میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کچرے کے ڈھیر

کچرے کے ڈھیر

ویب ڈیسک
اتوار, ۲۷ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک

نارتھ امریکاکاساحلی علاقہ امریکی شکروں کاگھرہے مگر1960کی دہائی میں ان کی نسل تقریبامعدوم ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ حیوانیات سے تعلق رکھنے والے امریکی سائنس دان سرجوڑکربیٹھے تاکہ پتاچلایاجاسکے کہ امریکی نایاب نسل کے یہ شکرے کیوں مررہے ہیں۔جب تحقیقات ہوئیں تومعلوم ہواکہ پیسٹی سائیڈنام کازہران کی ہلاکت کاموجب ہے ،یہ زہران پرندوں کے گوشت میں ہوتاہے جو شکرے شکارکرتے ہیں اوران کے شکارکے جسم میں یہ زہران حشرات الارض کے ذریعے پہنچتاہے جویہ کھیتوں سے پکڑ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ کھیتوں میں یہ زہرڈی ڈی ٹی نامی دواسے آتاتھاجوکیڑوں کومارنے کیلئے فصلوں پراسپرے کی جاتی تھی۔
نایاب شکروں کی نسل بچانے کیلئے پورے امریکامیں ڈی ڈی ٹی پرپابندی لگادی گئی مگراس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا کیوںکہ نارتھ امریکا کے ساحلی جنگلات میں پڑوسی ممالک سے ہجرت کرکے آنے والے پرندے جب ان شکروں کاشکاربنتے تو ان کے جسم میں بھی ڈی ڈی ٹی موجود ہوتی جوبچ جانے والے شکروں کی تولیدی صلاحیت ختم کردیتی اور انہیں ہلاک بھی کر ڈالتی۔آخرسائنسدانوں نے فیصلہ کیاکہ باقی بچ جانے والے شکروں کے جوڑے اوران کے انڈے لیبارٹریوں میں منتقل کردیے جائیں جہاں محفوظ ماحول میں ان کی فارمنگ کی جائے اورپھرجوان شکروں کو جنگل میں چھوڑدیاجائے۔یہ پروگرام کامیابی سے ایک سال تک چلااوردرجنوں نئے جوڑے لیبارٹریوں میں تیارکرلیے گئے مگر جب انہیں جنگل میں چھوڑاگیاتوانہوں نے نئے ماحول کو قبول کرنے سے انکارکردیا۔لیبارٹری میں پالے گئے تمام جوڑے یاتواپنی موت آپ مرگئے یاپھران کے ازلی دشمن بڑے سائزکے الوانہیں ہڑپ کرگئے۔100کے لگ بھگ ان جوڑوں میں سے صرف ایک مادہ بچ پائی جس کانام اسکارلٹ تھا۔اس نے ایک عجیب حرکت کی،اسکارلٹ کوجنگل میں چھوڑا گیاتھاجہاں اس کے آباؤاجداد صدیوں سے رہتے آئے تھے مگراس نے ریاست میری لینڈ کے شہربالٹی مورکارخ کیااورایک عمارت کی کھڑکی میں اپناگھونسلہ بنالیا۔
سائنسدان اس بات پرحیران تھے کہ شکرے کی فطرت کس طرح سے تبدیل ہوگئی مگرانہیں اس وقت مزیدحیرت کاسامناکرناپڑا جب ایسے تمام شکرے جنہیں لیبارٹری میں انڈے سے بچے میں تبدیل کیاگیاتھا،انہوں نے جنگل میں رہنے یاشکارکرنے سے انکار کر دیا۔ شروع میں سائنسدان جن شکروں کوجنگل میں چھوڑتے تھے وہ اسکارلٹ کی طرح قریبی شہروں کارخ کرتے اور کبوتروں کی طرح مختلف عمارتوں کی کھڑکیوں،روشندانوں میں اپنے گھونسلے بناکررہناشروع کردیتے۔بعدمیں سائنسدانوں نے لیبارٹری میں پالے ہوئے شکروں کوجنگل میں چھوڑنے کی بجائے شہروں میں ہی اڑاناشروع کردیا۔شکروں کی نگہداشت کا یہ پروگرام ایک عشرے تک چلاجس کے دوران شکروں کی تعداد60سے بڑھاکر700کردی گئی اورپھراس پروگرام کوبندکردیاگیا کیوںکہ اب اس نایاب نسل کوکوئی خطرہ نہیں تھا۔شہروں میں کچرارکھنے والی جگہوں پریہ شکرے منڈلاتے نظرآتے تھے اور انسانی مددکے بغیرہی ان کی نسل تیزی سے بڑھتی جارہی تھی۔آج کے نارتھ امریکی شہروں میں اب اس نسل کے شکروں کوزیادہ اہمیت نہیں دی جاتی،جس طرح شہر میں دوسرے عام پرندے رہتے ہیں یہ شکرے بھی انہی کے ساتھ شیروشکرہوکررہ رہے ہیں۔ ان کی فطرت میں دوبڑی تبدیلیاں آئیں،ایک توانہوں نے پہاڑوں کی بجائے گھروں کی کھڑکیوں اورروشندانوں میں گھونسلے بنائے دوسرایہ کہ انہوں نے شکارکرناچھوڑدیا،وہ کچرے سے مختلف اشیاء ڈھونڈ کر اپنا پیٹ بھرلیتے ہیں،کوئی مردہ پرندہ مل جائے تواسے بھی کھاجاتے ہیں،یاپھردوسرے پرندوں کے گھونسلوں سے ان کے چھوٹے بچے لے اڑتے ہیں۔
شکروں کی نسل ک بچاتے ہوئے لیبارٹری کے ماحول میں ان کی فطرت تبدیل ہوتے دیکھ کرامریکیوں کوایک انوکھاآئیڈیاسوجھا اور اب وہ پوری دنیامیں اس پرعمل پیراہیں۔جہاں بھی ان کاکوئی دشمن قابونہ آئے وہ اس کواپنی لیبارٹری میں لے جاتے ہیں اور اپنے خرچے پر، مخصوص ماحول میں اس کی پرورش کرکے چھوڑدیتے ہیں مگراس وقت تک دشمن کی فطرت تبدیل ہوچکی ہوتی ہے اوروہ شکار کی بجائے مردارپرراغب ہوجاتاہے۔یہ صرف تخیلاتی وتجزیاتی بات نہیں بلکہ دنیابھرمیں پھیلے امریکی امدادی پروگرام کی حقیقت ہے۔ آپ پوری دنیامیں کہیں بھی دیکھ لیں امریکی امدادی پروگرام صرف اس خطے میں نظرآئیں گے جہاں امریکا یااس کے اتحادی کسی دشمن سے نبردآزماہوں گے،مثلا طالبان کا افغانستان امریکاکاسب سے بڑادشمن تھااورامریکاآج انخلا کے باوجودبھی طالبان کاشدیدمخالف ہے لیکن جنگ کے دوران امریکاایک طرف بمباری کرکے گائوں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹادیتاتھامگراس کے باوجود افغان مزاحمت ختم کرنے کیلئے لیبارٹری میں ان کوتہذیب سکھانے کی مہم پراربوں ڈالرکی بارش بھی جاری رکھی گئی۔
عراق کی سرزمین امریکی دلدل کے نام سے مشہورہوگئی جہاں ہرروزامریکی اوران کے اتحادی فوجیوں کوتابوت بھی میسرنہیں آتا تھا۔ وہاں کاہربچہ ان کادشمن نظرآتاتھامگراس کے باوجوددنیامیں سب سے بڑاامریکی امدادی پروگرام بھی عراق میں چلا۔جس کے تحت لیبارٹریوں کے مخصوص ماحول میں جنگلی عراقیوں کو جدید تہذیب سکھانے کی کوشش کی جاتی۔ پاکستان کودیکھیں توسب سے غریب صوبہ بلوچستان ہے جہاں کے لوگوں کوایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے مگرکیاوجہ ہے کہ اس کے باوجودامریکاکے امدادی
پروگرام برائے پاکستان میں سب سے زیادہ فنڈزصوبہ بلوچستان کیلئے مختص ہوتے ہیں لیکن یہاں ان لوگوں کوتہذیب سکھاکرپہاڑوں کے بجائے شہروں کے روشندانوں میں منتقل کرنے کی بجائے یہ سکھانامقصودہے کہ کس طرح اپنے ہی خاندان اوران کے گھونسلوں کوتباہ کرناہے لیکن ایک بات یادرکھناضروری ہے کہ امریکی خرچے پرلیبارٹری کی آرام دہ زندگی صرف اس وقت تک ملتی ہے جب تک شکروں کی فطرت تبدیل نہ ہوجائے،تاکہ فطرت کی تبدیلی کے بعداپنارزق خودہی کچرے کے ڈھیرسے ڈھونڈتے رہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ افغانستان سے جونہی روسی افواج نے کوچ کیا،اسی ماہ امریکااپنے درجنوں وعدوں کوپس پشت ڈال کراس خطے سے منہ پھیر کر چلا گیا کہ وہ سمجھتاتھاکہ اس جنگ میں پاکستان اورافغانستان میں کچرے کے کافی ڈھیربن گئے ہیں،اب یہ شکرے اپنی غذایہی سے تلاش کرلیں گے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں