میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے لئے تیار ہے؟ حسن علی کے انتخاب پر اعتراضات کیوں؟

کیا پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے لئے تیار ہے؟ حسن علی کے انتخاب پر اعتراضات کیوں؟

جرات ڈیسک
بدھ, ۲۷ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

٭چیف سلیکٹر انضمام الحق نے جس انداز سے ٹیم کا اعلان کیا، اس سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں ایک کاغذ تھما دیا گیا تھا اور ان کا کام بس میڈیا کو مطلع کرنا تھا
٭حسن علی آخری مرتبہ ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹی ٹوئنٹی گزشتہ سال کسی متاثرکن کارکردگی کے بغیر کھیلے، پاکستان کے ڈومیسٹک سیزن میں کوئی میچ نہیں کھیلے ہیں
٭پاکستان کی بیٹنگ اوپننگ میں مسائل کا شکار ہے، فخر زمان کی خراب فارم کے باوجود ان کا انتخاب ایک جوئے سے کم نہیں ہے۔ وہ رنز اور پارٹنر شپ نہیں بنا رہے
٭بھارت کے گرم موسم اور خشک ہواؤں کے باعث پاکستانی ٹیم کو فٹنس پر بہت نظر رکھنا ہوگی، پاکستانی بولرز کو وہاں کے گرم موسم میں مسائل درپیش ہوں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے یہ شور مچا ہوا تھا کہ ورلڈ کپ کی ٹیم کا اعلان کب ہوگا؟ اور اب اس بات پر شور ہے کہ اس میں فلاں کھلاڑی کیوں شامل ہے اور فلاں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ تو ان تمام باتوں کا جواب چیف سلیکٹر انضمام الحق نے ٹیم کا اعلان کرتے وقت پریس کانفرنس میں دے دیا ہے کہ ورلڈ کپ کے لیے ٹیم میں تسلسل برقرار رکھنے کی غرض سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور عالمی ایونٹ کی وجہ سے تجربہ کار کھلاڑیوں پر ہی اعتماد برقرار رکھا گیا ہے۔ چار سال قبل 2019 کے عالمی کپ کے موقع پر بھی انضمام الحق چیف سلیکٹر تھے اور اس وقت جو ٹیم ابتدائی طور پر آئی سی سی کو دی گئی اس میں بعد میں تین تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ جنید خان، فہیم اشرف اور عابدعلی کو ڈراپ کرکے ٹیم میں وہاب ریاض محمد عامر اور آصف علی کو شامل کیا گیا تھا تاہم اس مرتبہ صرف ایک بڑی تبدیلی عمل میں آئی ہے اور وہ بھی اس لیے کہ فاسٹ بولر نسیم شاہ کندھے کی تکلیف میں مبتلا ہوگئے ہیں اور انہیں آپریشن کا مشورہ دیا گیا ہے۔نسیم شاہ کی جگہ ٹیم میں جس کھلاڑی کو جگہ ملی ہے وہ ہیں حسن علی۔ لیکن ان کی سلیکشن کے حق میں اور خلاف بہت زیادہ تبصرے ہورہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن علی غیرمعمولی صلاحیتوں کے مالک کرکٹر ہیں۔ وہ کبھی دنیا کے نمبر ایک، ون ڈے بولر بھی رہے ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی کے بہترین کرکٹر بھی بنے اور آئی سی سی کی ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیموں میں بھی شامل کیے گئے اس کے علاوہ انہوں نے آئی سی سی کے بہترین ایمرجنگ کرکٹر کا ایوارڈ بھی جیتا لیکن پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ فٹنس اور فارم کے مسائل سے دوچار ہونے کے سبب ان کی کارکردگی کا گراف نیچے آتا چلا گیا۔ورلڈ کپ اسکواڈ میں حسن علی کی شمولیت کے حق میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ ان کا تجربہ دیگر بولرز سے کہیں زیادہ ہے لیکن وہ آخری مرتبہ ون ڈے انٹرنیشنل اور ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل گزشتہ سال کسی متاثرکن کارکردگی کے بغیر کھیلے تھے اس سال وہ پاکستان کے ڈومیسٹک سیزن میں کوئی میچ نہیں کھیلے ہیں۔ البتہ انگلش کاؤنٹی وارک شائر کی طرف سے چھ فرسٹ کلاس میچوں میں انہوں نے 24 وکٹیں لینے کے ساتھ ساتھ دو نصف سنچریاں بھی بنائی ہیں۔ اس کے علاوہ انگلینڈ کی ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ کرکٹ میں انہوں نے پانچ میچوں میں نو وکٹیں حاصل کی تھیں جس کے بعد لنکا پریمیئر لیگ کھیلتے ہوئے ان کے بائیں ہاتھ کی انگلی زخمی ہوگئی تھی۔حسن علی کے لیے پچھلا ورلڈ کپ خاصا مایوس کن رہا تھا جس میں انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف صرف چار اوورز میں 39 رنز دے کر کوئی وکٹ نہیں لی۔ انگلینڈ کے خلاف 66 رنز دے کر کوئی وکٹ نہ لے سکے۔نسیم شاہ کا ان فٹ ہوجانا پاکستان کے نقطۂ نظر سے بہت بڑا دھچکا ہے۔ ورلڈ کپ میں نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کے پیس اٹیک پر دنیا بھر کی نظریں تھیں لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نسیم شاہ کی غیرموجودگی میں شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف مکمل فٹ رہتے ہوئے کس طرح کی کارکردگی دکھاتے ہیں۔پاکستانی ٹیم کی ایشیا کپ میں غیر متوقع شکست نے اسے سخت دھچکا پہنچایا ہے۔ معروف اور صف اول کے کھلاڑیوں کے باوجود ٹیم جس طرح سری لنکا کے خلاف پسپا ہوئی، اس نے بہت سارے سوالوں کو جنم دیا ہے۔کرکٹ کے سب سے بڑے معرکے یعنی ورلڈکپ کے لیے پاکستانی ٹیم کا اعلان ہو جانے کے بعد اب اس حوالے سے ہونے والی چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کا تو اختتام ہوچکا، لیکن قومی ٹیم میں کی گئی محض ایک تبدیلی پر چاروں جانب سے تنقید ہو رہی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ جب صرف ایک کھلاڑی بھی بحالت مجبوری تبدیل کرنا تھا تو حتمی اسکواڈ کے اعلان میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟اس تنقید کا جواب تو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے نہیں دیا، لیکن چیف سلیکٹر انضمام الحق نے جس انداز سے ٹیم کا اعلان کیا، اس سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں ایک کاغذ تھما دیا گیا تھا اور ان کا کام بس میڈیا کو مطلع کرنا تھا۔
پاکستان ٹیم انڈیا کی جنوبی ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے مشترکہ دارالحکومت حیدرآباد سے اپنے میچوں کا آغاز کرے گی۔ ٹورنامنٹ کی سب سے کمزور ٹیم نیدرلینڈز کے خلاف پاکستان اپنی جیت کے سفر کا آغاز کر سکتا ہے جو گذشتہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کو شکست دے کر پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچانے کا سبب بنی تھی۔ اس نسبتاً کمزور اور نئی ٹیم سے کسی بڑی کارکردگی کی تو توقع نہیں ہے لیکن کرکٹ میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔پاکستان کی بیٹنگ اوپننگ میں مسائل کا شکار ہے، فخر زمان کی خراب فارم کے باوجود ان کا انتخاب ایک جوئے سے کم نہیں ہے۔ وہ رنز بھی نہیں بنا رہے اور نہ کوئی بڑی پارٹنرشپ فراہم کررہے ہیں۔ ان کو منتخب کرکے اس دباؤ کو تسلسل دیا گیا ہے جو ایشیا کپ سے شروع ہوا ہے۔اگرچہ فخر زمان کے کیریئر میں چند قابل دید اننگز ہیں لیکن وہ اب ان کے سہارے کب تک کھیلیں گے؟ امام الحق دوسرے اوپنر ہیں۔ ان کا پاکستان سے باہر ریکارڈ اتنا متاثر کن نہیں ہے لیکن انڈین پچز کی پاکستانی پچز سے مماثلت ان کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔بیٹنگ میں بابر اعظم ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور ٹیم بہت زیادہ ان پر بھروسہ کرتی ہے، کپتان کی حیثیت سے ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں لیکن پہلی دفعہ وہ انڈیا میں کھیلنے جا رہے ہیں جن کو یقیناً دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔مڈل آرڈر میں اگر کپتان راضی ہوئے تو سعود شکیل نمبر چار پر بیٹنگ کریں گے ورنہ محمد رضوان ان کی جگہ لیں گے لیکن وہ پوزیشن کے ساتھ اب تک انصاف نہیں کر سکے ہیں۔ وہ قدرتی طور پر جارحانہ کھلاڑی ہیں اس لیے اگر وہ چھٹے یا ساتویں نمبر پر کھیلتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔پاکستان کی اصل پریشانی نمبر پانچ اور چھ کی
ہے، جہاں سلمان آغا اور افتخار احمد مورچہ سنبھالیں گے لیکن دونوں اس نازک صورت حال میں گھبراہٹ کاشکار ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی بیٹنگ کے لیے دوسری پریشانی لمبی پارٹنر شپ کا فقدان ہے۔ گذشتہ میچوں میں بڑی پارٹنرشپ نہیں بن سکی ہیں، جو ایک روزہ میچوں میں بنیادی عنصر ہے۔پاکستان کو اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ انڈین گراؤنڈز پر 300 سے کم سکور کا دفاع ناممکن ہوگا کیونکہ بڑے گراؤنڈز اور بیٹنگ پچز پر رنز کی برسات ہوگی۔ماضی میں پاکستان ٹیم کی جیت زیادہ تر بولنگ کی مرہون منت رہی ہے۔ ورلڈکپ میں بھی بولنگ ہی جیت کی ضامن ہوگی۔شاہین شاہ آفریدی اہم ترین بولر ہوں گے جن کا پہلا اور آخری سپیل بہت اہم ہوگا۔ اگرچہ انڈین پچز پر انہیں قدرتی سوئنگ تو نہیں ملے گی لیکن وہ ریورس سوئنگ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ سرخ مٹی سے بنی پچوں پر گیند جلدی پرانی ہوتی ہے اسی لیے انہیں اپنی لینتھ کو بھی ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔
حارث رؤف کے لیے انڈین پچ بہت مشکل ہوگی کیونکہ وہ یارکر پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں، ان کی فٹنس بھی مسئلہ بنے گی۔ وہ شاید سارے میچ نہ کھیل سکیں۔حسن علی کے پاس بہترین موقع ہوگا کہ وہ اپنی اِن سوئنگ بولنگ سے بلے بازوں کو پریشان کرسکیں، لیکن سب سے اہم کردار سپنرز کا ہوگا۔شاداب خان آؤٹ آف فارم ہیں لیکن اسامہ میر اور محمد نواز حیران کرسکتے ہیں تاہم ایک وقت میں دونوں میں سے ایک ہی ٹیم کا حصہ بن سکے گا۔
پاکستان کو بولنگ پلان میں دو تین منصوبے تیار رکھنے ہوں گے کیونکہ بیٹنگ وہاں بہت آسان ہوگی۔ چنئی میں اوس کا کردار بھی اہم ہوگا۔ ویسے تو پاکستان کے سارے میچ بہت اہم ہیں، مگر نو میچوں کے کھیلنے کے بعد پوائنٹس ٹیبل بہت زیادہ نشیب وفراز کی حامل ہو جائے گی لیکن پاکستان کے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف میچ بہت اہم ہوں گے کیونکہ ان کے خلاف کامیابی کی صورت میں پاکستان کے لیے سیمی فائنل تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔دوسری دو مضبوط ٹیموں انڈیا اور انگلینڈ کے خلاف شکست کے باوجود پاکستان دوسری ٹیموں کو شکست دے کر سیمی فائنل تک پہنچ سکتی ہے۔پاکستان کو جنوبی افریقہ سے زیادہ مشکلات نہیں ہوں گی کیونکہ وہ ا سپنرز کو زیادہ اچھا نہیں کھیل پاتے، البتہ قومی ٹیم کو سری لنکا اور افغانستان سے بھی خبردار رہنا ہوگا۔
انڈیا کے گرم موسم اور خشک ہواؤں کے باعث پاکستانی ٹیم کو فٹنس پر بہت نظر رکھنا ہوگی۔ پاکستانی بولرز کو گرم موسم میں مسائل درپیش ہوں گے۔ حارث رؤف اور حسن علی کے لیے بہت زیادہ مسائل ہوسکتے ہیں تاہم اب جدید کرکٹ میں انرجی سیونگ کے پلان پر عمل کرکے ان مسائل پر قابو پایا جا رہا ہے، جس میں کمزور ٹیموں کے خلاف اہم کھلاڑیوں کو آرام دیا جاتا ہے اور بڑی ٹیموں کے خلاف چھوٹے سپیل میں بولنگ کی جاتی ہے۔پاکستان کے بلے بازوں کو بھی اپنی فٹنس پر سخت نظر رکھنی ہوگی۔ پاکستانی ٹیم کے لیے ورلڈ کپ آسان نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کو آف دی فیلڈ بھی بہت زیادہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں اس لیے کھلاڑیوں اور مینجمنٹ کو بہت محتاط رہنا ہوگا۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں