میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
برکس کانفرنس ہماری سفارتی ناکامی کا ثبوت

برکس کانفرنس ہماری سفارتی ناکامی کا ثبوت

جرات ڈیسک
اتوار, ۲۷ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

برکس رہنماؤں نے جمعرات کو ایک اعلان میں کہا ہے کہ اگلے سال سے6 نئے ممالک کو اس تنظیم میں شامل کیا جائے گا۔ پاکستان نے برکس اجلاس کی میزبانی پر جہاں چین کو مبارک باد دی ہے وہیں ایک رکن ممبر کی جانب سے پاکستان کو اجلاس میں شرکت سے روکنے پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ دفتر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ 5 ملکی سربراہی اجلاس برکس کے ایک رکن نے گزشتہ دنوں غیر رکن ممالک کے لیے ہونے والے مذاکرات میں پاکستان کی شرکت کو روک دیا تھا، برکس جو 5 ممالک چین، روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ پر مشتمل تنظیم ہے اور دنیا کی کم و بیش 40 فیصد آبادی کا مسکن ہے جب کہ 25 فیصد مجموعی گھریلو مصنوعات بھی ان ملکوں سے ہی آتی ہیں۔ اس اعتبار سے اگر معاملات کو سامنے رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ تنظیم اپنی ایک خاص اہمیت رکھتی ہے، اس تنظیم کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ جب روس اور یوکرائن کے مابین جنگ چھڑی تو چین، بھارت اور جنوبی افریقہ نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف ووٹ دینے سے اجتناب کیا اور غیر حاضری کی حکمت عملی اختیار کی۔ اس کی وجوہات بھی بہت واضح ہیں کیونکہ اب چین اور روس باہمی طور پر زبردست فوجی تعلقات رکھتے ہیں جب کہ بھارت تو عشروں سے روس سے قریبی تعلقات کے فوائد سمیٹ رہا ہے اور اب مغربی دنیا کی آنکھ کا تارا بھی بنتا جا رہا ہے۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو برکس ایک ایسی تنظیم کے طور پر کام کر رہی ہے جس کے اراکین روس سے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں،موجودہ حالات کے تناظر میں برکس دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کا ایک بااثر گروپ ہے جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ ان 5 ابھرتی معیشتوں کے گروپ کا ورچوئل اجلاس 23 اور 24 جون کو ہوا تھا جس کی میزبانی چین نے کی تھی۔رواں سال اجلاس کے دوران ’عالمی ترقی پر اعلیٰ سطحی ڈائیلاگ‘ کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں 2درجن ایسے ممالک نے بھی شرکت کی جو تنظیم کے رکن نہیں تھے۔تاہم ان 2 درجن ممالک میں پاکستان شامل نہیں تھا۔اس حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات پر گزشتہ روز پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایک رکن ملک نے پاکستان کو اجلاس میں شرکت سے روکا، جس پر افسوس ہے۔ دفتر خارجہ نے بیان میں ملک کا نام تو نہیں لیا تاہم قیاس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کو شرکت سے روکنے والا رکن ملک بھارت ہی ہو سکتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ میزبان ملک ہونے کے ناطے چین برکس اجلاس سے قبل پاکستان کے ساتھ بات چیت میں شامل رہا ہے۔ برکس رکن ممالک کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلے کیے جاتے ہیں جبکہ غیر رکن ممالک کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ مئی میں برکس کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا. اس کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ برکس میں مزید ممالک کو بھی شامل کیا جانا چاہئے بھارت اس وقت سے ہی برکس کی توسیع کے خلاف پیش پیش رہا۔ اور اس نے اس کی توسیع کو روکنے کے لیے یہ توجیہہ پیش کی کہ پہلے اس کا ایک خاص معیار طے کیا جانا چاہئے کہ کون کون سے ممالک اس میں شامل ہوسکتے ہیں، اس کی مخصوص شرائط طے ہوں، پھر اس پر بات ہو سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک لمبا چوڑا راستہ اختیار کیا جائے جو کہ جلد عبور ہوتا نظر نہیں آ تا۔لیکن برکس کی تنظیم میں توسیع کے خلاف بھارت کی کوششوں کو پذیرائی نہیں مل سکی اور اگلے سال سے 6 نئے ممالک ارجنٹائن، مصر، ایران، ایتھوپیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو اس تنظیم میں شامل کرنے کا اعلان کردیا گیا، ان نئے اراکین کی باضابطہ رکنیت یکم جنوری 2024 سے شروع ہو گی۔ یہ 2010 کے بعد برکس کی پہلی توسیع ہوگی۔چین کے صدر شی جن پنگ نے، جن کا ملک اس غیر مغربی ممالک کے گروپ میں سب سے زیادہ طاقتور ہے، کہا کہ رکنیت میں یہ توسیع تاریخی ہے جو دنیا کی معیشت کے ایک چوتھائی حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔اراکین نے کہا کہ یہ گروپ عالمی معاملات میں گروپ آف سیون (جی 7) کے غلبے کا مقابلہ کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔چین اپنی ترقی کی وجہ سے برکس کا سب سے متحرک رکن ہے۔ روس اور جنوبی افریقہ نے بھی اس گروپ کی ترقی کے لیے چین کی تجویز کی حمایت کی۔چینی صدر شی جن پنگ نے اس سال اپنے دوسرے بیرون ملک دورے پر کہا کہ بلاک کی توسیع ’ہماری طاقت کو مستحکم کرے گی اور ایک منصفانہ اور زیادہ منصفانہ عالمی گورننس بنانے کے لیے ہماری حکمت کو جمع کرے گی۔
چینی صدر شی جن پنگ نے ابھرتی معیشتوں کے پانچ ملکی اتحاد برکس میں توسیع کو ’تاریخی‘ قرار دیا ہے چین اس اتحاد میں توسیع کے لیے کوشش کر رہا تھا تاکہ وہ اس سے مغربی غلبے کو کم کر سکے۔ لندن کے سوس چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سٹیو سانگبرکس کے اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اگرچہ برکس کے رکن ممالک میں بظاہر زیادہ چیزیں مشترک نہیں ہیں لیکن صدر شی اپنے اتحاد میں شامل ممالک کو یہ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ سب ایک جیسا مستقبل چاہتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی مغربی تسلط والی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا۔پروفیسر سانگ کا کہنا ہے کہ ’چینی جو کچھ پیش کر رہے ہیں وہ ایک متبادل عالمی نظام ہے جس میں خودمختار ملک خود کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔وہ یورپی اور امریکی جمہوریتوں کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو تسلیم کیے بنا ترقی کے متبادل راستوں کی تلاش کر سکتے ہیں اجلاس کے میزبان جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوساکا کہنا تھا کہ ’ہم دیگر ممالک کی برکس اتحاد میں شراکت داری قائم کرنے میں دلچسپی کو اہمیت دیتے ہیں مستقبل میں اس اتحاد میں مزید ممالک شامل ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس میں نیشنل سکیورٹی کے مشیر جیک سولیوان نے برکس اتحاد کی توسیع کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس حوالے سے ان کے بیان سے ظاہرہوتا ہے کہ امریکہ اس اتحاد میں توسیع کے خلاف ہے اور اسے پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے حوالے سے اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتاہے،یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اس تنظیم میں توسیع کے خیال کو عملی جامہ پہنائے جانے سے روکنے کیلئے اپنے طورپر پوری کوشش کی تھی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ برکس اتحاد میں توسیع عالمی سطح پر ایک بڑی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔اس تنظیم کو وسعت دینے کے فیصلے اور اس میں امریکہ کے پرانے اتحادی ممالک کو شریک کرنے کے فیصلے سے یہ ظاہرہوگیا کہ اب یہ ایسی دنیا نہیں ہے جہاں امریکہ تمام اصول طے کر سکتا ہے، یا تمام اداروں کو چلا سکتا ہے۔اس تنظیم کے اجلاس میں پاکستان کو شرکت کا نہ موقع نہ ملنے سے ایک دفعہ پھر ثابت ہوگیاہے کہ سفارتکاری کے محاذ پر ہماری پوزیشن اب بھی بہت کمزور ہے اور ہمارے وزرائے خارجہ اپنے منصب کو صرف غیر ملکی دورے کرنے اور تصاویڑ چھپوانے کے سوا کسی مثبت اور ٹھوس مقصد کیلئے استعمال کرنے اور لاکھوں ڈالر خرچ کرکے غیرملکی دورے کرنے کے باوجود ایسے دوست بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو عالمی سطح پر پاکستان کو کسی ایک ملک کی چیرہ دستیوں سے بچانے میں اپنانا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ہماری وزارت خارجہ کے ارباب اور سفارتکاروں کو اپنی اس ناکامی کا سختی کے ساتھ نوٹس لینا چاہئے اور اس بات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری سفارتی کوشش میں وہ کیا کمی ہے جو عالمی برادری میں ہماری تنہائی کا سبب بن رہی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں