میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سابق جج اور چیف جسٹس عام شہری ان پر تنقید ہو سکتی ہے،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

سابق جج اور چیف جسٹس عام شہری ان پر تنقید ہو سکتی ہے،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

ویب ڈیسک
هفته, ۲۷ نومبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیںکہ ریٹائرڈ ججز کے خلاف توہین عدالت نہیں ہوتی اور نہ ہی ریٹائرڈ ججز کے خلاف کی جانے والی کوئی پریس کانفرنس توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ ججز بڑے اعلیٰ عہدے اور مقام پر فائز ہوتے ہیں اور اس قسم کی باتوں کو ججز کو نظراندازکرنا چاہئے اور ایسی باتوں سے عدالت کی توہین نہیں ہوسکتی۔ سابق جج اور چیف جسٹس پر بھی تنقید ہو سکتی ہے اور ن پر تنقیدتوہین عدالت نہیں ہے۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر)میاں ثاقب نثار چاہیں تو ہتک عزت اور ہرجانے کا دعویٰ دائر کرسکتے ہیں۔جمعہ کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز شریف کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا ہونے کے حوالے سے سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزار مس کلثوم ایڈووکیٹ نے شاہد خاقان عباسی اور مریم نواز کے دائر درخواست دائر کرتے ہوئے مئوقف اختیار کیا تھا کہ دونوں نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور دیگر ججز کے خلاف پریس کانفرنس کی ہے اورمیڈیا سے بات چیت کی ہے اس لئے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ درخواست گزارنے کہا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے خلاف پریس کانفرنس سے ہمیں ذہنی اذیت پہنچی ہے اور دکھ پہنچا ہے۔انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس کے ذریعہ ججز کے خلاف قومی اور بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈہ کیا گیا اور انتشار پھیلایاگیا۔ پریس کانفرنس کرنے والوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہونا چاہئے تھا اوران کو جیلوں میں بھیجنا چاہئے تھا۔ درخواست گزار وکیل نے کہا کہ اگر انہیں سپریم کورٹ بھی جانا پڑا تو وہ جائیں گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ریٹائرڈ ججز کے خلاف توہین عدالت نہیں ہوتی اور نہ ہی ریٹائرڈ ججز کے خلاف کی جانے والی کوئی پریس کانفرنس توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں