اور دوبارہ پارٹی الیکشن کرانے کا آپشن موجود ہے۔ تحریک انصاف کے وکلا کے علاوہ عام وکلا کا موقف بھی یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معتصبانہ ہے اور تحریک انصاف کو بھجوائے گئے نوٹس میں کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کے غیر آئینی ہونے کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے بارہا درخواستوں کے باوجود انٹرا پارٹی انتخاب کے معاملے کو ایک مخصوص مقصد کے تحت بلاجواز التوا کا شکار رکھا۔تحریک انصاف کے ترجمان کاموقف ہے کہ پارٹی رہنماؤں کی چیف الیکشن کمشنر سے ہونے والی2ملاقاتوں میں پارٹی کو آئینی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی مگر فیصلہ اس کے برعکس دیا گیا ہے۔
صورت حال کچھ بھی ہو یہ بات اٹل ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق فیصلے کے بعد عام انتخابات سے کچھ ہی عرصہ قبل پہلے سے ہی مشکلات کا سامنا کرتی ملک کی اہم سیاسی جماعت کو ایک اور مشکل کا سامنا ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف 20 دن میں جماعتی انتخابات ازسرنو کرانے میں ناکام رہی تو اس صورت میں اسے اپنے انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد فوری ردعمل میں عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ عدالتی راستہ اختیار کرتے ہوئے اسے چیلنج کرے گی جبکہ دوسری جانب پارٹی کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ انٹرا پارٹی انتخابات کا بروقت انعقاد کرانے اور عام انتخابات میں بلے کو چلانے میں کامیاب رہے گی۔تاہم دوسری جانب تجزیہ کاروں کی جانب سے سوال کیا جا رہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں جب پارٹی کے اہم رہنما جیل میں یا روپوش ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات کرانا کس حد تک ممکن ہو سکے گا؟اس سوال کا جواب جاننے سے قبل دیکھنا یہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا ہے؟ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی 20 روز میں انتخابات نہیں کراتی تو وہ اپنے انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم ہو جائے گی اور ان کے امیدوار عام انتخابات میں اس نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔یہ تحریری فیصلہ الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ خان نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا کہ جون 2022 میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق جو رپورٹ کمیشن میں جمع کرائی گئی تھی وہ تنازعات اور شکوک و شہبات سے بھرپور تھی۔اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے پارٹی آئین 2017 کے مطابق تمام پارٹی عہدیدار4 سال کے لیے منتخب ہوئے جن کی مدت 13 جون 2021 کو ختم ہو گئی تھی۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 24 مئی 2021 کو انٹرا پارٹی انتخابات کی یاد دہانی کے لیے نوٹس بھیجا تھا تاہم پاکستان تحریک انصاف صاف و شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کسی صورت قبول نہیں جا سکتے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف مقررہ وقت میں ایک سال کی توسیع کے باوجود شفاف انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرا سکی۔جبکہ پی ٹی آئی کے وکلا کا موقف یہ ہے 13 جون 2021 سے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن التوا کا شکار تھے۔8جون 2022 کو پی ٹی آئی نے پارٹی کے آئین 2019 میں ترمیم کی اور 10 جون 2022 کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے بعد منتخب ممبران کی لسٹ (سرٹیفکیٹ) الیکشن کمیشن میں جمع کرائی۔انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے بعد 2022 میں ہی پی ٹی آئی کے پارٹی آئین میں ایک بار پھر ترمیم کی گئی اور پی ٹی آئی کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جمال انصاری نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ ہم نے آئین میں تبدیلی کی ہے۔تاہم بعد میں پارٹی کے وکیل بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن میں موقف اپنایا کہ پارٹی آئین میں ترامیم واپس لی جا چکی ہیں اور ایک نیا سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرایا گیا۔الیکشن کمیشن کے4 ارکان پر مشتمل بینچ نے اس سرٹیفکیٹ سے اتفاق نہیں کیا اور پی ٹی آئی کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے علاوہ 16 دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی شوکاز نوٹس جاری تھے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ شوکاز کا جواب نہ ملنے کی صورت میں الیکشن کمیشن انتخابی نشانات الاٹ نہیں کرے گا۔الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں کو انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے اور الیکشن ایکٹ کی دفعات 209 اور 210 کی خلاف ورزی پر زیر دفعہ 215(4) کے تحت شو کاز نوٹس جاری تھے۔تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ادارے کے مسلسل متعصبانہ رویے کے تناظر میں توقعات کے عین مطابق ثابت قرار دیاہے ا۔تحریک انصاف کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن نے بارہا درخواستوں کے باوجود انٹرا پارٹی انتخاب کے معاملے کو ایک مخصوص مقصد کے تحت بلاجواز التوا کا شکار رکھا۔ترجمان تحریک انصاف کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے نے پی ٹی آئی اور بالخصوص چیئرمین عمران خان کو انتخابات سے باہر رکھنے کی ریاستی سازش ایک بار پھر بے نقاب کر دی۔ ترجمان کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد آئینی قانونی اور سیاسی راستوں سے اس کے خلاف بھرپور چارہ جوئی کی جائے گی اور انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے چیئرمین عمران خان کی ہدایات کی روشنی میں کور کمیٹی آئندہ لائحہ عمل طے کرے گی۔
پی ٹی آئی کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں بلا تحریک انصاف کا انتخابی نشان تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔اسی طرح ترجمان تحریک انصاف کے مطابق ’عمران خان چیئرمین پی ٹی آئی تھے، چیئرمین پی ٹی آئی ہیں اور تاحیات چیئرمین پی ٹی آئی رہیں گے۔ اس مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے وکیل بیرسٹر گوہر کے مطابق الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ پارٹی کی کور کمیٹی میں پیش کیا جائے گا جس کے بعد الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ ہو گا۔تحریک انصاف کا موقف اپنی جگہ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ موجودہ صورت حال میں اگر قانونی راستے سے ریلیف نہ ملا تو بلے کا نشان برقرار رکھنے کے لیے کیا انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد ممکن ہو گا؟وہ بھی ایسی صورت حال میں جس میں سیاسی جماعتوں اور انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے مطابق جب ان کا ادارہ ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں منعقد کسی سیمینار میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں یا عہدیداروں کو مدعو کرتا ہے تو وہ گرفتاری کے خوف سے سیمینار میں شرکت سے انکار کر دیتے ہیں۔اگر موجودہ حالات کو مدنظر رکھیں تو جو بھی انٹرا پارٹی انتحابات میں حصہ لے گا اس کو یہ قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھانا ہو گا کیونکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں سے کیسا سلوک ہو رہا ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ کسی بھی عہدے کا امیدوار ہونے پر ان کے خلاف ممکنہ طور پر کوئی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔تاہم ان کا ماننا ہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے انٹرا پارٹی الیکشن پر عمل درآمد کوئی مشکل کام نہیں ہے۔’پی ٹی آئی کے آئین میں ترمیم کے بعد اگر عہدیداروں کا انتخاب نیشنل کونسل نے کرنا ہے تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ کونسل کے ارکان کی تعداد200سے 300 کے درمیان ہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کسی عہدے کے لیے کسی ایک امیدوار کے خلاف کوئی دوسرا امیدوار نہ ہو تو اس کو کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے۔انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج بھی کیا جا سکتا ہے جس کے بعد اس کے بھی امکانات ہوتے ہیں کہ عدالت الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کر دے۔لیکن اگر اعلیٰ عدلیہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھے تو اس جماعت کے امیدواروں کو یہ نقصان ہو گا کہ وہ پارٹی کا انتخابی نشان نہیں لے سکیں گے اور اس جماعت کے امیدواروں کو عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے الگ الگ نشان الاٹ جائیں گے اس طرح بظاہر الیکشن کمیشن عمران خان اور ان کی پارٹی کو بلے کے نشان سے تو محروم کرسکتاہے لیکن فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ عمران خان کے نام پر اگر کوئی کتے کے انتخابی نشان پر بھی الیکشن لڑے گا تو اسے اپنے مخالف سے کئی گنا زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں،الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے اس ملک کی تاریخ کو مدنظر رکھنا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ عمران خان کو بلے کے نشان سے محروم کرکے وہ عمران خان کے نام پر پڑنے والے ووٹوں کو کسی اور من پسند امیدوار کے ڈبے میں منتقل نہیں کراسکے گا۔ الیکشن کمیشن کو کسی بھی پارٹی کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کرنے یا الیکشن سے باہر رکھنے کے لیے ایسے بھونڈے طریقوں سے اجتناب برتنا چاہئے،الیکشن کمیشن کو یہ بات نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ اس سے پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے محبوب انتخابی نشان تلوار سے محروم کرنے کے باوجود من پسند نتائج حاصل نہیں جاسکے تھے اسی طرح ماضی قریب میں ایم کیوایم کو بھی اس کی پارٹی کے نشان سے محروم جانے کے باوجود انتخابات میں اس کی راہ روکنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی تھی،اب اگر الیکشن کمیشن یہ سمجھتاہے کہ عمران خان کی پارٹی کانشان بلا ان سے علیحدگی پر مجبور جانے والے لوگوں کی بنائی ہوئی یا ان لوگوں سے بنوائی گئی کسی نوزائیدہ پارٹی کو الاٹ کردینے سے عمران خان کا ووٹر اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے دے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگوں کو بیوقوف بنانا اب اتنا آسان نہیں رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔