میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دین اسلام میں انسانیت کی قدر و اہمیت

دین اسلام میں انسانیت کی قدر و اہمیت

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۷ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

اسلام دنیا کا ایسا مذہب ہے جو انسانیت کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے جس نے تمام حقوق اس کی حیثیت کے مطابق رکھ دیے،اسلام امن سلامتی و آشتی کا دین ہے جس میں کوئی جبر نہیں،اتنا آسان مذہب کوئی نہیں جتنا اسلام ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں جو ہم وقت گزارتے ہیں ہر طرح کی ہماری رہنمائی اسلام ہی کرتا ہے اور ہمیں اچھی زندگی گزارنے کے اصول بتا تا ہے، اگر ہم صحیح معنوں میں اسلامی تعلیمات اور سنت نبوی ؐ پر عمل کریں تو ہماری زندگی جنت بن جائے، جب سے ہم نے اسلامی تعلیمات اور نبی کریمؐ کے اسوہئ حسنہ کو چھوڑا ہے اس وقت سے آسیب،مصائب،مشکلات اور پریشانیوں نے ہمیں آگھیرا ہے۔ اسلام محض عبادات کا نام نہیں ہے، اسلام انسانی زندگی کے جملہ معمولات اور معاملات کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے، یہ واحد الہامی دین ہے جو انسان کو سونے، اٹھنے، جاگنے، کاروبار کرنے، دوسروں کے ساتھ معاملات کرنے کی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے، قرآنی انسائیکلوپیڈیا کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زندگی کو درپیش کوئی معاملہ اور شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں قرآن مجید انسانیت کو رہنمائی مہیا کرتا نظر نہیں آتا۔آج مسلم امہ کا سب سے بڑا مسئلہ قرآن و سنت کے مطالعہ سے دوری ہے، ہم سنی سنائی باتوں پرجب عمل کرتے ہیں تو یہیں سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن و سنت کا مطالعہ بھی کرے اور آیات ربانی کے حوالے سے غور و فکر اور تدبر سے کام لے۔ اسلام میں نیکی کا جو جامع تصور پیش کیا گیا ہے، اس میں خدمت خلق، حقوق انسانیت،رہن سہن اور معاشرت بھی ایک لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے۔ اللہ کی محبت میں اپنامال قرابت داروں،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والے(حقیقی ضرورت مندوں) اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔(البقرۃ 2:177)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا:کامل مومن وہ ہے جس کی ایذا سے لوگ مامون و محفوظ ہوں۔(بخاری)نیز یہ بھی فرمایا:بہترین انسان وہ ہے جس سے دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچے(کنز العمال)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: ملاقات ہونے پر سلام کرنا،چھینک آنے پر رحمت کی دعا دینا،بیماری میں عیادت کرنامرنے پر جنازے میں شرکت کرنا جوخود کوپسند ہو، وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرنا(ترمذی)۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بنی اسرئیل میں ایک بدکار عورت ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے سے جنت میں چلی گئی جب کہ بنی اسرائیل ہی کی ایک پارسا عورت ایک بلی کو محبوس کرکے بھوک پیاس سے ماردینے کے سبب جہنم رسیدہوئی(ترمذی)۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجس کسی کا کوئی غلام ہو تو اس غلام کو وہی لباس پہنائے جو خود پہنتا ہے، وہی کھانا کھلائے جو خود کھاتا ہے۔ اس کے ذمہ اتنا کام نہ لگائے جو اس پرغالب آئے،(اگروقتی ضرورت سے) ایسا کیا تو پھر اس کا ہاتھ بٹائے(بخاری و مسلم) مزید فرمایاجب تم میں سے کسی کاخادم اس کو آگ کی گرمی اور دھویں سے بچا کر اس کے لیے کھاناتیار کرے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھاکر کھانا کھلاؤ! ورنہ کم از کم ایک لقمہ اس کے منہ میں ڈال دو(ترمذی)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اپنے آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں: اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ مسلمانوں کے بڑوں کا احترام کرے۔ چھوٹوں پر شفقت کرے۔ علما ء کی تعظیم کرے۔ کسی کوتکلیف دے کر ذلیل نہ کرے۔ ڈرا ڈرا کر کافر نہ کرے۔ خصی کرکے نسل کشی نہ کرے۔ اپنا دروازہ ان کے لیے بند نہ کرے، یہاں تک کہ کمزوروں پر طاقت ور ظلم کرنے لگ جائیں (سنن کبری للبیہقی)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاتم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہترین ہو۔ (سنن ترمذی،صحیح ابن حبان)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجودنیامیں کسی مصیبت زدہ سے کسی دنیاوی تکلیف اور مصیبت کودور کردے (یا دورکرنے میں مددکردے)تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن اُخروی مصیبت کو ہٹادیں گے نیز جودنیا میں مشکلات میں گھرے ہوئے کسی شخص کے لیے آسانی پید ا کرنے کی کوشش کرے تواللہ تعالیٰ اس کے لیے (دونوں جہاں کی)آسانیاں پیدا فرمادیں گے اوراللہ تعالیٰ اس بندے کی مسلسل مدد فرماتے ہیں جو کسی اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے(ترمذی)۔ رسول اللہﷺ نے جو مربوط نظام،انسانی حقوق کا پیش کیا، وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے، حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اسے ادا کرنا پڑے گا، ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی،انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے، اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ بعثت نبویؐ سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے رسول اللہﷺ نے انسانی جان کا احترام سکھایا۔ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا،دہشت گردی،انتہاپسندی،بدامنی اور قتل وغارت گری کی بناء پر انسان کا جو حق سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے،وہ اس کی زندگی اور احترام انسانیت کا حق ہے۔اسی طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے برابر قرار دیا،خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، سفید ہوں یا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہوں یا عورت اور چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، بیوی شوہر کے حقوق ادا نہ کرے تو شوہر کی زندگی کا سکون غارت ہوجائے گا، پڑوسی ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کریں تومحبت و امن کی فضا مکدر ہوجائے گی۔اسی طرح مسلم غیر مسلموں کے حقوق ادا نہ کریں تو دنیا تعصب و عناد اور فتنہ وفساد کے جنگل میں تبدیل ہوجائے گی، امیر لوگ غریبوں کے حقوق ادا نہ کریں تو غریبوں کی زندگی فاقہ کشی کا شکار ہوجائے گی، بالکل اسی طرح ماں باپ اولاد کے حقوق ادا نہ کریں تو اولاد نافرمان، باغی، دین سے دور اور والدین کے لیے مصیبت و وبال بن جائے گی اور اولاد ماں باپ کے حقوق ادا نہ کرے تو ماں باپ کو بڑھاپے میں سہارا اور سکون نہیں ملے گا۔غرض یہ کہ دنیا میں فساد ہی فساد برپا ہوجائے گااور امن قائم نہ رہ سکے گا، پس امن کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے وہ تمام حقوق، جو اللہ تعالیٰ نے لازم کیے ہیں، ادا کرتے رہیں،یہی اسلام کی اولین تعلیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامقصد بعثت ہے،حضور نبی اکرمﷺ نے اہل ایمان کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ ان فرائض کو ادا کریں جو ان پر ان کے والدین، بچوں، عورتوں، ان کے پڑوسیوں، غلاموں اور ذمیوں وغیرہ کی طرف سے عائد ہوتے ہیں۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ آج خود مسلمانوں نے اسلام کی ان پیاری آفاقی تعلیمات کو بھلادیا ہے، ریاست اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہے اور نہ ہی فرد واحد اپنے اوپر عائد حقوق کی ادائیگی کر رہا ہے، جس کا نتیجہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔آج ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات سے ہم خود بھی آگاہ نہیں ہیں اور دنیا کو بھی ان سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہمیں صحیح طور پر محسوس نہیں ہو رہی ورنہ حقوق کا جو جامع اور متوازن تصور دین اسلام نے دیا ہے، دنیا کے کسی نظام میں اس کا کوئی متبادل نہیں ہے،آئیے! اسلام کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ان شاء اللہ ہماری زندگی سہل ہو جائے گی اور مشکلات و پریشانیاں ختم ہو جائیں گی اور زندگی جنت نظیر بن جا ئے گی،اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی آفاقی تعلیمات اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہء حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں