محکمہ ماحولیات کا نیا اسکینڈل، پلاسٹک کی تھیلیوں پرپابندی رشوت وصولی کی نذر
شیئر کریں
(رپورٹ: علی کیریو)محکمہ ماحولیات سندھ پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی پر عملدرآمد کروانے میں ناکام ہوگیا ہے،افسران پر پلاسٹک کی تھیلیاں فروخت کرنے والے اہم کاروباری افراد سے کروڑوں روپے رشوت لینے کے الزامات بھی سامنے آگئے، کراچی سمیت سندھ بھر میں پلاسٹک کی نقصان کار تھیلیاں پھینکنے سے ڈرینیج نظام مفلوج ہوگیا ہے۔ جرأت کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر ماحولیات بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے احسن اقدام لیتے ہوئے 27 ستمبر 2019کو نوٹیفکیشن جاری کرکے نان ڈی گریڈ ایبل ( ختم نہ ہونے والی) پلاسٹک کی تھیلیاں بنانے ، خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی تھی ، یہ پابندی یکم اکتوبر 2019 سے نافذ کی گئی،صرف مخصوص سائز اور وزن کی آکسو بائیو ڈی گریڈ ایبل شاپر ز بنانے اور فروخت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔محکمہ ماحولیات کی جانب سے پابندی عائد کرنے کے بعد کراچی ، حیدرآباد سمیت تمام شہروں میں کارروائیاں کی گئی لیکن یہ بھی صرف نمائشی ثابت ہوئیں کیونکہ کراچی سمیت سندھ بھر میںدکاندار پلاسٹک کی تھیلیاں سرعام فروخت کررہے ہیں، جبکہ سبزی اور دیگرگھریلو اشیاء پلاسٹک کی شاپر میں فراہم کی جاتی ہیں۔ محکمہ ماحولیات سندھ نے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کے معاملے میں پلاسٹک کی تھیلیاں تیار کرنے اور ہول سیل کا کاروبار کرنے والے بڑے کاروباری افراد کو کھلی چھٹی دے دی ہے ،جبکہ نمائشی کارروائی صرف ریٹیلر کے خلاف ہوتی ہے،نمائشی کارروائیوں کے دوران کراچی کے جوڑیا بازار اور دیگر اہم بڑے کاروباری مراکز میں پلاسٹک کی تھیلیوں کا کاروبار کرنے والے اہم سیٹھوںسے محکمہ ماحولیات کے افسران کی جانب سے کروڑوں روپے بٹورنے کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ محکمہ ماحولیات کے پاس ایسا کوئی آلہ یا جدید مشین موجود ہی نہیں جس سے یہ ثابت کیا جائے کہ نان ڈی گریڈ ایبل ہے یا آکسو بائیو ڈی گریڈایبل ہے۔ کراچی ، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں بڑے پیمانے پر پلاسٹک کی تھیلیوں کا کاروبار عروج پر ہے اور پلاسٹک کی تھیلیاں استعما ل ہونے سے کچرے میں اضافے اور ڈرینیج نظام کو چوک کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور ڈرینیج نظام مفلوج ہوچکا ہے، محکمہ ماحولیات کے افسران اپنے ذاتی فوائد کیلئے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی پر عملدرآمد کروانے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔