عمران خان کی جیت کا اعلان
شیئر کریں
رضوان الرحمن رضی
عمران خان تم جیت گئے ہو، جنگ کے آغاز سے قبل ہی ’ن لیگی ‘ حکومت کی تزویراتی شکست کا بگل بج رہا ہے۔ جس طرح ان کے لشکر میں افراتفری کے آثار نمایاں ہیں اور جس طرح لیگی تنخواہ یافتہ میراثی سرکاری اور بعض غیر سرکاری ٹی وی پر بیٹھے ٹامک ٹویاں مار کر اپنی راتب خوری کا حق ادا کر رہے ہیں تو اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ضرب بہت کاری ہے اور بس شکست کا اعتراف ہوا ہی چاہتا ہے۔جب دلیلِ شکست کم پڑتی ہے توپھر تشدد کو راہ دیتی ہے اور تشدد کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے۔
اس شکست کے آثار اس وقت سامنے آنا شروع ہو گئے تھے جب دھرنے کی تاریخ سے دس دن قبل ہی حکومتی ٹیم کے سب سے اہم اور موثر رکن جناب اسحاق ڈار نے کراچی میں ’منہ سے آگ نکالنے ‘ کا مظاہرہ کر ڈالا اور شاہدرہ (لاہور ) میں لڑنے والی مشہورہمسائیوں کی طرح حزبِ اختلاف کو بے نقط طعنے دے ڈالے اور اس لڑائی میں پشاور سے کراچی تک چلنے والے ٹرکوں کے پیچھے لکھے فقرے پڑھنا شروع کر دیے ’جلنے والے کا منہ کالا‘ اور ’ محنت کر حسد نہ کر‘۔ حافظ محمد اسحاق ڈار جن کو حکومتی ٹیم میں سب سے نرم خو کہا جاتا ہے اور وہ حکومت کی جانب سے صلح صفائی کے پیغام لاتے رہے ہیں، انہوں نے جب منہ سے آگ نکالی تو پتہ چل گیا کہ حکومتی صفوں میں ہل چل مچ گئی ہے جس نے عمران خان کو مزید شیر کر دیا ہے۔ اب حکومت کی طرف سے رابطوں کا کام خواجہ سعد رفیق کو سونپا گیا ہے جن کی اسمبلی رکنیت اور وزارت ریلوے عدالتِ عظمیٰ کے ایک حکمِ امتناعی کی مرہونِ منت ہے۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی ان سے مذاکرات کرنے سے تو رہی تو یوں حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے تمام امکانات معدوم کر دیے ہیں۔ دلائل سے بھاگنے کا عمل شکست کا اعلان ہی تو ہوا کرتا ہے۔
یہ اعلان شکست ہر اس ٹی وی کے پراپیگنڈا اشتہار کے ساتھ گونج رہا ہے اور بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے جو ہرپندرہ سیکنڈکے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے ٹی وی پرظاہر ہو رہا ہے اور ہمیں باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میاں نواز شریف نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں ملک کے طول و عرض میں دودھ اور شہد کی جو نہریں بہائی ہیں، ان کے سوتے ہم تک پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ اب تک کیوں نہیں پہنچے ، یہی ہمارا سوال ہے اور اس کا ہی ان اشتہارات میں کوئی جواب نہیں۔ہزاروں میگاواٹ کا گڈانی پاور پراجیکٹ کروڑوں روپے کے اخراجات کے بعد بغیر کوئی وجہ بتائے بند کیوں کیا گیا؟ نندی پور جس کی اس قدر ڈھول تاشے کے ساتھ تکمیل ہوئی تھی، وہ گرمیوں میں کیوں چل نہیں پاتا جب قوم کو بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف سردیوں میں ہی کیوں چلتا ہے؟ اس کا ریکارڈ جلانا کیوں ضروری خیال کیا گیا؟
جس طرح لیگی راتب خوروں کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے لگتا یہی ہے کہ ہر سیاسی ضرب کاری اور بھاری پڑ رہی ہے۔ ن لیگ کے موجودہ طریقہ کار کے بانی مبانی جناب زبیر عمر صاحب جنہوں نے جب میاں نواز شریف کے کان میں کچھ پھونکا تو میاں صاحب نے باقی سب کو خود سے دور کر دیا اور خود کو زبیر عمر صاحب کے طریقہ کار تک محدود کر لیا، زبیر عمر کا طریقہ کار یہ تھا کہ وقت گزارا جائے تا آن کہ مارچ 2017آ جائے اور نون لیگی میاں صاحب کے آگے پیچھے دھمالیں ڈالتے مختلف منصوبوں کے پہلے مراحل کے افتتاحی فیتے کاٹنے میں مصروف ہو جائیں۔ میاں نواز شریف کے دل کا آپریشن اور پاناما لیکس پر تحقیقاتی کمیشن کے ضابطہ کار کو طے کرنے کے لیے طویل ملاقاتیں دراصل اسی پالیسی کا حصہ تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں اطراف سے مشرقی پاکستان والے جنرل غلام عمر کے صاحبزادگان، زبیر عمر اور اسد عمر ، جن کو ناکام منصوبہ بندیوں کا آبائی تجربہ ہے ، انہوں نے دونوں اطراف سے خاصہ زور لگایا ہوا ہے۔ اس لیے عمران خان وقت کا دھارا روکنے میں مصروف ہو گئے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ اس کام میں ن لیگ کے راتب خور کچھ عمران خان کے زیادہ ہی مددگار ثابت ہورہے ہیں ۔
حالات کی اس خرابی میں ملک کے معروف قلم فروشوں کا بہت دخل ہے۔ جیسے ہی سیاسی ماحول میں تیزی آئی ان ضمیر فروش میڈیا کے اداروں کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ تو سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا پر اس آگ کو آکٹین پٹرول سے بجھائیں گے تا کہ ماحول زیادہ گرم ہو اور ان کے لیے راتب کا زیادہ سامان ہو۔ لاہور کے ایک عظیم صحافی جو اپنے ٹی وی پروگرام میں بڑی شد و مد کے ساتھ ن لیگی حمایت میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ، انہوں نے پی ٹی آئی کے بینرز کی چھپائی کا کام بھی پکڑ لیا ہے۔ اس لیے ان صحافیوں کا پورا زور اس بات پر ہے کسی نہ کسی طور یہ لڑائی طول پکڑے اور ان کی جیبیں قومی خزانے سے لٹائے گئے اشتہارات کی رقوم سے بھر تی جائیں۔
حکومت کی موجودہ ابلاغی پالیسی کے خالقین پر قربان جانے کو دل کرتا ہے۔ جس طرح بہادر کمانڈو پرویز مشرف صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ”میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں“ اسی طرح لاہور کے ایک صاحب ، جو آج کل سرکاری ٹی وی کے مدارلمہام ہوتے ہیں ، یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’میرے والدِ گرامی مولانا ۔۔۔۔ماڈل ٹاون کی مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے“۔سنا ہے آج کل وہ بھی ایک شدید قسم کے ڈپریشن میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ پی ٹی وی پر قبضہ کرنے کے بعدموصوف نے کافی مشکل سے اپنے ہونہار بروا کے لیے افرادی قوت کی برآمد کے لائسنس جاری کرنے والے سرکاری ادارے میں بہت ہی زیادہ ’پیداواری‘ پوسٹ کا اہتمام کیا تھا کہ کچھ حاسدین عدالت جا پہنچے اور وزیر اعظم کے اس خصوصی حکم پر عمل درآمد رکوا دیا ہے ۔اب طبیعت میں شدید بے چینی اور ذہن دباو¿ کا شکار ہے۔ تو یہ دباو¿ کہیں تو نکلے گا ناں؟
لگتا یہی ہے کہ اُدھر وفاق میں بھی ’خالو بھانجا‘ میڈیا پالیسی شکست فاش سے دوچار ہونے کو ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف کے ارد گرد اکٹھے میڈیا منیجرز نامی ذہنی بوزنوں کی اوسط عمر ستر سال سے زائد ہے۔ ان میں سے سب کی مشترکہ قابلیت یہ ہے کہ اس دور میں بھی یہ اسمارٹ فون سے بھی صرف کال ہی سننے کا کام لیتے ہیں جب دنیا کا سارا میڈیا اس موبائل فون میں سمٹ گیا ہے۔ اگر اس قدر پست ذہنی سطح کے ساتھ یہ بوزنے حکومتی ابلاغی پالیسی کے خالق اور چلانے والے ہیں تو حکومت کو سرکاری خزانے سے اربوں روپے لٹانے کے باوجود بھی اتنے جوتے پڑنے کا کام عین میرٹ پر ہورہا ہے۔
جب غنیم کے لشکر میں اس قدر ہلچل ہو تو یہ اعلانِ شکست ہوا کرتا ہے۔ اس لیے عمران خان تم میدان میں اترنے سے پہلے ہی آدھی سے زیادہ جنگ جیت چکے ہو۔ اب تم دھرنا نہ بھی دو ، اسلام آباد کا گھیراو¿ نہ بھی کر سکو تو یاد رکھنا کہ تم نے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہو۔