عاصمہ جہانگیر کانفرنس اور اِدارے
شیئر کریں
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں کئی ایسے مقررین کو خاص طور پر مدعو کیا گیا جن کی واحد وجہ شہرت اِداروں کی تضحیک ہے اِداروں پر گرجنے اور برسنے والے یہ لوگ اپنی یاوہ گوئی کو اظہار کی آزادی کالقب دیتے ہیں مگر یہ کسی طور آزادی اظہار نہیں بلکہ انتشار پھیلانے کی یہ ایسی سوچی سمجھی سازش ہے جس کی کڑیاں بیرونِ ملک ملتی ہیں اسی لیے نام نہاد آزادی اظہار کو سوچی سمجھی سازش ا لکھا ہے اِس اِس کانفرنس میںدینی طبقے کوتو نمائندگی دینے سے دانستہ طور پر گریزکیا گیا مگربھارت سے برکھا دت سمیت ایسے لوگوں کو خاص طورپر بلایا گیا جو پاکستان اور پاکستانی اِداروں سے نفرت کرتے کسی ملک کو خاص طور پر نشانہ بنانا کسی طور آزادی اظہار کے زمرے میں شمار نہیں کر سکتے پھر بھی اِداروں کیسے یاوہ گوئی کو برداشت کر تے ہیں سمجھ نہیں آتا؟حالانکہ اِداروں کا وقار اور ساکھ ختم ہو نا نفرت پیداکرنے کا باعث بنتا ہے حیران کُن بات ہے کہ پاکستان میں این جی اوز اور دشمن ملک کی شخصیات کو پزیرائی دی جانے لگی ہے مگر ہمارے اِدارے نوٹس تک نہیں لیتے اِس خاموشی کی وجہ کیا ہے؟عالمی دبائو ہے یا فرائض سے غفلت ،جو بھی ہے ذمہ داران اپنے اطوار پر نظرثانی کریں۔
آزادی اظہار کے نام پر کوئی ملک کسی کو اپنے اندرونی معامالات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا اگر کوئی سینہ زور ی کا مظاہرہ کرے تو آزاد وخود مختار ممالک کاروائی کرتے ہیں ترکی میں قید حکومت مخالف رہنما عثمان کوالا کے خلاف جاری مقدمے کے بارے میں اٹھارہ اکتوبر کو امریکا ،جرمنی فرانس،ناروے ،سویڈن،نیوزی لینڈ ،فن لینڈ،کینڈا،ڈنمارک اور نیدرلینڈ کے سفیروں نے مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا کہ جاری مقدمے کو منصفانہ طریقے سے جلد اجلد انجام تک پہنچایا جائے جس پر ترک وزارتِ خارجہ نے بیان کو غیر زمہ دارکہنے کے ساتھ اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے پہلے وضاحت طلب کی بعدازاں صدر طیب اردوان نے مداخلت کے مرتکب سفیروں کو ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا جس پر سفیروں کو معافی مانگنا پڑی لیکن ہمارے یہاں صورتحال اتنی خراب ہے کہ دشمن ملک کے لوگ ہمارے اِداروں کی ساکھ پر حملے کرتے ہیں لیکن ہم کچھ کرنے کی بجائے جواب میں مہر بہ لب رہتے ہیں قوم پوچھتی ہے اِس مصلحت کی وجہ کیا ہے؟ ۔
یہ منظور پشتین ،افراسیاب خٹک اور علی احمد کرد جیسے لوگوں نے عاصمہ جہانگیر کے نام پر جو تماشہ لگایا ایسے تماشوں کی کوئی ملک اجازت نہیں دیتا دور کیوں جائیں ہمسایہ ملک کی صورتحال دیکھ لیں وہاں ہر مسلمان ،سکھ ،عیسائی اور دلت غدار ہے سابق وزیرِ خارجہ سلمان خورشید کا ہندو نظریے پر تنقید کی پاداش میں گھر جلا دیا جاتا ہے نوجوت سنگھ سدھو اچھے انتظامات پر عمران خان کو بڑا بھائی کہتا ہے تو انتہا پسند ہندو اُسے پاکستان جانے کے مشور ے دیتے ہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت پر خوشی کا ظہارکرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کے پرچے ہوتے ہیںکوئی بھی شخص بھارتی فوج یا جنرل کے خلاف لب کشائی کی جرات نہیں کر سکتا لیکن ہمارے ہاںماورائے عدالت قتل اور مسنگ پر سن کے نام پر اِداروں کو ہدفِ تنقید بنانے والے اِتنے خود سر ہو چکے ہیں کہ عسکری نام لیکر الزام تراشی کرتے اور غدارہونا تسلیم کرتے ہیں لیکن مذمت کرناتو درکنا رایسے لگتا ہے کوئی نوٹس تک نہیں لیتاکیا اِداروں سے تنقید کرنے والے اذیادہ طاقتور ہیں؟ ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یاوہ گوئی کرنے والے تو بلاروک ٹوک اپنی مذموم حرکتوں میں مصروف ہیں مگرملک میں اُنھیں آئینہ دکھانے والا کوئی نہیں شاید ایک وجہ تو یہ ہے کہ اِداروں کی طرف سے ذرائع ابلاغ پر جواب دینے کا مناسب طریقہ کار نہیں نہ ہی کسی تقریب میں جا کر اظہارِ خیال کیا جاسکتاہے لیکن یہ جو درجنوں کے حساب سے حکومتی ترجمان سارادن میڈیا پر شورشراباکرتے ہیں وہ کیوں اِداروں کی ساکھ سے کھیلنے والوں کو جواب دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں؟ کچھ عرصے سے پاک فوج کے خلاف عالمی سطح پر اور ملک میں منظم طریقے سے پراپیگنڈہ جاری ہے افسوس کی بات ہے کہ کسی سیاسی رہنماکو اِس زہریلے پراپیگنڈے کا احساس تک نہیں شاید اُنھیں پاک فوج کے حق میں بات کرنا نفع بخش کام نہیں لگتا مگر اِداروں کے خلاف چلنے والی مُہم سے محب الوطن حلقے سخت مضطرب ہیں کیونکہ کچھ عرصے سے ناقدین کی تعداد بڑھنے لگی ہے جس کا فوری توڑ ازحد ضروری ہے۔
بھارت میں کوئی شخص پاک فوج اور پاکستان کے حق میں نعرے نہیں لگا سکتا نہ ہی اسرائیل میں ایسی حرکت کا سوچا جا سکتا ہے مگر پاکستان میںآزادی اظہار کے نام پر ایسی کھلی چھٹی ہے کہ لوگ بھارت ،اسرائیل اور امریکا کے حق میں نعرے لگاتے اور اُن کی افواج کو دعوت دینے تک دینے لگے ہیں یہ آزادی اظہار نہیںبلکہ غداری میں شمار ہوتاہے ہر کام کی حدود و قیود ہوتی ہیں توسوال یہ ہے کہ اِداروں پر الزام تراشی کی کھلی چھٹی کیوں ہے؟جو ہمارے ہیرو ہیں انھیں چند کٹھ پُتلیاں زیرو ثابت کرنے میں مصروف ہیں لیکن ایسے لوگوں کو منہ توڑ جواب دینے کی بجائے ہر طرف خاموشی ہے ۔
اگر پاکستان میں آزادی اظہار پر پابندیاں ہوتیں تو کسی کو اِداروں کی ساکھ سے کھیلنے کی جرات ہوتی؟ ہر گز نہیں ۔یہ جو مظلومیت کے دعویدار ہیں کیا انھیں معلوم نہیں کہ قوم کے سپوت جان اور خون کے نذرانے دیکر وطن کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں لیکن چند اغیار کے راتب خور کیوں اپنے وطن کے سپوتوں کومایوس کرنا چاہتے ہیں یہ جو بھی ہیں انھیں بے نقاب کرنے کے ساتھ کیے کی سزا ملنا ضروری ہے تاکہ پھر کسی کو وطن کے رکھوالوں پر انگلی اُٹھانے کی ہمت نہ ہو ذیادہ نرمی بھی کمزوری کاہی دوسرا نام ہے ملک و ملت کے دشمنوں سے جو سلوک عا لمی اقوام کرتی ہیں وہی طریقہ کار ملک میں رائج کیا جانا ہی انصاف ہے عاصمہ جہانگیر کانفرنس اگر مکالمے کی شکل ہوتی تو عوامی مسائل پر اجاگر کرنے اور محرومیوں کو دور کرنے کی تجاویز سامنے آتیں مگر عوامی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے پاک فوج اور عسکری قیادت کو نشانے پر رکھاگیا یہ زہریلی باتیںکرنے والے انسانی شکل میں دراصل سنپولیے ہیں جنھیں کچلنے میں ہی ملک وقوم کی فائدہ ہے ہجوم کی بجائے قوم کے قالب میں ڈھلنے کی ضرورت ہے ۔
افریقی ملک ایتھوپیا کے وزیرِ اعظم ابی محمد نے کارِ مملکت نائب وزیرِ اعظم کو سونپ کر خود حکومت مخالف عسکریت پسندتیگرائی باغیوں کے خلاف فوج کے ساتھ اگلے مورچوں پرجاکر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے عالمی خبررساں اِداروں کے مطابق تیگرائی باغیوں نے دارالحکومت ادیس بابا کی جانب مارچ کرنے کا اعلان کرنے سے پہلے ہی ملک کے کئی شہروں پر قبضہ کر لیا ہیںجس پر وزیرِ اعظم نے اختیارات دستبرداری کی قومیں ایسے بنتی ہیں جب ملک پر مشکل وقت آئے تو سب قومی سلامتی کے امور پر ایک ہوجاتے ہیں لیکن ہم جانے کن خیالوں میں مگن ہیں خوابِ غفلت سے جاگنے کا وقت ہے تاکہ انسانی شکل والے سانپ اور سنپولیے ملکی سالمیت کو نقصان نہ پہنچا سکیں اللہ کا شکر ہے کہ پاک فوج ہر قسم کی بیرونی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن آزادی اظہار کی آڑ میں اغیار کے کاندوں کی سرکوبی عوامی تعاون سے ممکن ہے ایتھوپیا جیسے ملک کے وزیرِ اعظم سے سبق حاصل کر لیں کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنسوں کی بجائے وطن کے اِداروں کی توقیرکا دفاع ہی اصل حب الوطنی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔