سیاسی نظام میں متوقع خطرات کا سامنا کرنے کی سکت نہیں!
شیئر کریں
گزشتہ کچھ دنوں سے حکومت عدلیہ کے اختیارات کو کنٹرول کرنے کیلئے قانون سازی کی کوشش کررہی ہے لیکن بندے پورے نہ ہونے کے سبب اب تک اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔انتظامیہ اور عدلیہ کسی بھی حکومت کے 2 اہم ستون ہوتے ہیں، جن کے درمیان ٹکراؤ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں معمول ہے۔عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ انتظامیہ عدلیہ کے اختیارات کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کرتی ہے جب کہ بعض اوقات عدالتیں بھی ان اقدامات میں خلل ڈالتی ہیں جن کو وہ غیر آئینی سمجھیں۔ انتظامیہ عام طور پر عدالتی اعتراضات کو دور کرنے کے لیے آئینی ترمیم کے ساتھ جوابی وار کرتی ہے۔پاکستان میں اس وقت پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان طاقت کے حصول کیلئے شدید جنگ جاری ہے۔ ان کوششوں کی اہم کڑی ایک آئینی ترمیم ہے جسے مخلوط حکومت پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔وجہ یہ ہے کہ عدلیہ نے اپنے اختیار کو زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرنا شروع کر دیا ہے، جس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ غیر آرام دہ محسوس کر رہی ہے۔ دوسری وجہ انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان حال ہی میں غیر معمولی انتشار کے شکار تعلقات ہیں۔گزشتہ کئی ہفتوں سے پاکستان کے پارلیمان میں عدلیہ اور اس کے حالیہ فیصلوں سے متعلق تنقیدی تقاریر کی جا رہی ہیں اور اس ضمن میں آئینی ترامیم پیش کرنے اور انھیں منظور کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں پاکستان کی سیاست میں حالیہ مہینوں کے دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنھیں دیکھ کر سیاسی و قانونی مبصرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بظاہر ملک کے بڑے ادارے بشمول پارلیمان اور سپریم کورٹ نہ صرف ایک عدم استحکام کی کیفیت کی جانب بڑھ رہے ہیں بلکہ مبینہ طور پر اندرونی تقسیم کا بھی شکار ہیں۔اگر سیاسی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو حالیہ بیانات سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اداروں کے درمیان جاری مبینہ رسہ کشی سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے حوالے کیے گئے فیصلے کے بعد شدت اختیار کر گئی ہے۔پنجاب، سندھ اور قومی اسمبلیوں کے ا سپیکر صاحبان چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر درخواست کر چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہ دی جائیں۔حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے اپنے فیصلے کے ذریعے ’خود الجھایا ہے‘۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مخصوص نشستوں کے تفصیلی بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہیں دی جا سکتیں۔ان کا کہناہے کہ مجھے لگتا ہے کہ اس پر ایک اور قانونی معاملہ چلے گا۔ماہرین کا خیال ہے کہ ن لیگ عدلیہ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے اور ایسے فیصلے سے روکنے کیلئے جس سے حکومت پر کسی طرح زد پڑتی ہو،آئینی ترمیم کے ذریعے ایک آئینی عدالت قائم کرنا چاہتی ہے اور ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی چاہتی ہے،ارباب حکومت کا خیال ہے کہ نئی آئینی عدالت کے قیام کے بعد اس طرح کے فیصلے تبدیل کرانے میں آسانی ہوگی،حکومت کی مرضی کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن بھی سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کو تعظیم دینے سے گریزاں نظر آتاہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آج بھی اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکا ہے۔غرض اب یہ معاملہ تصادم کی طرف جاتا ہوا نظر آ رہا ہے،کیونکہ حکومت کے چاہنے والے یہ کہتے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ کو ہم تالا لگا دیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کی صورت میں یوسف رضا گیلانی کو بطور وزیر اعظم گھر جانا پڑا تھا۔ماہرین ِ قانون کہتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے باوجود سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کو واپس نہیں لیا جا سکتا۔ملک میں وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی کہتے ہیں کہ طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے تمام اداروں کا اپنی حدود میں رہنا ضروری ہے۔ملک کا ایک طاقتور ادارہ تمام اداروں کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے اور ان اداروں سے اپنی مرضی کے فیصلے لینا چاہتا ہے۔ ادارہ آئین میں موجود لچک کو اپنے حق میں کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے سپریم کورٹ میں ’اندرونی جنگ زوروں پر ہے جہاں سب سے سینئر جج ملک کا چیف جسٹس بننا چاہتا ہے، جبکہ حکومت ان کے چیف جسٹس بننے سے خوفزدہ ہے اور ان کی راہ روکنے کیلئے آئینی ترمیم لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ حالات ایسے ہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب ملک کا آئین ہی ٹوٹ جائے گا۔ملک میں حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات دیکھ کر انھیں اداروں کے درمیان ایک کشمکش کا تاثر مل رہا ہے۔جب تمام ادارے اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے دوسرے اداروں کے حقوق سلب کر لیتے ہیں تو ایسے حالات میں جمہوریت ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے،فی الوقت صورت یہ ہے کہ ملک میں اداروں کے درمیان برتری کی ایک جنگ جاری ہے اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔’اگر اداروں میں اس طرح کا تصادم جاری رہا تو اگلے چند ہفتوں میں ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہونے کا اس لیے خطرہ ہے کیونکہ ہر ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کام کر رہا ہے وہ ملک کے آئین و قانون کے عین مطابق ہے۔جبکہ درحقیقت ملک آئینی ٹوٹ پھوٹ کی جانب گامزن ہوتا ہوا محسوس ہورہاہے کیونکہ ادارے باہمی تصادم کی صورت حال کا شکار ہیں۔
حکومت عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل سے انکاری ہے اور خود سپریم کورٹ کے اندر بڑھتی تقسیم نے مزید تعطل پیدا کردیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ایک مضبوط عدلیہ پر قابو پانے کی مایوس کن کوششوں نے ریاست کو بحران میں دھکیل دیا ہے۔ اداروں کے درمیان تصادم کب ختم ہوگا، یہ فی الوقت غیر یقینی ہے۔بہ ظاہر متزلزل مخلوط حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان مبینہ گٹھ جوڑ کی بنا پر بحران کی صورت حال پیدا ہوئی۔ غیر معمولی طور پر دونوں نے 12 جولائی کے سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی تعمیل کرنے سے انکار کردیا کہ جس میں عدالت عظمیٰ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بھی مختص حصہ دینے کا حکم دیا تھا۔ جس امر نے عمل درآمد نہ کرنے پر حکومت کی حوصلہ افزائی کی وہ اعلیٰ ججز کے درمیان بڑھتا تناؤ کا منظر عام پر آ جانا ہے۔ آئندہ ماہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کے درمیان تقسیم کا مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت مکمل فائدہ اٹھا رہی ہے کیونکہ اس سے حکمران اتحاد کو اعلیٰ عدالتی سیٹ اپ کے اختیارات کو نقصان پہنچانے کا بھرپور موقع ملے گا۔یہ تو واضح ہے کہ حکومت عدالت عظمیٰ کے فُل کورٹ بینچ کا جھکاؤ اپنی جانب کرنے کے لیے چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ صدر کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین آرڈیننس نے چیف جسٹس کے ’ماسٹر آف دی روسٹر‘ کے اختیارات کو عملی طور پر بحال کردیا ہے جو اس سے قبل قانون سازی کے ذریعے محدود کر دیے گئے تھے۔ بدقسمتی سے بہت سے لوگوں نے اس پورے معاملے میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کردار سے یہ توقع نہیں کی تھی جو کہ ملک کے اعلیٰ ترین جج سے عام طور پر کی جاتی ہے۔آرڈیننس کے نفاذ کے چند گھنٹوں بعد ہی چیف جسٹس نے جسٹس منیب اختر کو برطرف کرکے3 رکنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی دوبارہ تشکیل دی۔ یاد رہے کہ جسٹس منیب اختر 3 سینئر ترین ججز میں شمار کیے جاتے ہیں جبکہ یہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں دینے والے اکثریتی ججز میں بھی شامل تھے۔ دوسری جانب سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے آرڈیننس کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کو غیرضروری قرار دیا اور اپنی پسند کے رکن کی شمولیت کو غیرجمہوری قرار دیا۔ اسے ’ون مین شو‘ قرار دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے آرڈیننس پر فل کورٹ عدالتی جائزے کے حکم کا مطالبہ کیا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس جوکہ اگلے ماہ ریٹائر ہونے والے ہیں، کیا وہ اعلیٰ عدلیہ کی آزادی اور تقدس کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں؟ یہ ایک پُرخطر کھیل ہے جوکہ پورے نظام کو تباہ کرسکتا ہے اور ملک کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک سکتا ہے۔مخصوص نشستیں دینے سے حکومتی انکار کا منصوبہ یہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلے۔ حکومت کو اکثریت اس لیے درکار ہے کیونکہ حکومتی اتحاد کو ایک آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جس کا مقصد ایک نام نہاد عدالتی اصلاحاتی پیکیج کی آڑ میں اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات کو ختم کرنا ہے۔ حکومتی اتحاد نے مطلوبہ اعداد حاصل کرنے میں اپنی گزشتہ ناکامی کے باوجود ابھی آئینی ترمیم لانے کا اپنا ارادہ ترک نہیں کیا ہے۔دوسری جانب حکومت نے انتخابی قوانین میں چند تبدیلیاں کی ہیں تاکہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق حکم نامے پر عمل درآمد کو روکا جاسکے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر بتایا کہ عدالتی حکم کی تعمیل نہیں ہوسکتی۔ حکومت اور اعلیٰ ججز کے درمیان چپقلش نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلے کے بعد ہی شدت اختیار کی۔وفاقی وزیر قانون نے تفصیلی فیصلے کو یکسر مسترد کردیا ہے اور وضاحت دی کہ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کی جارہی ہیں اور قانون کے تحت قانون سازوں سے متعلق اس طرح کا فیصلہ دے کر معاملات کو پلٹنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تفصیلی فیصلے میں بہت سے سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے، پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ترجیح دی جائے گی۔ملکی تاریخ میں آمرانہ دور کے علاوہ شاید ہی ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوئی ہو کہ جس میں حکومت نے اتنی ڈھٹائی سے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہو۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کوئی ابہام نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کے اپنے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور اسے پارلیمانی قوت تسلیم کرنے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ یہ 5-8 سے دیا جانے والا فیصلہ تھا لیکن مخالفت میں ووٹ دینے والے تین ججز نے بھی اتفاق کیا تھا کہ پی ٹی آئی ایک پارلیمانی جماعت ہے اور اسے مخصوص نشستوں میں حق دینے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جو بات حکومت ماننے کو تیار نہیں وہ یہ ہے کہ چاہے اسے پسند ہو یا نہ ہو، سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل تمام ریاستی اداروں پر لازمی ہے۔کسی طرح کی خلاف ورزی سنگین آئینی بحران کو جنم دے سکتی ہے جوکہ ریاست کی بنیادوں کو ہلا سکتا ہے۔آج ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بڑی حد تک رواں سال فروری میں الیکشن کمیشن کے ماتحت ہونے والے متنازع انتخابات کے نتیجے میں ہورہا ہے۔ انتخابات میں ہیرا پھیری کرکے ایک متنازع اور قابلِ اعتراض حکومت کو اقتدار دیا گیا جس نے پورے سیاسی نظام کو مسخ کیا۔مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ، الیکشن کمیشن پر فردِجرم عائد کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے تعصب میں غیرقانونی اقدامات کیے۔ مزید بتاتا ہے کہ ’ایک بڑی سیاسی جماعت کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے اور ان کے نامزد امیدواروں کو آزاد تصور کرکے، ادارے نے نہ صرف ان امیدواروں کے حقوق پر سمجھوتہ کیا بلکہ ووٹرز کے حقوق کی بھی خلاف ورزی کی‘۔ حکم نامے میں ان غیرقانونی اقدامات کے لیے کہا گیا کہ انہوں نے ’ادارے کی قانونی حیثیت کو خراب کیا‘۔حکم لکھنے والے جسٹس منصور علی شاہ نے تنبیہ کی تھی کہ عدالتی حکم کی تعمیل لازمی ہے اور اس پر عمل نہ کرنے کے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ درحقیقت اعلیٰ عدلیہ کے لیے امتحان ہے جن سے توقع ہے کہ وہ آئینی اختیارات کا دفاع کریں گی اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھیں گے۔ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ منقسم ادارہ کیسے آئین پر کیے جانے والے اس حملے کا مقابلہ کرتا ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ سوال ہے کہ کیا ہمارا سیاسی نظام تمام متوقع خطرات کا سامنا کرنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟