بحریہ ٹاؤن ،ریاض ملک کا الاٹیز کو سپریم کورٹ کے سامنے ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا ہتھکنڈہ
شیئر کریں
بدنام زمانہ لینڈگریبر ریاض ملک اپنے غیر قانونی منصوبے بحریہ ٹاؤن کرچی کے خلاف سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے دائر شدہ اپیل کی سماعت میں روایتی تاخیر کافائدہ اُٹھانے کیلیے سرگرم ہوگئے ہیں، اپنے آزمودہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک طرف تو وہ اپیل کی سماعت کو باربار التوا میں ڈالنے میں کامیاب ہورہے ہیں اور دوسری جانب انہوں نے بحریہ ٹاؤن کراچی میں الاٹیز کو تیزی سے قبضے دیناشروع کردیے ہیں تاکہ انہیں عدالت عظمیٰ کے روبرو ڈھال کے طور پر استعمال کیاجاسکے۔
تفصیلات کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی منصوبے کو بنیادی طور پر غیر قانونی قراردیے جانے کے بعد ایک طرف نہ صرف ریاض ملک نے منصوبے کی بھاری تشہیری مہم جاری رکھی ہوئی ہے، بلکہ دوسری طرف زوروشور سے ترقیاتی کام بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے جارہے ہیں۔ رواں ماہ کے دوران انہوں نے اس غیر قانونی منصوبے کے مختلف بلاکس میں لوگوں کو پلاٹس،مکانات اور دکانوں کے قبضے دینا بھی شروع کردیے ہیں، جبکہ الاٹیز کو نجی بینک ایسکورٹ انوسٹمنٹ بینک سے آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی جارہی ہیں۔اس ضمن میں یہ قانونی نکتہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ابھی ریاض ملک کی اپیل زیرسماعت ہے اور جب تک اپیل کا حتمی فیصلہ نہیں ہوجاتا تب تک عدالت عظمیٰ کو تین رکنی بینچ کے فیصلے کی رو سے اس منصوبے کو غیر قانونی ہی سمجھا جائے گا،چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے ان کی اپیل پر عبوری حکم جاری کرتے ہوئے محض الاٹیز سے وصولیا بیاں جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔
ذرائع کے مطابق ریاض ملک نے اس اجازت کا بھرپور طریقے سے ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے اور اپنے خلاف فیصلے کے بعد بھی عوام سے کم از کم 100ارب روپے بٹورچکے ہیں،سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو انہوں نے خود آگاہ کیاتھا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی نے اپنے منصوبے کیلیے عوام سے 333ارب روپے کی وصولیاں کی ہیں، جبکہ اب فیصلے کے خلاف اپیل کی آخری سماعت کے موقع پر انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اب تک 427ارب روپے لوگوں سے وصول کرچکے ہیں، گویا سپریم کورٹ میں 5ارب جمع کراناان کیلیے فائدے کاسودارہا،اپیل کی گزشتہ سماعت کی کارروائی سے قانونی حلقوں نے اندازہ لگایا کہ چیف جسٹس خود بھی اپنے عبوری فیصلے سے مطمئن نہیں، انہیں اچھی طرح اندازہ ہوچکاہے کہ ریاض ملک نے اعتزاز احسن کو استعمال کرکے وقتی طور پر عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی،تا ہم قانونی حلقوں میں چیف جسٹس کا ریاض ملک سے آخری سماعت پر ہونے والا مکالمہ بھی زیر بحث ہے، سوال کیا جارہاہے کہ اگر ریاض ملک ڈیم فنڈ میں ایک ہزارارب روپے دے بھی دیں تب بھی بحریہ ٹاؤن کراچی کو قانونی تحفظ کیسے دیاجاسکتا ہے؟اس حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ساتھ زمین کے جس تبادلے کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے غیر قانونی قرار دیاوہ تو محض 12ہزارایکڑاراضی کا تھا، لیکن مختلف سرویز کے دوران یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ریاض ملک اس تبادلہ شدہ اراضی کے علاوہ اضافی طور پر 28سے 29ہزار ایکڑمزید اراضی بھی قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور اس پر طاقت کے ذریعے زبردستی ترقیاتی کام کرواکر لوگوں کو پلاٹس وغیرہ فروخت کرچکے ہیں، اب اگر بالفرض سپریم کورٹ ایم ڈی اے کے ساتھ زمین کا تبادلہ تسلیم کرے تب بھی یہ زائد ہزاروں ایکڑ اراضی تو کسی بھی صورت ریاض ملک کو نہیں دی جاسکتی اور سپریم کورٹ کو تو ویسے بھی زمین الاٹمنٹ کا اختیار نہیں، پھر اس زائد اراضی کا کیا ہوگا؟ یہ بھی ایک سوال ہے،دوسری جانب اس غیر قانونی منصوبے میں جاری کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے شہر بھر کے بلڈرز میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔
تعمیراتی صنعت سے وابستہ لاکھوں افراد کاکہنا ہے کہ شہر بھر میں 6منزل سے زائد تعمیرات پر پابندی ہے، لیکن ریاض ملک دھڑلے سے کوئی باقاعدہ نقشہ منظورکرائے بغیر 16سے 18منزلہ تعمیرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور سندھ بلڈنگ اتھارٹی چپ سادھے بیٹھی ہے،بحریہ ٹاؤن کراچی میں انتظامیہ کے اپنے اندرونی نقشے کے مطابق پلان شدہ جناح ایونیوپر 500سے 2000گز کے کمرشل پلاٹس کروڑوں روپے میں اس ضمانت کے ساتھ فروخت کیے جارہے ہیں کہ ان پر 16سے 18منزلہ عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے، یہ نہ صرف حیران کن بلکہ قانونی متعلقہ محکموں سے فیس کی ادائیگی کے بعد اجازت حاصل کرکے تعمیرات کرنے والوں کیلیے مایوس کن بھی ہے۔ کراچی کے نہ صرف قانونی حلقوں بلکہ تعمیراتی صنعت سے وابستہ افراد بھی سپریم کورٹ کی جانب نظریں گاڑے بیٹھے ہیں، فی الحال ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاض ملک ایک بار پھر موجودہ سپریم کورٹ کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکنے میں مصروف ہیں۔